"FBC" (space) message & send to 7575

عید کا چاند دیکھنا کیوں مشکل ہے؟

دو بار اچھے خاصے پڑھے لکھے اور سمجھدار دوستوں نے مجھ سے یہ پوچھا: کیا آدمی واقعی چاند پہ اتر چکا ہے یاانسانیت کے ساتھ یہ ایک دھوکہ تھا۔میں نے کہا: چاندبہت قریب ہے۔ ''ہوئی گنز‘‘ (Huygens) کے نام سے آدمی کی بنائی ہوئی مشینی گاڑی سورج کے بیرونی مدار میں زحل کے چاند ٹائٹن پہ اتر چکی ہے ۔ 1969ء سے 1972ء کے دوران امریکی خلائی ایجنسی ناسا نے کئی خلائی جہاز چاند پر روانہ کیے ۔ ان کے ذریعے 380کلوگرام چٹانیں زمین پر لائی گئیں ۔ان پتھروں کے جائزے سے یہ انکشاف ہوا کہ زمین اور چاند کی عمر ایک ہی جتنی یعنی کہ 4.6ارب سال ہے۔ 2004ء کے بعد سے امریکہ ، جاپان ، چین، انڈیا اور یورپین سپیس ایجنسی چاند کے گرد گردش کرنے والے کئی مشن بھیج چکی ہیں ۔امریکا ، روس اور یورپ کے بعد اب بھارت بھی مریخ کی جانب راکٹ روانہ کر چکا ہے ۔ اگست 2012ء سے سینکڑوں ارب روپے کی لاگت سے ناسا کا بھیجا ہوا روبوٹ کیوریاسیٹی (Curiosity)اس سیارے پہ چہل قدمی کر رہا ہے ۔ 2010ء میں جاپان کا ایک خصوصی خلائی مشن ''ہایا بوسا‘‘ کرّہ ء ارض کے قریب سے گزرتی ہوئی ایک چٹان پہ اترا ۔ اپنے مشینی پنجوں سے اس نے جانچ پڑتا ل کے لیے مواد اکھٹا کیا اور زمین پر لوٹ آیا۔ یہ مشن سات سال کے 
دورانیے پہ مشتمل تھا۔سائنسدانوں کے نزدیک یہ ایک اڑتی ہوئی گولی (Bullet)کو دوسری گولی کے ذریعے نشانہ بنانے کے مترادف تھا۔ ان حقائق کو دیکھتے ہوئے، چاند تک رسائی پہ شک ایسے ہی ہے ، جیسے مرسڈیز میں سفر کرتاہوا انسان پہیے یا انجن کی ایجاد پر سوال اٹھائے ۔ 
تقریباً اڑھائی ہزار سال قبل، مشہور یونانی مفکّر ارسطو نے پہلی بار یہ نظریہ پیش کیا تھا کہ زمین ایک سیدھی سطح (Flat)نہیں بلکہ گول ہے گوکہ اپنے ننھے قدّو قامت کی بنا پر ہمیں یہ سیدھی ہی دکھائی دیتی ہے۔ جن دو وجوہ کی بنیاد پر اس نے یہ اندازہ لگایا، ان میں سے ایک بڑی دلچسپ ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ چاند گرہن کے دوران دراصل زمین کا سایہ چاند پہ پڑتا ہے... اور یہ سایہ ہمیشہ گول ہوتاہے ۔ارسطو کے دوسرے بہت سے نظریات ناقص تھے ۔ مثلاً یہ کہ زمین ساکن اور کائنات کا محور و مرکز ہے لیکن فی الحال یہ ہمارا موضوع نہیں ۔ 
چاند تقریباً ایک ماہ میں کرّہ ء ارض کے گرد ایک چکر مکمل کرتاہے اور اتنی ہی دیر میں خود اپنے گرد بھی ۔اس وجہ سے ہم اس کا محض ایک رخ ہی دیکھ سکتے ہیں ۔ اندازہ اس سے لگائیے کہ ہماری زمین اپنے گرد صرف ایک دن ، جب کہ سورج کے گرد ایک سال میں چکر مکمل کرتی ہے ۔ نظامِ شمسی کے کسی بھی سیارے کے حجم کا موازنہ اگر اس کے چاند کے حجم سے کیا جائے تو اس لحاظ سے ہمارا چاند سب سے بڑا ہے ۔اس کے ساتھ بہت سے عجیب حقائق منسلک ہیں ۔ زمین سے اس کا فاصلہ بہت کم ہے ۔ یہ فاصلہ عین اتنا ہے کہ ہمیں وہ تقریباً سورج کے برابر ہی دکھائی دیتاہے ۔ اسی بنیاد پر مکمل سورج گرہن کے دوران وہ سورج کو پوری طرح ڈھانپ لیتاہے ۔ وکی پیڈیا پر یہ لکھا ہے : یہ فاصلہ ، جس کی بنیاد پر سورج اور چاند ہمیں ایک ہی جتنے دکھائی دیتے ہیں ، ایک اتفاق ہے لیکن میرے نزدیک یہ ایک عظیم معمار کی جمالیاتی حس کا مظہر ہے ۔
چاند کیوں گھٹتا اور بڑھتاہے اور قمری مہینے کی پہلی تاریخ میں وہ اتنا ادھورا سا کیوں دکھائی دیتاہے ؟ یہ ہے وہ سوال، سال میں ایک بار ، عید الفطر کے موقع پر جو پاکستانی قوم کے سامنے آکھڑا ہوتا ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زمین کا سایہ ہے ، جو چاند کو ہماری نگاہوں سے اوجھل کرتا چلا جاتاہے لیکن یہ تصور بالکل غلط ہے ۔ 
کسی بھی چیز کو دیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ روشنی اسے چھو کر پلٹے اور ہماری آنکھ میں داخل ہو؛لہٰذا زمین اور چاند کا رخ اور زاویہ ایسا ہونا چاہیے کہ سورج کی شعاعیں چاند کو چھو لینے کے بعد کرّۂ ارض کا رخ کر سکیں ۔ یہ بھی یاد رہے کہ جس طرح زمین کے جس حصے پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہیں وہاں دن اور دوسری طرف رات ہوتی ہے ، اسی طرح چاند کی بھی ایک طرف روشن اور دوسری تاریک ہوتی ہے ۔دورانِ گردش بعض اوقات سورج، زمین اور چاند ایک سیدھ میں آجاتے ہیں ۔ دائیں جانب سورج، پھرزمین اور بالکل بائیں جانب چاند۔ اس صورت میں چاند کی ایک طرف مکمل طور پر روشن اور زمین سے دیکھے جانے کے قابل ہوگی ۔ یہ چودھویں کا چاند ہے ۔ بعض اوقات اس پوزیشن میں زمین کا سایہ چاند پہ پڑنے لگتاہے اور چاند گرہن واقع ہو جاتاہے ۔ 
دوسری صورت یہ ہے کہ ایک بار پھر سورج ، چاند اور زمین ایک سیدھ میں ہوں لیکن اب دائیں جانب سورج، درمیان میں چاند اور بائیں جانب زمین واقع ہے ۔ حسبِ معمول چاندکا ایک حصہ روشنی سے نہا رہا ہے لیکن ہماری طرف اس کا تاریک حصہ ہے ۔ اس صورت میں ہم طاقتور ترین دوربینوں کی مدد سے بھی اسے دیکھ نہیں سکتے ۔ یہ وہ وقت ہے ، جب قمری مہینے کے اختتام پر گھٹتے گھٹتے چاند آخر غائب ہو جاتاہے ۔ اس کے اگلے روز زاویے میں معمولی سا فرق رونما ہوتاہے ۔ چاند ہمیں ہلال کی صورت میں آسمان پہ دکھائی دیتاہے ۔ یہ وہ موقع ہوتاہے ، جب نئے ماہ کے آغاز اور عید کا اعلان ہوتاہے ۔ 
عید کا چاند تنازعات کو جنم دیتاہے ۔ اس کی بہت سی وجوہ میں سے ایک یہ ہے کہ مذہبی طور پر حجازِ پاک سے عقیدت کے باعث لوگ اس کے ساتھ عید منانا چاہتے ہیں۔ یہ بھی کہ مطلع ابر آلود ہونے یا آندھی طوفان کے باعث ننھے سے ہلال کو دیکھنا انتہائی مشکل ہو جاتاہے ۔ ہماری بصارت محدود اور کمزور ہے ۔ میری دانست میں علمائے کرام کو دوربینیں لے کر چھت پہ چڑھنے کی بجائے اس سلسلے میں شرعی احکامات کی گائڈ لائن دینے کے بعد یہ کام ماہرینِ فلکیات پہ چھوڑ دینا چاہیے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں