"FBC" (space) message & send to 7575

تنگ آمد بجنگ آمد

تنگ آمد بجنگ آمد۔میڈیا سمیت اور سیاسی جماعتوں سمیت، اب تمام ادارے یا تو اپنی حدودمیں لوٹ جائیں گے یا ہم ایک اور حادثہ دیکھیں گے ؎
وقت کرتا ہے پرورش برسوں 
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
نون لیگ آخری بار آزمائی جا رہی ہے، عوام کی نگاہ میں۔ خواص ابھی سے ''یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں‘‘ گنگنارہے ہیں۔گو کہ وزیراعظم نواز شریف کی گزشتہ دو حکومتیں برطرف کی گئیں لیکن پنجاب میں حکمران جماعت کو کھل کے جوہر دکھانے کا موقع ملااور سچ پوچھئے تو مایوسی ہوئی۔ ہر بار پولیس اور پٹوار کو بدل دینے کا عزم۔ جرائم کی شرح بدترین۔ اب کی بار جو اسے موقع ملا ہے تو پرنالہ ایک بار پھر وہیں گر تا ہے ۔ انتظامی امور اور خزانہ تقسیم کرنے کی بنیاد مسائل کے حل کے لیے دیرپا منصوبہ بندی کی بجائے تحسین کی خواہش ۔ ایک آدمی بجلی کی سی تیزی سے ہر طرف اڑتا نظر آئے ۔ ہر گھر کے سامنے کنکریٹ اور لوہے کا ایک پل تعمیر کر دیا جائے۔ریاستی خرچ پر اگلے الیکشن کے ممکنہ ووٹروں کی جیب میں کوئی نہ کوئی تحفہ ڈال دو۔اصل مسائل جوں کے توں ہیں ؛البتہ توانائی کے منصوبوںمیں نون لیگ نے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ اگلے پانچ چھ برس میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم ہو جائے گی۔ جہاں تک قطر کی مائع قدرتی گیس کا تعلق ہے ، اس پر بڑے سوالیہ نشان ہیں ۔پچھلی دہائی میں ملکی ذخائر سکڑنے کے باوجود ٹرانسپورٹ کے شعبے کو گیس پر منتقل کیا گیا۔ملک کے طول و عرض میں سی این جی سٹیشن اور گاڑیوں میں سلنڈر نصب کر کے نجی سرمایہ برباد کیا گیا۔ اگلے پندرہ برس شاید اب ایسا ہی ایک اور تماشہ ہوگا۔ 
اب آجائیے حالیہ نئے بحران کی طرف۔کم ترین اخلاق رکھنے والا بھی کوئی شخص زخمی صحافی پر تنقید سے گریز کرے گا، خواہ عام حالات میں وہ اس کے طرزِ عمل کو کیسی ہی نگاہ سے دیکھتا ہو۔ فوج اور آئی ایس آئی بھی زخمی ہیں ۔ پچھلے دس برس میں بیس کروڑ عوام میں سے 45ہزار افراد شہید ہوئے اور چند لاکھ سکیورٹی اہلکاروں میں سے پانچ ہزار۔ ریاست پہ حملہ آور تحریکِ طالبان کا لطیف اللہ محسود افغان انٹیلی جنس کی گود سے برآمد ہوا تھا۔ بھارتی سینا ہزاروں کی تعداد میں افغان سپاہیوں کی تربیت کر رہی ہے ۔ خفیہ نہیں ، علی الاعلان۔ 65ء اور 71ء کی جنگیں فوج کے حافظے پر نقش ہیں اور یکطرفہ طور پر انڈیا کے سامنے خود سپردگی پر مجبور کرنے والے کسی بھی شخص اور ادارے کو وہ غیر معمولی شک کی نظر سے دیکھتی ہے ۔ انڈین میڈیا ڈٹ کر اپنی فوج کے ساتھ کھڑا ہے ۔ یہاں الٹی گنگا بہتی ہے ۔جنرل کیانی کے دور کا صبر اب ختم ہو رہا ہے ۔ گو کہ اسی طرزِ عمل نے فوج کی ساکھ بحال کرائی لیکن برداشت کی حد پار ہو چکی۔ شاباش نہ دیجیے مگر گالی تو بالکل نہیں ۔ 
آئی ایس آئی وزیراعظم کے ماتحت ہے اور چاہے نہ چاہے ، حکومت حالیہ بحران کا ایک فریق ۔ وزارتِ دفاع اور وزیرِ داخلہ کا حرکت میں آنا خوش آئند ہے لیکن حکومتی صفیں اس معاملے میں واضح طور پر منقسم۔ وزارتِ اطلاعات اور دیگر... زمین جنبد نہ جنبد گل محمد۔وزیراعظم مخمصے سے نکلیں۔ دورانِ جنگ سپاہ اور سالار اہم ہوا کرتے ہیں ۔ 
سیاسی جماعتیں سو رہی ہیں ۔ تحریکِ انصاف کومے میں ۔ پچھلے چند ماہ میں کراچی فتح کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لیڈر نو نقد نہ تیرہ ادھار کی تفسیر بنے بیٹھے ہیں ۔ میں نے لکھا تھا کہ جو ساکھ عمران خاں نے ورلڈ کپ ، شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی کی صورت میں کمائی تھی، چند لوگ اسے نوچ نوچ کے کھا رہے ہیں۔ غلط لکھاتھا۔ کپتان خود کو نوچ رہا ہے ۔ دہشت گردی پر جرات مندانہ موقف کی توفیق اور نہ قومی اداروں کے دفاع میں دو لفظ کہنے کی تمیز۔ پارٹی میں جس بڑی تقسیم نے جنم لیا تھا، نہ صرف وہ برقرار ہے بلکہ اندر ہی اندر پھل پھول رہی ہے ۔علاج نہ ہوا تو جوڑ توڑ کی ماہر مخالف جماعتیں جے یوآئی اور نون لیگ جلداس پوزیشن میں ہوں گی کہ صوبائی حکومت کو چلتا کر دیں ۔ خان دھاندلی کے خلاف مہم کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔ خود اس کے اپنے خلاف کئی منصوبے بن چکے ۔ رجب طیب ایردوان نے ایک شہر کے میئر سے ملک کے سربراہ کا سفر طے کیا تھا۔ ہماری نیک تمنّائیں ان کے ساتھ لیکن ایسا لگتاہے کہ تحریکِ انصاف صوبے سے واپس میانوالی لوٹے گی۔ وہ بھی اگر کالا باغ خاندان سے جان چھڑا سکی تو۔ 
اگلے چند ماہ غیر معمولی ہیں ۔سب تُل رہے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کا وزن ہو چکا اور وہ کم نکلی ۔ طالبان کے خلاف بلاول زرداری کی ہمّت کو سلام لیکن ان کا مستقبل ان کے پیشرو کھا پی چکے۔ ع
حسرت ان غنچوں پہ ہے ، جو بن کھلے مرجھا گئے 
قومی ادارے آئین میں اپنے طے شدہ مقام کی طرف لپک رہے ہیں ۔ عدالت اپنی حدود میں لوٹ چکی۔فوج چھ سال قبل ہی پلٹ گئی تھی لیکن اب ناجائز تنقید سننے کو تیار نہیں ۔ آزاد میڈیا کو ذمّہ داری اختیار کرنا ہوگی‘ ورنہ پے درپے کئی حادثے جنم لیں گے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں