کشمیر کی صورت میں ایک فلسطین ہمارے ہاں بھی آباد ہے اورقارئین غزہ کا ماجرا سننا چاہتے ہیں ۔مذہبی اور انسانی بنیادوں پر یہ ہمارے لیے ایک جذباتی مسئلہ ہے ۔ نصف صدی سے زیادہ عرصے میں ، اس موضوع پر اتنا کچھ لکھا جا چکا کہ مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں۔ عالمی طاقتوں کی پشت پناہی سے ایک خطۂ ارض کی مقامی آبادی کی جبری بے دخلی ، ظلم و تشدّد، یہودی ریاست کا جدید ترین روایتی و جوہری ہتھیاروں سے لیس ہونا ، اقوامِ متحدہ کی بے بسی ، شیعہ سنّی کی تفریق میں بٹا مشرقِ وسطیٰ ، دولت مند عرب ریاستوں کی کمزور دفاعی صلاحیت اور ان کے باہمی تنازعات۔ غزہ پہ تازہ یلغار سے پہلے میڈیا نے انتہا پسند یہودیوں کے ہاتھوں ایک فلسطینی نوجوان کو زندہ جلا دینے کی خبر شائع کی تھی ۔ اس پہ چراغ پا افراد نے اسرائیل کی جانب چند راکٹ داغے ہوں گے ۔ جواب میں حسبِ معمول آگ اور لوہے کی بارش ۔ ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر خواتین اور بچّوں کی بڑی تعداد شہید ہو رہی ہے ۔ ہمیشہ کی طرح عالمی طاقتیں یہودی ریاست کی پشت پناہ ہیں ۔ ہمیشہ کی طرح جنگ بندی میں دیر کی جا رہی ہے کہ خون کے تالاب اور انسانی گوشت کے ڈھیر خوف کا ایک ایسا عفریت جنم دے سکیں جو فلسطینی اذہان سے مزاحمت کا لفظ ہی کھرچ ڈالے۔
یہ بار بار دہرائی جانے والی ایک افسوسناک داستان ہے ۔ اس پر لکھنے کوکچھ باقی نہیں ؛البتہ میں یہ ضرور بتاسکتا ہوں کہ مظلوم اور مجاہد ظالم اور فسادی میں کیسے بدلتا ہے ۔
2006ء میںجب لبنان کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی گئی تو یہ ایرانی بنیادیں رکھنے والی جہادی تنظیم حزب اللہ تھی، جس نے کامیاب مزاحمت کی۔اسرائیلی شہروں پر وہ راکٹوں کی بارش کرتی رہی ؛حتیٰ کہ وہ زچ اور جنگ بندی پر مجبور ہو گئے۔ بعد میں تحقیقات ہوئیں ؛حتیٰ کہ جنوری 2007ء میں اسرائیلی آرمی چیف جنرل ڈین ہالٹزکو ناکامی تسلیم کرتے ہوئے مستعفی ہو نا پڑا۔ حزب اللہ تب حرُیت اور غیرت کا نشان تھی۔ اس نے عالمی استعماری گھمنڈ خاک میں ملا دیا تھا ۔ تب شام کے صدر بشار الاسد کو خطے میں یہودی مفادات کی راہ میں واحدرکاوٹ گردانا جاتا تھا۔ گزشتہ چار برس سے وہی حزب اللہ اسی بشار الاسد کی افواج کے شانہ بشانہ شامی شہریوں کا قتلِ عام کر رہی ہے ۔صرف اس لیے کہ شامی صدر کا اقتدار قائم و دائم رہے ۔ اب تک ڈیڑھ سے دو لاکھ افراد جاں
بحق اور تقریبا 3ملین بے گھر ہو چکے ۔83لاکھ آدمی دوائوں اور غذا کو ترس رہے ہیں ۔شاید پچھلے 65برس میں اسرائیل نے اجتماعی طور پر اتنا لہو نہ بہایا ہوگا، جتنا صدر بشار الاسد اور ان کے پشت پناہوں نے چار برس میں بہا ڈالا ہے ۔ امّتِ مسلمہ کی قیادت کا خواہشمند ایران اب تک ڈٹ کر بشار الاسدکی پشت پر کھڑا ہے ۔
اب افواج کے مقابل لڑنے والوں کے چہرے دیکھیے ۔ ان میں بھی آپ ظالموں کو غالب دیکھیں گے ۔ ان میں ایسے گروہ ہیں ، جو حریف کو قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کا مثلہ کرتے ہیں ۔ انہیں مختلف عرب ممالک کی حمایت حاصل ہے ، جو یک نکاتی ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں ۔ یہ کہ شام سے شیعہ حکومت کا خاتمہ ہونا چاہیے ۔ ایران اور اس کی حزب اللہ، عرب ممالک اور ان کے حمایت یافتہ مسلّح جتھے، سب کو فی الحال شام فتح کرنے کی فکر ہے ، مظلوم فلسطینی یا شامی باشندوں کی نہیں ۔اپنی اس جنگ میں حضرت خالد بن ولیدؓتک کا مزار تو انہوں نے شہید کر ڈالا ہے ۔
شامی اور مصری افواج اسرائیل کے خلاف مزاحمت کا نشان سمجھی جاتی تھیں۔ آج پلٹ کر وہ اپنے ہم وطنوں پہ حملہ آور ہیں ۔ افغان اور کشمیر جہاد میں حصہ لینے والے کتنے ہی جنگجو ایسے ہیں ، جو ریاستِ پاکستان کے خلاف ہتھیار اٹھائے کھڑے ہیں ۔ اپنے اس ''جہاد‘‘میں انہیں غیر مسلّح اور نہتے عام شہریوں کی جان لینے میں بھی کوئی عار نہیں ۔ افغان طالبا ن کو غیر ملکی قابض افواج کے خلاف جنگ کا پورا حق ہے لیکن اس امر کی انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ عام شہری ان کے حملوں سے محفوظ رہیں ۔جہاں تک تحریکِ طالبان پاکستان کا تعلق ہے ، ایک ایٹمی اسلامی ریاست کو اس نے تقریباً ڈبو ہی ڈالا تھا۔ وہ بھی اپنے تئیں جہاد میں مشغول ہے ۔
خدا کا کہنا تو یہ ہے کہ ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کی مرگ ہے ۔
یہ کون لوگ ہیں ، جو جہاد کے نام پر فساد میں مشغول ہیں ؟ ؟؟
اسرائیل ایک طاقتور ریاست ہے اور اسے دوسرے طاقتوروں کی حمایت حاصل ہے ۔ اس کامقابلہ عسکری اور مالیاتی طور پر مضبوط ممالک کا ایک گروپ ہی کر سکتاہے ۔دنیا میں طاقت کے مراکز بہرحال بدلتے رہتے ہیں ۔ ایک صدی قبل جرمنی عالمی طاقت تھااور برطانیہ بھی ۔ وہی برطانیہ جو اب امریکہ کا حاشیہ بردار ہے ۔ تین دہائیاں پہلے سویت یونین کے نام سے ایک سپر پاور ہوا کرتی تھی ۔ کہاں گئی وہ ؟
پچھلے ماہ عربوں کے لیڈر نے ایرانی وزیرِ خارجہ کو اپنی ریاست کے دورے کی دعوت دی تو انکار کر دیا گیا۔ فلسطین کے مسئلے سے بھی زیادہ سنگین معاملہ یہ ہے کہ عرب ایران تنازعات برقرار ہیں اور فریقین انہیں برقرار رکھنا چاہتے ہیں ۔
دوسرے عناصر کے علاوہ ، تعلیم ، تحقیق ،ٹیکنالوجی اور ریاضت سے محرومی کے علاوہ جس چیز نے امّتِ مسلمہ کو خوار و زبوں کر رکھا ہے وہ یہ کہ اکثر جہادی گروہ اخلاقی طور پر پست ہیں ۔ جہاد نہیں ، وہ انتقام چاہتے ہیں ۔ان کی اکثریت نا خواندہ یا معمولی تعلیم یافتہ ہے ۔ یہی بات پانچ سات برس قبل سیّد علی گیلانی نے کہی تھی ''شا ید ابھی ہم اس اعلیٰ اخلاقی معیار کو نہیں پہنچے کہ ہماری جہدوجہد کامیابی سے ہمکنار ہو ‘‘