"FBC" (space) message & send to 7575

آخری اننگ

آئینی پیچیدگیاں اپنی جگہ کہ حکومت الیکشن ٹربیونل کے دائرہ کار میں مداخلت کا اختیار نہیں رکھتی، لیگی قیادت کی طرف سے دس حلقے کھولنے اور سپریم کورٹ کا کمیشن بنانے کا اعلان اس قدر تاخیر سے کیوں ہوا؟ پندرہ ماہ کے اس عرصے میں وفاقی وزرا کپتان سمیت، تحریکِ انصاف کا تمسخر اڑاتے رہے ۔ خواجہ سعد رفیق نے ایک موقعے پر یہ فرمایا''عمران خان اب بڑے ہو جائیں ‘‘ عمران خان دبائو بڑھاتے تو طفل تسلیوں سے انہیں بہلانے کی کوشش ہوتی ۔ قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرِ داخلہ چوہدری نثار کا یہ بیان درجنوں مرتبہ دہرایا گیا ''چار نہیں ، ہم چالیس حلقے کھولنے کو تیار ہیں ‘‘۔ 
تیرے وعدے پہ جیے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تحریکِ انصاف منہ دیکھتی رہ گئی۔
کہاں گئے وہ چالیس حلقے؟نادرا کے چیئرمین کو بیرونِ ملک فرار ہونے پہ مجبور کیوں کیا گیا؟ کس بنیاد پر عمران خان اب دس حلقوں کی جانچ پڑتال کی حکومتی پیشکش کو سنجیدگی سے لیں ۔ ادھر کپتان واپس پلٹا، ادھر پرانا تماشہ شروع۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بہت سے از خود نوٹس لیے ۔ بنیادی طور پر وہ ایک مہم جو آدمی تھے ۔ جنرل پرویز مشرف کے خلاف کارروائی کے لیے بنچ کی تشکیل وفاقی حکومت کا اختیار تھا لیکن بخوشی انہوں نے یہ کارِ خیر انجام دے ڈالا۔ دھاندلی کے معاملے پر وہ بھی کنّی کترا گئے ۔ 
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے، بہت لادوا نہ تھے
سابق چیف جسٹس نے تو اس بات پر بھی از خود نوٹس نہیں لیا کہ اربوں روپے کی وہ مقناطیسی سیاہی کہاں گئی، جس کی عدم موجودگی میں ووٹوں کی تصدیق ممکن ہی نہیں ۔ 
جہاں تک جسٹس فخر الدین جی ابراہیم کا تعلق ہے ،وہ اپنی بزرگی کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے ۔ جنرل کیانی سے طویل تبادلہ خیال کے باوجود وہ انہیں پہچان نہ سکے۔جماعتِ اسلامی کے سربراہ سراج الحق کا کہنا یہ ہے : جس شخص کو مارگلہ کے پہاڑ دکھائی نہیں دیتے ، دھاندلی اسے کیا خاک نظر آتی؟ بتایا جاتاہے کہ جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرف سے اپنے دائرہ کار میں مداخلت پر آزردہ ہو کر آخر فخر الدین جی ابراہیم نے استعفیٰ دے ڈالا؛حالانکہ جس مکان کی دیواریں نہ ہوں ،مخلوق اس میں راستے بنا ہی لیا کرتی ہے ۔ اور پھر ان کا واسطہ تو ''شہسواروں کے شہسوار‘‘جسٹس افتخار محمد چوہدری سے تھا۔ 
الیکشن سے قبل اور اس کے بعد، مشکوک معاملات بے نقاب ہوتے چلے گئے ۔ عمران خاں نے جسٹس افتخار محمد چوہدری ، جسٹس رمدے اور جسٹس ریاض کیانی کو اپنی ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ بعد ازاں تینوں حضرات کی اولاد کو نوازنے کی کوشش کی گئی ۔ جہاں تک نگران وزیرِ اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی کا تعلق ہے ، کرکٹ بورڈ کی چیئرمین شپ کی جنگ میں مصروف رہے اور کرکٹ کے فروغ پر توجہ نہ دی۔
یہی نہیں ، الیکشن سے قبل جنرل اشفاق پرویز کیانی جسٹس (ر) ریاض کیانی سے ملے تو یہ سوال کیا: کیا دھاندلی کی صورت میں پولنگ سٹیشن پر تعینات فوجی جوانوں کو مداخلت کا اختیار ہوگا۔ جسٹس کیانی کا دو ٹوک جواب یہ تھا : آپ کی ذمہ داری امن و امان قائم رکھنے تک محدود ہے ۔ جنرل کیانی ایک مہم جو آدمی ہرگز نہیں ۔ اسی لیے اپنی سبکدوشی کے بعد بھی وہ عافیت میں ہیں ۔ 
دھاندلی پہ کپتان کا موقف درست ہے ۔ مظلوم کو با آوازِ بلند احتجاج کا حق خدا نے دیا ہے لیکن علّامہ طاہر القادری سے اتحادایک دن انہیں خون کے آنسو رلائے گا! گزشتہ ہفتے میں نے لکھا تھا :بعض تجزیہ کاروں کے نزدیک 11مئی 2014ء کو عمران خاں نے اسلام آباد جب کہ ''شیخ الاسلام ‘‘نے راولپنڈی کا رخ کیا تو یہ اتفاق نہیں بلکہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ نواز حکومت کو زچ اور آخر کار چلتا کرنے کا یک نکاتی ایجنڈا۔ـایک بار پھر دونوں جماعتیں ایک ہی دن وفاقی دارالحکومت کا رخ کر رہی ہیں ۔ 
مذہبی نمائندگی نہ رہی تو علّامہ صاحب کے پاس زیادہ طاقت نہیں ۔ مبالغہ آرائی نہیں ،وہ ایک بات پر قائم نہیں رہتے اور یہ سب نے دیکھا۔ ایسے میں کون انہیں سنجیدگی سے لے گا؟۔ مثلاً یہ کہ سانحہ ماڈل ٹائون اصل میں ان کے اہل وعیال کو قتل کرڈالنے کا منصوبہ تھا۔ مثلاً یہ کہ یومِ شہدا پہ ان کے کارکنوں نے پولیس اہلکاروں پہ کوئی تشدد نہیں کیا۔ مثلاً یہ کہ شریف خاندان امریکہ فرار ہونا چاہتاہے ۔ مثلاً، مثلاً، مثلاً...
حکومت کا اعلان یہ ہے کہ انتخابی اصلاحات کمیٹی کی سفارشات پہ عمل درآمد کے لیے آئین، الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کا ڈھانچہ بدلنا پڑا تو وہ بدل ڈالے گی ۔14اگست کی رات تحریکِ انصاف ، پاکستان عوامی تحریک ، پنجاب حکومت اور حکومتِ پاکستان ، سبھی ایک قدم پیچھے ہٹے ہیں ۔ بڑے خون خرابے کا خدشہ فی الحال کسی حد تک ٹل گیا ہے لیکن اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ کتنے مظاہرین اسلام آبادمیں داخل ہوپاتے ہیں ۔ میرا خیال ہے کہ یہ معرکہ چودہ اگست تک محدود ہونے کی بجائے اگلے کئی دن اور شاید کئی ہفتے تک جاری رہے گا۔دوبارہ حکومت نے سختی برتنے کی کوشش کی تو حادثات پیش آسکتے ہیں۔ کپتان خالی ہاتھ ہرگز واپس نہ جائے گا۔ الیکشن کمیشن تادیر اپنا وجود باقی نہ رکھ پائے گا۔جہاں تک علّامہ صاحب کا تعلق ہے ، وہ غالباً پاکستانی سیاست میں آخری بار جلوہ افروز ہیں۔ پہلے بھی وہ آخری وقت میں یوٹرن لے گئے۔ مبارک ہو‘مبارک ہو کی صدائیں بلند کیں۔ آدھی کامیابی ملنے کی مبارک باد دی۔ لیکن درمیان سے نکلا کیا؟ واپس کینیڈا سدھار گئے۔
فوج لا تعلق ہی رہے گی ۔ماضی کے مارشل لائوں نے اسے کیا دیا کہ ایک بار پھر یہ ڈھول اپنے گلے میں لٹکا لے ۔ با امرِ مجبوری اگرعسکری قیادت کو کوئی کردار ادا کرنا پڑا تو یہ 2009ء میں عدلیہ بحالی لانگ مارچ میں جنرل اشفاق پرویز کیانی جیسا ہو سکتا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں