ہم ایک ایسی سرزمین میں رہتے ہیں، جہاں سازشی تھیوریاں بہت خوشی سے قبول کی جاتی ہیں ۔ چند ماہ قبل عالمی امور کے ایک''ماہر‘‘نے یہ فرمایا: ایک مختصر عرصے میں دنیا بھر کی دولت خطرناک حد تک چند ہاتھوں میں مرتکز ہوتی چلی گئی ۔ غربت اپنی آخری حدوں تک بڑھ چکی تو ردّعمل روکنے کے لیے دہشت گردی تخلیق کی گئی۔نتیجہ یہ نکلا کہ انتہا پسندی کے خلاف جنگ کے نام پر ترقی یافتہ ممالک وسائل سے لیس‘ لیکن پسماندہ ممالک مثلاً افغانستان پہ چڑھ دوڑے ۔ ایسے خوفناک راز بے نقاب کرنے والے معزز دانشور کی عقلِ سلیم پہ میں عش عش کر اٹھا۔ اس لیے کہ امریکی سربراہی میں جن ممالک پرموصوف عالمی حالات کو یوں اتنی آسانی سے بدل دینے کا الزام عائد کر رہے تھے، افغانستان میں انہیں شکستِ فاش ہوچکی تھی۔ معاملات اتنے سادہ کبھی نہیں ہوتے ۔ کبھی کوئی سپر پاور اتنی طاقتور نہیں ہوتی کہ عالمی حالات کو موم کی گڑیا بنا ڈالے ۔ عالمی کھلاڑی اپنی چال چلتے رہتے ہیں ۔ انہیں فتح ملتی ہے لیکن شکست فاش بھی ۔حوالے کے طور پر ملاحظہ ہو ایران میں امریکہ نواز رضا شاہ پہلوی کا انجام ۔
یہ سب اپنی جگہ لیکن ان خوفناک حقائق کا کیا کیجیے جو بحیثیت ایک قوم ہمارا منہ چڑا رہے ہیں ؟ پاکستان کی طر ف میں بعد میں آتا ہوں ، نقشہ اٹھا کر اسلامی ممالک پہ ایک نظر ڈالیے۔بالخصوص ان پہ، کسی نہ کسی طور جو اسرائیل کے لیے چیلنج بن سکتے تھے۔ انقلابِ مصر کے بعد اخوان کی آئینی حکومت کے ساتھ کیاہوا، یہ سب جانتے ہیں لیکن جن ممالک نے ظالم مصری فوج کی بھرپور مالی مدد کی، ان کا انجام اگلے چند برس میں ہمارے سامنے ہوگا۔ لیبیا میں حکومت مخالف جنگجو ناکام رہے تو دنیا کا سب سے طاقتور عسکری اتحاد نیٹو پل پڑا ۔ معمّر قذافی کو قتل کر دیا گیا اور ملک اب بدترین خانہ جنگی کا شکار ہے ۔
مشرق میں عراق اور شام واقع ہیں ۔ مالکی حکومت کی امریکہ پیٹھ ٹھونکتا رہا لیکن اب اس بات کے بھی کافی شواہد موجود ہیں کہ نئی عالمی دہشت گرد تنظیم ''داعش‘‘بھی اسی کی سرپرستی میں سرفراز ہوئی۔ عراق اب ایک نہیں ، تین ریاستوں کا مجموعہ ہے ۔ گزشتہ چار برس کے دوران شام میں دو لاکھ افراد قتل ہو چکے ۔ دو برس قبل صدر علی عبداللہ صالح کا طویل اقتدار ختم ہونے کے بعد سے القاعدہ کے گڑھ یمن میں دہشت گردوں کا راج ہے ۔سعودی عرب محفوظ ہے لیکن عراق اور یمن کے ساتھ اس کی سرحدوں پہ خطرہ بڑھتا چلاجارہا ہے ۔ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق سعودی حکام نے عراقی سرحدوں پہ تیس ہزار سکیورٹی اہلکاروں کو بھیجنے کا فیصلہ کیا ہے ۔دوسری طرف پانچ سکیورٹی اہلکاروں کی شہادت کے بعد یمنی سرحد پروہ 1800کلومیٹر طویل دیو قامت باڑ لگا رہا ہے ۔ درحقیقت عراق سے ملحق علاقے سمیت، سعودی عرب اپنی ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر سرحدوں کو ہرقیمت پہ مکمل طور پر بند کرنے کاتہیہ کر چکا ہے ۔
