آج اصل موضوع سے پہلے شمالی وزیرستان آپریشن میں تاخیر کی وجوہ ۔ سوات اور جنوبی وزیرستان میں کارروائی 2009 ء میں صوفی محمد سے مذاکرات کی ناکامی کے بعد ہوئی تھی۔یہ دونوں کامیاب آپریشن جنرل کیانی کی قیادت میں کیے گئے ۔ یقینا وہ ان خوشگوار یادوں میں شمار ہوں گے ، سابق آرمی چیف اپنی سبکدوشی کے بعد جن پر نازکرسکتے ہیں لیکن شمالی وزیرستان ؟ بلا شبہ اس میں تاخیر سے ملک و قوم اور خود افواج کو سخت نقصان ہوا لیکن کیا جنرل کیانی اس کے ذمہ دار ہیں ؟
ایک پہلو تو خود جنرل اطہر عباس ہی نے بیان کر دیا کہ افغانستان میں براجمان عالمی طاقت اس کا مطالبہ کرتی رہی اور امریکہ مخالف جذبات کی بنا پر مشکلات پیدا ہوئیں ۔ڈرون حملوں کی وجہ سے بھی عالمی طاقت کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا۔قوم کے نونہال (جن میں میرے کچھ عزیز دوست بھی شامل تھے)انٹر نیٹ سے عورتوں اور بچوں کی لاشیں ڈھونڈ نکالتے اور جلی حروف سے ان پر یہ لکھ دیتے کہ یہ شمالی وزیرستان کے شہید ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ اپنے تمام تر استعماری گھمنڈ کے ساتھ امریکی حقانی نیٹ ورک کے خلاف اور شمالی وزیرستان میں کارروائی کا مطالبہ کرتے رہے ۔پھر آئی ایس آئی اور پاکستانی فوج کے خلاف عالمی میڈیا میں ایک مہم چلائی گئی۔ 9اکتوبر 2012ء کو ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا ۔ پاک فوج کے ہیلی کاپٹر میں اسے ہسپتال اور پھر بیرونِ ملک منتقل کیا گیا تو سوشل میڈیا پر ہزاروں کی تعداد میں پیغامات اور پوسٹس (Posts)کا تبادلہ ہوا۔ ان سب کا خلاصہ یہ تھاکہ یہ ایک ڈرامہ ہے جو کہ شمالی وزیرستان میں جا گھسنے کے لیے رچایا گیا ہے ۔
یہی نہیں ، تحریکِ انصاف اور نون لیگ دونوں ہی پیپلز پارٹی کوجنرل مشرف کی پالیسی جاری رکھنے کا طعنہ دیتے ہوئے یہ عزم کیا کرتیں کہ برسرِ اقتدار آ کر وہ مذاکرات کی راہ اپنائیں گی۔ 2013ء میں یہ نکتہ دونوں کی انتخابی مہم کا ایک اہم حصہ تھا ۔ اسی بنا پر طالبان نے انہیں انتخابی مہم جاری رکھنے کی اجازت اور پیپلز پارٹی ، ایم کیو ایم اور اے این پی کو نشانہ بنانے کا اعلان کیا تھا۔ پھر میڈیا میں ایک پروپیگنڈہ بریگیڈ تھی ، جس نے اس آپریشن کو ہوّا بنا ڈالا تھا؛حالانکہ اچھی طرح سب جانتے تھے کہ جلد یا بدیر فوج کو وہاں جانا ہے ۔ عسکری قیادت بھی یہ جانتی تھی ؛لہٰذا ایک پورا سال وہ اس کی تیاری میں مشغول رہی۔ نواز شریف وزیراعظم بنے تو جنرل
کیانی نے انہیں بتایا کہ دو ہفتے کے نوٹس پر فوج کارروائی کے لیے تیار ہے ۔ ساتھ یہ بھی کہا کہ اس اقدام سے دہشت گردوں کی قوت میں چالیس فیصد کمی آئے گی۔ جناب عمران خان تک پہنچتے پہنچتے یہ حقیقت اس افسانے میں بدل چکی تھی ''شمالی وزیرستان آپریشن کی کامیابی کا امکان صرف چالیس فیصد ہے‘‘ پھر وہ اس کا ڈھول پیٹتے اور قوم کو خوف زدہ کرتے رہے ۔ تو سیاسی قیادت ''مذاکرات ، مذاکرات ‘‘کھیلتی رہی ۔ اس اثنا میں ایک پورا سال گزر گیا۔ جنرل کیانی سبکدوش ہو گئے۔ والدِ محترم کے ہمراہ میری ان سے ملاقات ہوئی تو جنرل صاحب نے یہ کہا : دہشت گرد کراچی اور بلوچستان سمیت ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ شمالی وزیرستان میں کارروائی سے ان کی طاقت میں چالیس فیصد کمی آئے گی لیکن ہمیں یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی ۔یہ نہیں کہ صرف اس ایک کارروائی سے مکمل امن قائم ہو جائے گا۔
میڈیا میں اب ہر قسم کے تبصرے مفت میسر ہیں ۔ ایک صاحب ہیں جو پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ سے ہوتے ہوئے پیپلز پارٹی کے لیڈر اور بھٹو کے دیوانے بنے ۔ وہ ساٹھ ہزار پاکستانیوں کی شہادت جنرل صاحب پہ ڈالنا چاہتے ہیں ۔ مصیبت یہ ہے کہ ان کی اپنی ساکھ صفرسے گھٹتے گھٹتے منفی ہو چکی ہے ۔ بہرحال ہر آدمی کا اپنا سچ ہے اور ہر آدمی اپنے سچ کا خود ذمہ دار ۔ کچھ کے بہت سے جھوٹ ہیں اور اسی بے حیائی میں وہ کذاب کا رتبہ پا چکے ہیں ۔ بہرحال فوجی حلقوں کا کہنا بھی یہی ہے کہ جنرل اطہر عباس اگر اپنے سابق چیف کو ذمہ دار سمجھتے بھی تھے تو یہ اظہار کا وقت قطعاً نہیں تھا۔ ہمارے جوان ایک خونی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ آخری اطلاعات تک ان میں سے 17شہید ہو چکے ہیں ۔
قارئین آج سیاست کی بجائے میں ایک سائنسی موضوع پر ، آدمی کے اندر کی دنیا پر لکھنا چاہتا تھا۔ بعض اوقات ایک کتاب کے صفحات پلٹتے ہوئے اتنی بڑی حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم ششدر رہ جاتے ہیں ۔ گزشتہ ہفتے میں نے ''انسانی دماغ کی شان و شوکت اور اس کے اسرار‘‘ "Marvels and mysteries of human mind" کا ذکر کیا تھا۔ رحمِ مادر میں بچے کے جسم کی جو پہلی قابلِ شناخت چیز نظر آتی ہے ، جو اس کا اعصابی نظام ہوتا ہے ، یعنی دماغ اور ریڑھ کی ہڈی۔ اسی کے گرد پھر باقی جسم تشکیل پاتاہے ۔ باقی جسم کی طرح ،یہ اعصابی نظام بھی چھوٹے چھوٹے خلیات پر مشتمل ہوتاہے ، جنہیں ''اعصابی خلیہ ‘‘یا نیوران کہتے ہیں ۔ گو کہ ہم چلنے پھر نے کے لیے بھی انہی کے محتاج ہیں لیکن اس سے بڑھ کر یہ کہ اس دنیا میں جو کچھ بھی ہم کرتے ہیں اور جو کچھ بھی ہم جانتے ہیں ، سب کا سب ایک اعصابی خلیے سے دوسرے تک پیغامات کی درست ترسیل پر منحصر ہے ۔ اس نظام میں خلل پیدا ہو جائے تو آدمی مفلوج ہو سکتا ہے ۔ وہ پارکنسن اور ڈیمنشیا کا مریض بن سکتاہے ۔ ہماری سوچنے اور منصوبہ بندی کی ساری صلاحیت ایک اعصابی خلیے سے دوسرے کے درمیان کامیاب پیغام رسانی پر مشتمل ہے ۔
سچ ہے کہ خوردبینی سطح پر اترے بغیر انسان کائنات اور خود اپنے آپ کو کبھی سمجھ نہیں سکتا۔