"FBC" (space) message & send to 7575

دوسروں کو نصیحت؟

خبر یہ ہے کہ شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے ساٹھ فیصد ٹھکانے تباہ کر دیے گئے ہیں ۔ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور چین میں کارروائیاں کرنے والی ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم بھی تباہ ہو چکے مگر لاہور کے سانحے کے بعد یہ سب پسِ منظر میں ہے ۔شمالی وزیرستان آپریشن پر قوم اور سیاسی قیادت بالآخر متفق تھی مگر اب ملک دوبارہ سے احتجاج کی طرف جا رہا ہے ۔اس کارنامے پر حکمران جماعت کو کن الفاظ میں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے ، یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ۔ 
لاہور آپریشن کا فیصلہ کس کا تھا ؟ ایک مشتعل ہجوم کی موجودگی میں منہاج القرآن سیکرٹریٹ کے سامنے سے رات کے اندھیرے میں رکاوٹیں ہٹانے کا فیصلہ کیوں کیا گیا؟ نہتے افراد کے مظلوم قتل کے بعد سی سی پی او ، ڈی آئی جی آپریشنز اور ایس پی ماڈل ٹائون کومعطل کر دیا گیا ہے ۔ دوسری طرف جن لوگوں کو معطل کرنے کی ضرورت تھی، وہ نہ صرف اپنے عہدوں پر بدستور فائز ہیں بلکہ جلتی پہ تیل چھڑکنے کی اس مشق میں بھی مصروف ، جس میں وہ یدِ طولیٰ حاصل کر چکے ۔ زیادہ نہیں ، یہ تین چار لوگ ہیں ۔عام انتخابات میں نون لیگ کی کامیابی کے بعد ہی سے ان کے لہجوں سے تکبر ٹپک رہا ہے ۔لندن میں چودھری برادران اور علامہ طاہر القادری کی ملاقات ہوئی تو رانا ثنا ء اللہ 
نے اسے سیاسی بونوں کا اجتماع قرار دیا۔ خواجگان کی وہ تقاریر سب کو یاد ہیں جن پہ مشرف کے معاملے میں فوج نے سخت ردّعمل ظاہر کیا ۔پھر نہ صرف یہ کہ انہیں سانپ سونگھ گیا بلکہ خواجہ محمد آصف ہی کے دستخطوں سے ایک ٹی وی چینل کے خلاف درخواست پیمرا کو بھجوائی گئی ۔سیاسی مخالفین کے بارے میں بہرحال ابھی تک ان کے لہجوںمیں وہی گھمنڈ موجود ہے۔ عمران خان کے بارے میں بڑے خواجہ صاحب کہتے ہیں کہ مشرف سے خیرات میں ایک نشست لینے والے کو تیس سیٹیں کیسے مل گئیں ۔ 11مئی کے دن عمران خاں نے اسلام آباد میںجلسے کا اعلان کیا تو خواجہ سعدرفیق نے کہا :تحریکِ انصاف والے اپنی شکست کا ماتم اور ہم اپنی فتح کا جشن منانے آئیں گے ۔خدا خیر کرے،کمزور انسانوں کے لہجوں سے خدائی ٹپک رہی ہے ۔شریف خاندان نے ثابت کر دیا کہ انہوں نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ وہی غلطیاں ڈھٹائی سے دہرائی جا رہی ہیں ۔ کیمرے کی آنکھ کو جھٹلایا جا رہا ہے۔ سفید کو سیاہ اور سیاہ کو سفید ثابت کرنے کی کوشش رہی ہے۔ جس بات پر عقل کے اندھے بھی
یقین کر رہے ہیں‘ آنکھوں والے اس پر پردہ ڈالنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں۔کب تک ‘ ایسا کب تک چلے گا ۔ کیا بہنے والا خون رائیگاں چلا گیا؟
تکبر ہی نہیں ، انتقام بھی ۔علّامہ طاہر القادر ی کے کارکنوں کی شہادت کو اتفاق مان لیجیے مگر کیسے ؟ ابھی نون لیگ کے جن بزرجمہروں کا ذکر کیا ہے ، پچھلے دو ہفتوں سے ان کے بیانات ظاہر کر رہے تھے کہ وہ طاقت کے استعمال پہ تلے بیٹھے ہیں ۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے حوالے سے دھمکی آمیز ذو معنی بیانات دیے جارہے تھے۔ ایک وزیر موصوف نے فرمایا''طاہر القادری کا ایسا استقبال کیا جائے گا کہ دوبارہ وہ پاکستان آنے کا سوچیں گے بھی نہیں۔‘‘ایک صاحب نے کہا ''علّامہ صاحب کے جن اتار کر انہیں واپس بھجوایا جائے گا‘‘۔نام لینے کی اس لیے ضرورت نہیں کہ سب جانتے ہیں ، ایسے الفاظ کون سی ہستی استعمال کیا کرتی ہے ۔ شیخ رشید احمد نے ٹرین مارچ کا اعلان کیا تو وزیرِ ریلوے کا کہنا تھا کہ پہلے وہ پوری ٹرین کا کرایہ اداکریں وگرنہ انہیں اس کی اجازت نہ دی جائے گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سب افراد پرویز مشرف آمریت میں ریاستی جبر و تشدد کا شکار ہوئے مگر اب خود اسی انداز سے مخالفین پہ حملہ آور ہیں۔ کب تک وہ ایسا کریں گے ؟ ان کا اقتدار تو ابھی سے ڈول رہا ہے ؎
تم سے پہلے وہ جو اک شخص یہاں تخت نشیں تھا
اس کو بھی اپنے خدا ہونے پہ اتنا ہی یقیں تھا
قاف لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں لاکھ نقص نکالیے ، وہ خود پہ سخت ترین تنقید بھی گوارا کیا کرتیں۔ نون لیگ کا حال تویہ ہے کہ اپنے خلاف لکھنے والوں کے پیچھے وفادار لکھاری لگا دیے جاتے ہیں۔ 
آج کے شمالی وزیرستان آپریشن سے وہ نتائج بہرحال نہیں مل سکتے ، جو ایک سال قبل اچانک فوج کشی سے حاصل ہوتے ۔ اس ایک برس میں شدّت پسند نہ صرف یہ کہ ملک بھر اور افغانستان میںمحفوظ ٹھکانوں میں منتقل ہوئے بلکہ ذہنی طور 
پر وہ اس حملے کے لیے پوری طرح تیار تھے۔ اس ایک برس میں انہوں نے درجنوں فوجی جوانوں سمیت ان گنت شہریوں کو شہید کر ڈالا۔ سبھی باخبر لوگ یہ جانتے تھے کہ ایک نہ ایک دن فوج کو شمالی وزیرستان جانا ہے ۔ اس غیر معمولی تاخیر کے اسباب کا جب تعین کیا جائے گا تو تاریخ پختون خوا کے ایک لکھاری کا نام سنہرے حروف سے لکھے گی۔ تمام تر حالات سے واقف ہوتے ہوئے بھی یہ صاحب مذاکرات کے نام پر قوم کو گمراہ کرتے رہے ۔ دہشت گردوں سے انہیں اس قدر انس ہے کہ حکیم اللہ محسود کا دستِ راست لطیف اللہ افغان انٹیلی جنس سے پینگیں بڑھاتا ہوا گرفتار ہواتو ٹی وی پر بڑے سکون سے یہ فرمایا: لطیف اللہ تو تحریکِ طالبان میں کسی عہدے پر براجمان نہیں ۔ یہ حضرت مولانا فضل الرحمن کے قلمی کارندے کا کام انجام دیتے اور خود کو ''مزدور‘‘ کہلوانا پسند کرتے ہیں ۔ دوسروں کو ایک سے دوسرے اخبار میں نوکری کی تلاش کا طعنہ دیتے ہیں ۔ میں گواہ ہوں کہ وہ بھی زیادہ تنخواہ کے عوض دوسرے اخبار میں نوکری چاہتے تھے ۔ اس میں کوئی مضائقہ بھی نہیں ۔ لکھنے والا کسی دوسرے ادارے کا رخ کرنا چاہے تو یہ اس کا استحقاق ہے لیکن خود جس کارِ خیر میں شریک رہے ، اسی پہ دوسروں کو طعنے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں