"The man who guards the planet"یہ ٹائم میگزین کے ایک مضمون کی سرخی ہے ۔ خلا میں ایسی بڑی چٹانیں موجود ہیں ، کرّۂ ارض پہ گرنے کی صورت میںجو ناقابلِ یقین تباہی مچا سکتی ہیں ۔ ہماری ساری زندگی زمین کی کششِ ثقل کے تحت گزرتی ہے ۔یہ قوّت اتنی زیادہ ہے کہ چڑھائی پر قدم اٹھانے کے لیے ہمیں خاصی مشقّت کرنا پڑتی ہے ۔ خلا میں چونکہ یہ قوت موجود نہیں ؛لہٰذا ان چٹانوں کی رفتا ر خطرناک حد تک زیادہ ہوتی ہے ۔ 15فروری 2013ء کو روس کے شہر چیل یا بن سک (Chelyabinsk)میں 20میٹر کا ایسا ہی ایک پتھر آگرا تھا۔ زمین کی فضا میں داخل ہوتے ہوئے ، وہ ایک زورداردھماکے سے ٹکڑوں میں تقسیم ہو ا ۔ اس دھماکے کی شدّت اور اس سے پیدا ہونے والی توانائی جاپان کے شہر ہیرو شیما پر گرنے والے ایٹم بم سے 33گنا زیادہ تھی ۔یہ واقعہ چونکہ فضا میں بہت بلندی پر پیش آیا ؛چنانچہ 33ہیرو شیما بموں جیسی تباہی ہرگز رونما نہیں ہوئی ۔ ہاں ، زمین پر جب وہ کنکریوں میں تقسیم ہو کر برسا تو 1600 لوگ زخمی ہوگئے ۔
روس کا حادثہ بہت معمولی تھا بلکہ ناقابلِ ذکر۔ اس لیے کہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے میکسیکو کے علاقے چک ژولب میں جو دس کلومیٹر قطرکی چٹان آگری تھی، وہ تین ارب ہیرو شیما بموں کے برابر تھی ۔ اس کے بعد زلزلے اور سونامی رونما ہوئے ۔ کرّۂ ارض کو
گرد نے ڈھانپ لیا اور درجۂ حرارت ایک طویل عرصے کے لیے گر گیا۔ سائنسدانوں کی اکثریت یقین سے یہ کہتی ہے کہ اسی واقعے نے ڈائنا سار سمیت زمین کے 70فیصد جانداروں کو ختم کرڈالا تھا۔اس لیے بھی کہ ان کی باقیات (ڈھانچے اور فاسل) اس دور کے بعد ناپید ہو جاتے ہیں ۔مضمون نگار کہتاہے کہ اب بھی اس حجم کی چار چٹانیں ہمارے سیارے کے قریب موجود ہیں ۔وہ ہمارا نام و نشان تک مٹا سکتی ہیں ؛لہٰذا ان پر نظر رکھنا بہت ضروری ہے ۔ اس مقصد کے لیے ناسا کی ایک خصوصی لیبارٹری کیلیفورنیا میں بنائی گئی ہے ۔ یہ سب بہت اہمیت کا حامل ہے لیکن ایک منٹ ذرا ٹھہر جائیے... ہمیں زیادہ خطرہ باہر نہیں ، اندر سے لاحق ہے !
تاریخ میں پہلے شاید گوریلا جنگوں اور مسلّح بغاوتوں نے کبھی اتنی ریاستوں کو اپنی لپیٹ میں نہ لیا ہوگا ۔ نائیجیریا، یمن اور شام کو فی الحال رہنے دیجیے ۔ یوکرائن کو بھی نظر انداز کر دیجیے ، جہاں روس اور یورپ عملاً حالتِ جنگ میں ہیں ۔ افغانستان ، عراق اور لیبیا ان ممالک میں شامل ہیں ، جہاں عالمی طاقت امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے فوجی طاقت سے حکومتوں کے تختے الٹے ۔ تیرہ برس قبل افغانستان اور پھر عراق کی جنگ شروع کرتے ہوئے دہشت گردی کوجڑ سے اکھاڑ دینے کا عزم کیا گیا تھا۔ چار جولائی کو طالبان نے کابل کے نواح میں نیٹو کو تیل سپلائی کرنے والے 400سے زائد ٹینکر تباہ کر ڈالے تھے ۔یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اتحادی فوجوں کی مکمل واپسی کے بعد صورتِ حال کیا ہوگی۔ عسکری ماہرین کا کہنا یہ ہے کہ افغان فوج اس قدر منظّم اور تربیت یافتہ ہرگز نہیں کہ غیر ملکی فوجوں کے انخلا کے بعد ملک میں امن قائم کر سکے ۔ دوسری طرف ایک شدید سیاسی بحران ہے ۔ بظاہر اشرف غنی صدارتی الیکشن جیت چکے ہیں لیکن پہلے رائونڈ میں 14فیصد زیادہ ووٹ لینے والے عبد اللہ عبد اللہ کسی صورت نتائج تسلیم کرنے کو تیار نہیں ۔ وہ متوازی حکومت قائم کرنے کا عندیہ دے رہے ہیں ۔نہ صرف یہ کہ الیکشن کمیشن بڑے پیمانے کی دھاندلی تسلیم کر چکا بلکہ صدر اوباما انہیں نتائج میں ممکنہ تبدیلی کی تسلّی دے رہے ہیں ۔ افغانستان کے عدم استحکام کے اثرات نہ صرف پاکستان بلکہ چین، ایران ، حتیٰ کہ بھارت تک کو اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں ۔
عرا ق کا مسئلہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے ۔ افغانستان کے پشتون اور نان پشتون فیکٹر کے برعکس یہاں شیعہ سنّی تقسیم زیادہ گہری ہے ۔ امریکی پشت پناہی سے بننے والی نوری المالکی کی حکومت نے اقلیتی فرقے میں گہرا احساسِ عدم تحفظ پیدا کیا؛حتیٰ کہ شدّت پسند غالب آگئے۔ بغداد پہ نظر رکھنے والے ماہرین کی رائے یہ ہے کہ عملاً اب وہ تین آزاد ریاستوں میں منقسم ہوتا نظر آرہا ہے ۔اسلامک سٹیٹ آف عراق اینڈ دی لیونٹ (ISIL)القاعدہ کے بعد دوسری طاقتور ور ترین دہشت گرد تنظیم بن کے ابھری ہے ۔ آنے والے برسوں میں بہرحال یہاں عدم استحکام اور فساد درفساد نظر آرہا ہے ۔شام پہلے ہی سے ایک بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے ۔ یہاں امریکہ ، ایران ، روس اور مختلف عرب ممالک اپنے حامی گروہوں کی علی الاعلان پشت پناہی کر رہے ہیں ۔
پاکستان میں دہشت گردی کا عفریت کیونکر پیدا ہوا؟ 1979ء میں سویت یونین اور پھر 2002ء میں امریکہ کا افغانستان پہ قبضہ اس کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ بہرحال یہ خوش آئند ہے کہ شمالی وزیرستان میں اب نہ صرف یہ کہ انتہا پسندعناصر کے آخری ٹھکانے تباہ کیے جا رہے ہیں بلکہ عراق ، شام اور افغانستان کے برعکس یہاں خانہ جنگی جنم نہیں لے سکی... اور یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے ۔ میڈیا اور عدلیہ سمیت، اہم قومی اداروں کی تشکیل کا عمل جاری ہے ۔ عسکری قیادت بہرصورت سیاست سے دور رہنا چاہتی ہے ۔ سیاسی حکومتوں کی کارکردگی اچھی نہیں لیکن الیکشن کے ذریعے اقتدار پر امن طور پر منتقل ہونے لگا ہے ۔ پولیس اور انٹیلی جنس کی استعداد (Capacity)میں اضافے سے ملک بد امنی اور عدم استحکام کی گہری دلدل سے باہر نکل سکتا ہے ۔
دہشت گردی اب علاقائی نہیں ، ایک عالمی مسئلہ ہے ۔ عراق کے ہمسایہ ممالک بشمول ترکی اور جزیرہ نمائے عرب انتہا پسندی کی آگ سے محفوظ رہنے کی تگ و دو میں مصروف ہیں ۔ وسط ایشیائی ریاستوں سے تعلق رکھنے والے انتہا پسند بالخصوص ازبک جنگجو افغانستان ، پاکستان ، حتیٰ کہ چین میں دہشت گردی کی آگ بھڑکا رہے ہیں ۔ عراق و شام کی خانہ جنگی تمام مشرقِ وسطیٰ کو نشانہ بنانے کے بعد ترکی اور پھر یورپ کا رخ کر سکتی ہے ۔لیبیااور مصر سمیت، افریقہ پہلے ہی جنگ ، بھوک اور غربت تلے دباہوا ہے ۔ اقوامِ عالم ملکی اورعلاقائی مفادات کی بجائے عالمی امن کی خاطر یکجا نہ ہوئیں تو دنیا تیزی سے تباہی کی جانب بڑھے گی۔