اسرائیل کے پڑوسی ممالک میں ترکی سب سے اہم ہے ۔ رجب طیب ایردوان نے اپنی بے مثال کارکردگی کے بل پر ترکی کو بدل ڈالا ہے۔ یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ دو برس قبل ایک چھوٹی سی بات کو بنیاد بنا کر نہ صرف یہ کہ ہزاروں سیکولر مظاہرین حکومت کے خلاف میدان میں نکل آئے بلکہ کئی ماہ تک یہ ہنگامہ جاری رہا۔ پھر وزیراعظم کے فرزند سمیت حکومتی زعما کے خلاف ایک عظیم الشان ''سکینڈل ‘‘سامنے لایا گیا ۔ یہاں یہ یاد رہے کہ اسلامی ممالک میں یہ صرف ترک حکومت تھی،2010ء میں جس نے امدادی سامان سے لدا ہوا بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا غزہ روانہ کروایا تھا۔ اسرائیلی فوج اس پر حملہ آور ہوئی تو رجب طیب ایردوان نے اس قدر سخت ردّعمل کا مظاہر کیا کہ نہ صرف صہیونی ریاست کو معافی مانگنا پڑی بلکہ شہدا کا خون بہا بھی ۔
قصہ مختصر ترکی میں بھی عالمی قوّتوں نے افراتفری ، انتشار اور خانہ جنگی پیداکرنے کی پوری کوشش کی لیکن ناکامی ان کا مقدر تھی۔ رجب طیب ایردوان تو وہ تھے کہ 70برس سے مصطفی کمال اتا ترک کے نظریے کی محافظ اور اسرائیل کی حلیف ترک فوج کا انہوں نے بے رحم احتساب کر ڈالا تھا۔
اب آجائیے پاکستان کی طرف۔ دس برس سے تحریکِ طالبان کی صورت میں ایک خونخوار گروہ یہاں دندناتا پھر رہا تھا۔ اس دوران یہ خبریں سامنے آتی رہیں کہ امریکی اس کے پشت پناہ ہیں ۔ اس بات کا تو خیر کوئی واضح ثبوت ہمارے سامنے نہ آسکا لیکن افغان انٹیلی جنس اداروں سے ان کے روابط اور کابل دہلی گٹھ جوڑ کے کافی شواہد موجود ہیں اور یہ سب امریکہ کی موجودگی ہی میں ہو رہا تھا ۔ فروری 2012ء میں امریکی کانگریس میں ایک بل پیش کیا گیا۔ یہ کہ بلوچستان کو پاکستان سے علیحدگی کا اختیار ہونا چاہیے ۔اس امر میں تو خیر کسی کو کوئی شبہ نہیں کہ امریکہ ایک کمزور پاکستان کا خواہاں ہے ،آسانی سے جسے وہ اپنا تابع مہمل بنا ئے رکھے ۔ اہم اسلامی ممالک کی توڑ پھوڑ کے بعد اس بات میں بھی شک کی گنجائش نہیں کہ عالمی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کے حصے بخرے کرنا چاہتی ہے ۔ یہ اگر ممکن نہیں تو کم از کم خانہ جنگی ۔ جو قوّت اس منصوبے کی کامیاب مزاحمت کر رہی ہے ، اس کا نام ہے ''پاک فوج‘‘۔
اس پس منظر میں ڈاکٹر طاہر القادری کی بار بار پاکستان آمداور ہنگامہ آرائی مجھے ہضم نہیں ہو رہی۔ یہ توخیر واضح ہے کہ اوّل دن ہی سے عمران خان کو انہوں نے اس بات پہ قائل کر لیا تھا کہ اکٹھے حملہ آور ہو کر ہی نون لیگ کی حکومت وہ گرا سکتے ہیں ۔ اسی پسِ منظر میں 11مئی کو دونوں نے اسلام آباد اور راولپنڈی میں ریلیاں نکالیں ۔ اسی لیے 14اگست کو ایک ہی دن دونوں لانگ مارچ اسلام آباد پہنچے۔ یہی وجہ تھی کہ 19اگست کی شام عین ایک ہی وقت دونوں یکجا ہو کر ریڈ زون میں داخل ہوئے ۔ اسی لیے دونوں رہنمائوں نے خود کو نقصان پہنچنے کی صورت میں کارکنوں کو وزیراعظم نواز شریف سے بدلہ لینے کی ہدایت کی۔یہ بات معنی خیز ہے کہ تحریکِ انصاف اور پاکستان عوامی تحریک، دونوں جب ریڈ زون کی جانب بڑھیں تو خواتین آگے اور ہمارے مرد جوان ان کے پیچھے تھے؛حتیٰ کہ اپنے اعلان کے مطابق جلوس کی قیادت کی بجائے عمران خان بھی مجمع کے درمیان میں دیکھے گئے ۔ ایسا لگتاہے کہ اپنی سحر انگیز خطابت سے علّامہ طاہر القادری انہیں بھی مسمرائزکر چکے ۔
یہ سب باتیں آپ حضرات کو اگر ہضم ہو سکیں تو یہ ضرور بتائیے گا کہ غریب اور پسے ہوئے طبقات کی خاطر ''جہاد‘‘میں مصروف جناب طاہر القادری گاہے اپنا خطاب انگریزی میں کیوں کرنے لگتے ہیں ؟ جن کے نجات دہندہ بن کر وہ تشریف لائے ہیں ،ان کی اکثریت تو اردو بھی مشکل ہی سے سمجھتی ہے ۔