"FBC" (space) message & send to 7575

کیا ہمیں انقلاب کی ضرورت ہے ؟

ضربِ عضب 2009ء کے سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن سمیت دس برس سے جاری جنگ کا سب سے اہم معرکہ ہے ۔ ایک ایسے زخم کی جراحی ، ایک پورا سال جسے بگڑنے کی مہلت دی گئی۔اللہ کے فضل سے ہم ایسی خوش قسمت قوم ہیں ، ہر میدان میں جو ''ماہرین ‘‘سے بھرپور ہے ۔ایسی ہی ایک ''ماہرانہ ‘‘رائے سنیے : دس فیصد طالبان بھی اب شمالی وزیرستان میں موجود نہیں ۔ قیادت افغانستان اور جنگجو ملک کے دیگر حصوں میں منتقل ہو چکے ۔صاحب الرائے انہی میں شامل ہیں ، آپریشن ملتوی کرانے کے لیے جو ہر قسم کا جواز گھڑتے رہے ۔ 
''انقلاب ‘‘ان چند گھسے پٹے عنوانات میں سے ایک ہے ، ملک کے طول و عرض ،بالخصوص سیاست اور میڈیا کے میدان میں اکثر و بیشتر جن پہ بحث ہوتی ہے ۔ علّامہ طاہر القادری انقلاب چاہتے ہیں ۔ ٹی وی میزبانوں کی روزی روٹی میں برکت ڈالنے والے شیخ رشید 2008ء کا الیکشن ہارنے کے بعد سے انقلابی ہیں ۔ آصف علی زرداری کے دورِ اقتدار میں ایک اہم جماعت کے لیڈر نے فوج کو انقلاب برپا کرنے کا مشورہ اور اس کارِ خیر میں اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ کم و بیش ہر اخبار میںایک آدھ سوشلسٹ کالم نگار موجود ہے ۔ انقلاب ہی کے
نام پر یہ حضرات خلقت کو ورغلانے کی اپنی سی کوشش میں مگن رہتے ہیں ۔ اور تو اور ملک کے سب سے بڑے صوبے کے وزیرِ اعلیٰ بھی درجنوں بار خونی انقلاب کی تنبیہ فرما چکے ہیں ۔کیسا انقلاب ، کون سا انقلاب ؟ 
فی الوقت سب سے مشہور انقلاب شیخ الاسلام ڈاکٹر طاہرالقادری کا ہے ۔کم از کم میں تو قادری انقلاب کے خدّ و خال سے واقف نہیں ۔ انتخابی سیاست میں سارے دائو پیچ آزمانے اور محض ایک نشست جیت سکنے کے بعد وہ مستعفی اور مایوس ہوئے ...اور ملک چھوڑ دیا۔ 2013ء کے عام انتخابات سے قبل پہلی بار وہ ''سیاست نہیں ریاست بچائو‘‘کا نعرۂ مستانہ بلند کرتے ہوئے ، انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے ملک تشریف لائے تھے ۔ عوام کی ایک قابلِ ذکر تعداد نہ صرف یہ کہ ان کے گرد جمع ہو ئی بلکہ شدید سردی میں کھلے آسمان تلے پڑی رہی۔ پھر کیا ہوا؟ وہ بزورِ طاقت کوئی بڑی تو کیا، چھوٹی سی تبدیلی بھی لا نہ سکے اور نہ ہی اپنی پیداکردہ تحریک سے الیکشن میں حصہ لے کر مستفید ہو سکے ۔ اپنی اور مخلوق کی توانائی برباد کی اور لوٹ گئے ...اور جس طرح لوٹے، وہ قابلِ رحم نہیں تو قابلِ افسوس ضرور تھا۔
اب کی بار جو وہ میدان میں اترے توبا آوازِ بلند تین بار فوج کو پکارا۔ اوّل ملک واپسی کا اعلان کیا تو کہا کہ فوج کے علاوہ اب کسی کے کہنے پر رکوں گا نہیں ۔ اسلام آباد کی بجائے ان کا طیارہ لاہور ائیرپورٹ پہ اتارا گیا تو کہا کہ کوئی اعلیٰ فوجی افسر، کوئی کور کمانڈر آئے تو وہ جہاز سے باہر تشریف لائیں گے ۔ اب تیسرا اعلان یہ ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے پانچ لاکھ متاثرین
تک وہ امداد پہنچائیں گے... خیبر پختون خوا حکومت اور فوج کی مدد سے۔ ہر منصوبے کی تان فوج پہ جا کہ کیوں ٹوٹتی ہے ، یہ معلوم نہیں ۔ اتنا میں ضرور کہہ سکتا ہوں کہ دس سالہ خونی جنگ کے اہم ترین فوجی آپریشن کے موقعے پر وہ اپنا انقلاب دو چار ماہ کے لیے ملتوی فرما تے تو یہ عین ملک کے مفادمیں ہوتا...اور اگر مستقل طور پر اس کا خیال دل سے نکال دیں تواور اچھا ہے ۔ عسکری قیادت ان کی ملک واپسی اوراس کے نتیجے میں شمالی وزیرستان آپریشن سے توجہ ہٹ جانے پہ یقینا جز بز ہوئی ہوگی۔ غالباً موقعے کی اہمیت کو پوری طرح جانچ کر ہی انہوں نے فوج کے رابطہ کرنے کی صورت میں ملک واپسی سے رکنے کا اعلان کیا تھالیکن فوجی قیادت نے عقل مندی سے کام لیا اور خاموش رہی ۔ شیخ الاسلام کو جلدلوٹ جانا ہے (گو کہ اب یہ امکان بھی موجود ہے کہ واپسی کے راستے بند کر دیے جائیں )اور ان کا دامن تھام لینے والے شرمندہ ہوں گے ۔
بہتری بتدریج ہوتی ہے ۔ بتدریج آدمی اور قومیں اپنے مسائل سے چھٹکارا پایا کرتے ہیں ۔ انقلابِ فرانس سے روس کے انقلاب تک، خون خرابے کے سوا کبھی کچھ حاصل نہیں ہوا۔ مغرب کی بالادستی کا راز جہاں تحقیق ، تعلیم اور نتیجتاً بہتر ٹیکنالوجی 
میں چھپا ہے ، وہیں سخت کوشی اور سب سے بڑھ کر اداروں کی تعمیر ۔ برطانوی پولیس قانون نافذ کرنے کا فیصلہ کرلے تو ملک کا وزیراعظم اسے روک نہیں سکتا۔ ایسی کسی کوشش کا انجام اس کے اقتدار کا خاتمہ ہوگا۔طاہر القادری اپنا شوق پورا کر لیں۔ تحریکِ انصاف قومی اور صوبائی اسمبلیوں سے مستعفی ہو کر لانگ مارچ کرلے ۔ نتیجہ کیا ہوگا؟ میں مسلم لیگ نون کے طرزِ حکومت کا سخت ترین ناقد ہوں لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام ابھی اسے مہلت دینا چاہتے ہیں ۔یہ بات درست ہے کہ اگلے الیکشن کو ذہن میں رکھتے ہوئے نمائشی منصوبوں پہ دولت بے دردی سے لٹائی جا رہی ہے لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ بجلی کے بڑے منصوبوں کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ دہشت گردی کے خلاف سمت اب درست ہے ۔ حکومت گرا دی جائے اور عمران خان اپنی پارٹی کی موجودہ صورتِ حال کے ساتھ برسرِ اقتدار آجائیں تو کیا ہوگا؟ مزید تباہی ۔ 
کیا طاہر القادری ہمارے نجات دہند ہ ہیں ؟ جی نہیں ، ان کے سارے خواب ذاتی عظمت کا پیغام ہیں ۔ کیا عمران خان ملک کو بہتری کی طرف لے جا سکتے ہیں ؟ جی ہاں ، اگر وہ خود سے اور اپنی جماعت سے برسرِ جنگ ہو سکیں ۔ ابھی وہ ایک بلبلِ شوریدہ ہیں ۔ ابھی ان کا نغمہ خام ہے ۔ ابھی خام ہے !

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں