"FBC" (space) message & send to 7575

زمین فساد سے بھر گئی

پاکستان اور افغانستان میں شدّت پسندی کا جن پوری قوت سے ناچ رہا ہے ۔ افغان طالبان کی حد تک یہ کہا جاسکتاہے کہ غیر ملکی افواج کے خلاف جنگ اور اپنی سرزمین آزاد کرانے کا انہیں پورا حق ہے۔ غاصب قوّتیں تو اب انخلا کر رہی ہیں ۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ کیا ایک بار پھر ''اسلام ‘‘اسی صورت میں نافذ ہوگا، جیسا کہ امیر المومنین جناب ملّا محمد عمر نے فرمایا تھا۔ جو شخص ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے گلے میں محاورتاً نہیں ، عملاً پھندہ ڈال کے درخت سے لٹکا دے ، اسے ایک طویل نفسیاتی علاج کی ضرورت ہے ۔ حالیہ صدارتی انتخابات میں عوام کی جوق در جوق شرکت سے صاف ظاہر تھا کہ عوام ملّائیت کے دوبارہ برسرِ اقتدار آنے کے تصور ہی سے خوفزدہ ہیں ۔ واحد عالمی طاقت کی سربراہی میں غاصب قوموں کے خلاف بارہ سالہ طویل جنگ بھی ملّا عمر اور ان کے پیروکاروں کو ہیرو کا درجہ عطا کرنے میں ناکام رہی ۔ یہ وہ لوگ ہیں ، جنہوںنے محبت کی بجائے خدا کو تشدّد کی علامت بنا کے رکھ دیا۔ بہرحال آج اصل موضوع یہ ہے کہ آنے والے مہ و سال میں یہاں شدّت پسندی میں کمی نہیں بلکہ اضافے ہی کا خدشہ ہے۔ ایک واحد صورت یہ ہے کہ کوئی بڑا لیڈر نمودار ہو، جو اس رجحان کے خلاف ایک زبردست عوامی تحریک اٹھا دے ۔ 
امریکہ سے آدھی معیشت والا چین ایشیا کا لیڈر کہلاتاہے ۔
اسے مستقبل کی عالمی طاقت کہا جاتاہے ۔ وہاں اب دہشت گردی کا مسئلہ سر اٹھا نے لگا ہے ۔ بدقسمتی سے چین میں بھی خود کو مسلمان کہلانے والے ہی ان سرگرمیوں میں ملوّث ہیں ۔ ایگور مسلم، جن کے رابطے پاکستان اور افغانستان کے شدت پسندوں کے ساتھ جڑے ہیں ، قتل و غارت گری میں کمال پیدا کرنے کی طرف تیزی سے رواں دواں ہیں۔مئی کے آغازپر ارمکی کے ریلوے سٹیشن پر خود کش بمباروں اور چاکو چھریوں کے حملے سے تین افراد ہلاک ہو گئے لیکن کن منگ کے قتلِ عام کے مقابلے میں یہ بہت ہی معمولی واقعہ تھا۔ مارچ میں ہاتھ میں خنجر اٹھائے 9انسان نما حیوان ریلوے سٹیشن پر کھڑے ہجوم پر حملہ آور ہوئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے انہوں نے 28افراد کو قتل اور 100کو زخمی کر ڈالا۔دو روزقبل انتہائی مہارت یافتہ افراد شورش زدہ علاقے سنکیانگ میں بھجوائے گئے ہیں کہ دہشت گرد واقعات کی روک تھام کی جائے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ حکومت کے خلاف پر امن احتجاج کی اجازت نہ ملنے کی وجہ سے بھی انتہا پسندی کے رجحان میں اضافہ ہے ۔ 
ایشیا کی سب سے خوفناک جنگی طاقت روس اپنے زخم چاٹنے کے بعد دوبارہ کھڑا ہو چکا ہے ۔ سوشلزم کے گیت گانے والے اور چند رٹے رٹائے جملے تمام عمر دہرانے والے دانشور کبھی اس سابق عالمی طاقت کے مظالم پہ روشنی نہ ڈالیں گے ۔ مذہبی اور سیاسی آزادی کے خلاف ریاستی جبر یہاں اس قدر خوفناک تھا کہ شاید تاریخ میں ایسی کوئی دوسری مثال ڈھونڈنا مشکل ہے۔ بہرحال یورپ اور امریکہ کے گھمنڈ کو اب وہ روندنے پر تلا ہے۔ یوکرائن کی مشرقی ریاستوں میں وہ بڑی چابکدستی سے روبہ عمل ہے ۔ اس سے پہلے شام اور ایران کے معاملے پر وہ اپنے مخالفین کی ناک رگڑ واچکا ہے۔
مشرقِ وسطیٰ لہولہان ہے ۔فلسطین اور اسرائیل کے دوسرے ہمسائے تو کبھی عافیت کا خواب بھی دیکھ نہیں سکتے ۔ صدام حسین کا عراق بھی ظلم و بربریت کی علامت تھا۔ عالمی طاقتوں کی مداخلت اور ناقص حکمتِ عملی نے وہاں ایک اورنہ ختم ہونے والی خوں ریزی کو ہوا دی ہے ۔ا ب شام بھی غیر مستحکم ہے ۔ قتلِ عام کی صلاحیت بشار الاسد کے جینز ہی میں شامل تھی۔ حالات نے اس خصوصیت کو بامِ عروج پہ پہنچا دیا ہے ۔ اقتدار کی بقا کے لیے اسے تمام عالمِ انسانیت کو قتل کر نا پڑا تو وہ کر ڈالے گا۔ مغرب مسائل اگانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ لیبیا میں بمباری کے بعد وہ رخصت ہوا ۔ اب وہاں فساد درفساد ہے۔ 
سعودی وزیرِ خارجہ کی طرف سے ایران کو دورے اور مذاکرات کی دعوت خوش آئند ہے۔ ماضی میں دونوں ریاستیں دہائیوں تک ایک پراکسی جنگ لڑتی رہیں، عالم اسلام کو جس کا بے حد نقصان ہوا۔ دیکھنا یہ ہے کہ احساس برتری کا شکار ایرانی اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔
افریقی ممالک میں دہشت گردی خوفناک حد تک بڑھ رہی ہے۔ نائیجیریاکے ''بوکو حرام ‘‘کا قصہ سب کے سامنے ہے۔ اس نے بھی اپنی انتہا پسند کارروائیوں سے قبل مذہب کا لبادہ اوڑھنے کو ترجیح دی۔ جدید تعلیم اس کے نزدیک حرام ہے ۔ مصر میں اسلامی قوتوں پہ جمہوریت کی راہ بند کر دی گئی ۔ مستقبل میں شاید اخوان بھی مسلّح جدوجہد پہ مجبور ہو جائے ۔ صومالیہ کا ''الشباب ‘‘گروہ ملک پہ قبضے کی جنگ لڑرہا ہے ۔ وہ بھی ''اسلام ‘‘ کاعلمبردار ہے ۔ موقع پانے پر وہ کینیا ، ایتھوپیا اور دوسرے ممالک تک اپنی کارروائیوں کا دائرہ بڑھا ڈالتاہے ۔ دنیا کی بہت سی ریاستوں میں ہر قسم کے جرائم پیشہ القاعدہ کی چھتری تلے جمع ہو چکے ۔ یہ وہی القاعدہ ہے جس کے ''شہید ‘‘رہنما مولانا اسامہ بن لادن بعض مذہبی رہنمائوں کے دل میں زندہ ہیں۔ جناب اسامہ کے نزدیک دشمن اقوام کے غیر مسلح اور پر امن شہریوں کی جان لینے میں کوئی قباحت نہ تھی۔ ان کی مقدس تنظیم نو عمر لڑکوں کو خود کش حملوں پہ اکسانے پہ مامور ہے۔ 
مغرب فی الحال محفوظ ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اپنی پوری آزادی کے ساتھ ایسی شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ دلوں میں ان کی ہیبت طاری ہے لیکن لکھ لیجیے کہ اگر اس نے اپنی پالیسیوں پہ نظرِ ثانی نہ کی تو ایک دن یہ آگ اس کے گھر تک جا پہنچے گی ۔ 
زمین فساد سے بھر چکی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں