"FBC" (space) message & send to 7575

کس بات کی عجلت ہے ؟

چوبیس گھنٹوں میں وزیرِ داخلہ چوہدری نثار علی خان دوسری بار وزیراعظم سے ملے ہیں ۔ حمزہ شہباز بھی اس موقع پر موجود تھے ۔ چوہدری صاحب کی سیاست پہ نظر رکھنے والے جہاندیدہ افراد کی رائے یہی ہے کہ معاملات جلد درستگی کی جانب جائیں گے ۔ گو کہ تحریکِ انصاف کی صورت میں اب ایک متبادل جماعت موجود ہے۔الیکشن سے قبل کپتان سے ان کی تمام تر تلخی کے باوجود ،شریف خاندان کو مات دینے کے آرزومند عمران خان کھلے دل سے انہیں خوش آمدید کہہ رہے ہیں لیکن تحریکِ انصاف حکمران نہیں ، اپوزیشن جماعت ہے ۔ جس راستے پہ وہ چل رہی ہے ، آنے والے برسوں میں بھی اس کے برسرِ اقتدار آنے کے امکانات بہت کم ہیں... اور اقتدار ہی سیاست کی منزل ہوا کرتی ہے ۔ پھر یہ کہ جاوید ہاشمی اور شاہ محمود قریشی سے لے کرجہانگیر ترین اور پرویز خٹک تک ، تحریکِ انصاف کا تمام تر مال و متاع پہلے ہی لٹ چکا ہے ۔ 
مخدوم جاوید ہاشمی سب سے قد آور لیڈر ہیں، نون لیگ سے جدا ہو کر جنہوں نے تحریکِ انصاف کا رخ کیا تھا لیکن تب حالات اور تھے ۔ 30اکتوبر 2011ء کو مینارِ پاکستان میں تحریکِ انصاف نے ایک تاریخ سا ز جلسہ منعقد کیا تھا۔ الیکشن قریب تھا اور یہ امکان روشن کہ پی ٹی آئی جیت جائے گی ۔ یوں بھی جاوید ہاشمی کے اختلافات کی نوعیت چوہدری نثار کی نسبت بہت زیادہ سنگین تھی ۔ چوہدری نثار علی خان تو اس سے قبل بھی روٹھتے مانتے رہے ہیں ۔ 
حکمران جماعت پہ برا وقت ہے ۔ بلوچستان میں ارسلان افتخار والا معاملہ الگ، نون لیگ کی صوبائی قیادت ماتھے پر تیوریاں ڈالے بیٹھی ہے ۔ یہی معاملہ سندھ کا ہے ، جہاں نون لیگ کے اتحادی رنجیدہ ہیں ۔ پنجاب میں منہاج القرآن والے سانحے کے بعد رانا ثناء اللہ جیسے وزیر کو استعفیٰ دینے پر مجبور ہونا پڑا... اور پختون خوا میں مرکز مخالف حکومت قائم ہے ۔ عوامی تحریک کے کارکنوں پہ گولیاں برسا کر علّامہ طاہر القادری کے غبارے میں ہوا بھر دی گئی اور وہ ''انقلاب‘‘ کی تیاریوں میں مشغول ہیں ۔ ادھر عمران خان سونامی مارچ کے لیے پر تول رہے ہیں ۔وہ پختون خوا اسمبلی کی تحلیل کا اشارہ بھی دے چکے ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن جاری ہے بلکہ چند ماہ قبل سیاسی اور فوجی قیادت میں تلخی بھی موجود تھی ۔یہ تمام حالات ذہن میں رکھتے ہوئے ، تیس اراکینِ اسمبلی کی چوہدری نثار سے پنجاب ہائوس میں ملاقات کو اگر شو آف فورس سمجھ لیا جائے تو صاف ظاہر ہے کہ وزیراعظم بھی چوہدری صاحب کی علیحدگی کے متحمل نہیں ۔ دلوں میں رنجشیں رہیں گی مگر حالات کا جبر ایک ساتھ رہنے پر مجبور کردے گا۔ 
وزیرِ داخلہ کے میاں صاحب سے اختلافات اپنی جگہ، زیادہ سنگین اطلاعات یہ ہیں کہ ایک نہیں ، نون لیگ میں کئی دھڑے تصادم کی راہ پر ہیں ۔ ایک کی قیادت وزیرِ خزانہ اسحٰق ڈار فرما رہے ہیں ، دوسری طرف وزیرِ دفاع خواجہ آصف ہیں ۔پھر خادمِ اعلیٰ پنجاب ہیں ، جن کی تمام تر حمایت چوہدری نثار صاحب کو میسر ہے ۔ کیا شدید چیلنجز میں گھری قوم کی قیادت ایک ایسی جماعت کر سکتی ہے ، جس کے کلیدی وزرا باہم حالتِ جنگ میں ہوں ؟ 
اگر اعلیٰ اخلاقی ساکھ کی حامل ایسی جماعت برسرِ اقتدار ہوتی ، کارکردگی کے طفیل عوام جس کی پشت پہ کھڑے ہوتے تو علّامہ طاہر القادری سے آسانی سے نمٹا جا سکتا تھا۔ خدا خدا کر کے جمہوریت کا تسلسل اس ملک کو نصیب ہوا ہے ۔ ادھر ''انقلاب‘‘ کے نام پر وہ انتشار پھیلانے پہ بضد ہیں ۔کس بل پر وہ سارے نظام کو اکھاڑ پھینکے کا اعلان کر رہے ہیں ؟ کس بنا پر وہ سرکاری ملازمین کو حکومتی احکامات تسلیم نہ کرنے کا حکم دے رہے ہیں؟ 
اپنے قلم سے میں انصاف نہ کروں گا، اگر اسی سانس میں کپتان کے اس بیان کی مذمّت نہ کروں ، جس میں وہ پولیس والوںکو اپنے ہاتھ سے پھانسی دینے کا اعلان کرتے ہیں ۔ نوجوان طبقہ اپنے لیڈر کے ایسے بیانات کی بنا پر مشتعل اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے پر تل جائے تو نتیجہ کیا ہوگا ؟کیا وہ تحریکِ انصاف کو ایک متشدّد جماعت میں بدلنا چاہتے ہیں؟ علّامہ طاہر القادری کو کینیڈا لوٹ جانا ہے مگر کپتان کا مستقبل تو اسی سرزمین سے وابستہ ہے ۔ دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کا انہیں پورا حق ہے لیکن تاریخ کے ایک اہم ترین فوجی آپریشن کے موقع پر کیا یہ طرزِ عمل درست ہے ؟ اس کی بجائے اگر وہ پختون خوا میں نقائص سے پاک الیکٹرانک ووٹنگ کے تحت بلدیاتی انتخابات منعقد کراتے ۔ اگر اپنی اس کامیابی کو وہ میڈیا اور عوام کی بارگاہ میں ثابت کر دیتے تو کیا باقی حکومتیں دبائو کا شکار نہ ہوتیں ؟ اگر وہ کارکردگی کے میدان میں پنجاب اور مرکز کی شریف حکومت کو منہ کے بل گرا دیتے تو کیا اگلے الیکشن میں کوئی ان کا راستہ روک پاتا؟
سیاست کے سارے بازی گر عجلت اور بے چینی کا شکار کیوں ہیں ؟آج ہی وہ ساری حسرتیں نکالنے پہ کیوں تلے ہیں ؟ کیا انہیں یہ یقین نہیں کہ صبح آفتاب پھر طلوع ہوگا؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں