منگل کے روز وزیر اعظم کی زیرِ صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں دہشت گردوں سے سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا ۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق کراچی حملے کے بعد اب بات چیت کے رہے سہے امکانات بھی ختم ہوچکے ہیں ۔اس کا کہنا یہ بھی ہے کہ تحریکِ طالبان کی تقسیم کے بعد فضل اللہ کے جنگجوئوں نے کراچی پر شدید حملے کی اپنی صلاحیت ثابت کی ہے۔ واضح رہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر محسود ہمیشہ سے اس شہر میں کارروائیوں کے مخالف رہے لیکن فضل اللہ کے امارت سنبھالنے کے بعد ان کے تحفظات ہوا میں اڑا دیے گئے ۔
بارہا میں لکھ چکا ہوں کہ شمالی وزیرستان میں کارروائی کو زیادہ سے زیادہ کچھ عرصے کے لیے ملتوی ہی کیا جا سکتا ہے ۔ جتنی اس میں تاخیر ہوگی، اتنا ہی ریاست کو نقصان ہوگا۔ یہی علاقہ امریکی ڈرون حملوں کا ہدف تھا۔ ریاست اپنی حدود کے اندر دہشت گردوں کے لیے ایسی محفوظ جنت برداشت نہیں کر سکتی، جہاں حکومت کی عملداری ختم ہو چکی ہو۔ مذہبی وسیاسی جماعتوں ، میڈیا میں دہشت گردوں کے لیے نرم گوشہ رکھنے والوں اور تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خاں نے وہاں کارروائی کے خلاف سخت ترین موقف اپنائے رکھا۔ دوسری
طرف نون لیگ کی قیادت کا مخمصہ یہ ہے کہ 30اکتوبر 2011ء کو لاہور میں تحریکِ انصاف کے جلسے اور پھر مئی 2013ء میں اس جماعت کا دوسری بڑی سیاست قوت بن کے ابھر نے کے بعد سے اس کے تمام تر فیصلے پی ٹی آئی کے ردّعمل کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیے جاتے ہیں۔ حکومتیں اپوزیشن جماعتوں کا سا طرزِ عمل اختیار کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتیں ۔ عوامی مفاد میں انہیں سخت فیصلے کرنا ہوتے ہیں۔ نون لیگ مقبولیت کی سستی سیاسست میں مشغول رہی۔
اوّ ل دن ہی سے نون لیگ کی قیادت یہ جانتی تھی کہ شمالی وزیرستان میں بہرحال کارروائی کرنا ہو گی۔ یہ بھی کہ جتنا جلد اس علاقے سے جنگجوئوں کے ٹھکانے ختم کر دیے جائیں ، اتناہی بہتر ہوگا۔ اس اثنا میں دہشت گرد زخم پہ زخم لگاتے رہے ۔ سوات میں جنرل ثنا ء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کو شہید کر دیا گیا۔ پشاور چرچ میں عیسائی اقلیت کے بے گناہ لوگوں کو قتل کیا گیا ۔تحریکِ طالبان نے اس کی ذمہ داری تو قبول نہ کی
لیکن یہ کہتے ہوئے قوم کے زخموں پہ نمک چھڑکا کہ یہ حملہ شریعت کے مطابق ہے ۔ دوسری طرف عسکری ذرائع یہ تصدیق کر رہے تھے کہ طالبان ہی نے یہ کارروائی کی ہے ۔ مہمند ایجنسی میں رینجرز کے 23جوانوں کو بہیمانہ طریقے سے شہید کیا گیا۔ یہ صرف چند نمایاں واقعات ہیں ۔ درحقیقت شمالی وزیرستان میں خود کش حملوں میں درجنوں سپاہی شہید کر ڈالے گئے۔ اس سارے عرصے میں مذہبی سیاسی جماعتیں ، تحریکِ انصاف اور میڈیا میں دہشت گردوں کے ہمدرد‘ مذاکرات کا ڈھول بجاتے رہے۔
پیپلز پارٹی کے دور میں 2009ء میں سوات اور جنوبی وزیرستان میں کامیاب فوجی آپریشن کیے گئے۔ شمالی وزیرستان میں اسی طرز کی چند ہفتوں پہ مشتمل کارروائی ہونا تھی مگر اسے ہوّا بنا دیا گیا۔ سوات ہی کے معرکے میں فضل اللہ زخمی حالت میں بمشکل تمام افغانستان فرار ہواتھا اور اس کے قریبی ساتھی ، بشمول ترجمان مسلم خان گرفتار کر لیے گئے ۔یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اس سے قبل ملّافضل اللہ اور اس کے سسر صوفی محمد سے مذاکرات کے ذریعے امن قائم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی تھی ۔ ا س بات چیت میں ان کا ہر جائز مطالبہ مان لیا گیا تھا ؛حتیٰ کہ صوفی محمد نے یہ اعلان کیا کہ وہ ملک کے آئین ہی کو تسلیم نہیں کرتے۔
اس سارے پسِ منظر میں یکم نومبر2013ء کو امریکی ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت اور اس کے کچھ عرصہ بعد ملّا فضل اللہ کے تحریکِ طالبان کا سربراہ بن جانے کے بعد ایک سوال میڈیا میں پوری شدّو مد سے اٹھایا گیاتھا۔ یہ کہ ایک بار جس شخص سے مذاکرات ناکام ہو چکے ، اب اس سے بات چیت میں کامیابی کی امید کیونکر رکھی جا سکتی ہے ۔ دوسری طرف حکیم اللہ محسود کی ہلاکت سے کچھ عرصہ قبل، جب طالبان اور حکومت دونوں مذاکرات پہ پوری طرح رضا مند تھے، فضل اللہ ہی نے جنرل ثناء اللہ نیازی اور ان کے ساتھیوں کو شہیدکر ڈالا تھا۔
شمالی وزیرستان میں شر پسندوں کے ٹھکانوں کا خاتمہ اور حکومتی رٹ قائم کرنا ملکی سلامتی کے لیے نہایت اہم ہے ۔ یہ ایسا ہی ہے ، جیسے خون کی شریانیں سکڑ جانے والے مریض کا بر وقت آپریشن ، جس میں تاخیر اس کی زندگی کے لیے خطرہ ہو۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں حتمی کامیابی کے لیے بہت سے دیگر اقدامات بھی اٹھانا ہوں گے ۔ مثلاً تمام صوبوں میں پولیس سربراہان کے میرٹ پر تقررسمیت اس کی ازسرِ نو تشکیل اور انٹیلی جنس کی بہتری ۔ دنیا بھر میں اندرونی دہشت گردی پر پولیس ہی قابو پایا کرتی ہے ۔ فوج اس کی صرف اس حد تک ہی مدد کر سکتی ہے کہ جس علاقے پر دہشت گرد قابض ہو جائیں ، زمینی اور فضائی حملوں سے ان کا صفایا کر دے ۔جب تک پولیس اور انٹیلی جنس کو بہتر نہیں بنایا جاتا، یہ جنگ طویل سے طویل تر ہوتی چلی جائے گی۔