"FBC" (space) message & send to 7575

مستقبل

جینز کی کہانی اتنی دلچسپ ہے کہ اسے سمجھے بغیر علم ادھورا ہے۔ سادہ ترین الفاظ میں یہ ایک جاندار کی جانب سے اپنی اولاد کو دی جانے والی وہ وراثتی خصوصیات (Genetic Material)ہیں ، جو ہزاروں، لاکھوں نسلوں تک منتقل ہوتی رہتی ہیں ۔ جانداروں کے جسم میں سب سے چھوٹی اینٹ خلیہ کہلاتی ہے ۔ ان خلیات کی تعمیر کی ساری معلومات جینز ہی میں لکھی گئی ہیں ۔اسے خلیات کا پروگرام یا سافٹ وئیر سمجھیے ‘ جسم کے خلیات نے جہاں قد کاٹھ اور شکل و صورت کو ترتیب دینا ہے ، وہیں دماغ میں موجود عصبی خلیات نے ہماری سوچ، طرزِ فکر اور روّیے کو ایک طے شدہ سانچے میں ڈھالنا ہے ۔ مختصر ترین الفاظ میں کسی بھی جاندار کا دماغ، ہیئت، اس کا رنگ، بال اورناخن، سبھی کی تعمیر کے احکامات جینز میں درج ہیں ۔ یہی وہ پسِ منظر میں ، جس میں یہ کہا جاتاہے کہ فلاں شخص یا فلاں قوم کے جینز ہی میں خرابی ہے ۔ اسی لیے کہا جاتاہے''باپ پہ پوت ، پتا پہ گھوڑا، بہت نہیں تو تھوڑا تھوڑا‘‘ اسی وجہ سے خوبیوں اور خامیوں کے ساتھ ساتھ بعض جسمانی اور ذہنی بیماریاں بھی نسل درنسل منتقل ہوتی ہیں ۔ 
گزشتہ دہائیوں میں انسانی جینز پر قابلِ قدر کام ہوا ہے ۔ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا حیاتیاتی اشتراک ''ہیومن جینوم پروجیکٹ‘‘ تھا۔ 1984ء میں امریکی حکومت کے فراہم کردہ فنڈز سے شروع ہونے والا یہ منصوبہ دو عشروں میں مکمل ہوا۔ انسانی دماغ اور جسم، اس
کے روّیے اور شکل و صورت، نسل درنسل منتقل ہونے والی بیماریوں کا سبب بننے والے تمام جینز کی شناخت کے بعد ان کا ایک نقشہ ترتیب دیا گیا۔ معلوم یہ ہوا کہ چوہے کی طرح ، انسان میں بھی کل 30ہزار جینز پائے جاتے ہیں ۔انسان اگرچہ انہیں سمجھنے کے ابتدائی مراحل ہی میں ہے لیکن یہ پراجیکٹ بے حد فائدہ مند ثابت ہوا۔ اس سمت میں ہم پیش رفت کر رہے ہیں کہ قبل از وقت ان بیماریوں کا کی شناخت اور روک تھام کی جا سکے ، ماں باپ سے جو اولاد میں منتقل ہو سکتی ہیں ۔ رفتہ رفتہ انسان اپنے جسم اور دماغ کو پوری طرح سمجھ جائے گا۔ سب سے بڑی بات یہ کہ کون سے وہ جینز ہیں ، جنہوں نے جانوروں میں سے ایک جانور ، بنی نوعِ انسان کو اس کرّئہ ارض کا مالک تو بنا ہی ڈالا، دوسرے سیاروں پہ اپنا ڈول ڈالنے کی صلاحیت بھی عطا کی۔ جینز کو پوری طرح سمجھنے کے بعد ان میں مداخلت سے ممکن ہے کہ ذہانت میں اضافے اور قد کاٹھ سمیت،بہت سی چیزوں میں ہم مداخلت کے قابل ہو جائیں ۔ 
حال ہی میں سائبیریا سے ملنے والی انسانی ٹانگ کی ایک ہڈی کی عمر کا تعین 45ہزار سال کیا گیا ہے ۔ سائنسدانوں نے کامیابی سے اس میں موجود جینز کا مشاہدہ کیا ہے ۔ ایک بوسیدہ ہڈی ماضی کی کتنی ہی داستانیں بتاتی چلی جا رہی ہے ۔ مثلاً یہ کہ آدمی کب افریقہ سے نکل کے یورپ اور ایشیا کی طرف بڑھا اور کب اس کی یورپ کی اس عجیب و غریب انسانی نسل نی اینڈرتھل مین (Neanderthal Man)سے ملاقات ہوئی ۔ برسبیلِ تذکرہ یہ کہ نی اینڈرتھل مین کے جینز کا مشاہدہ بھی مکمل صحت کے ساتھ کیا گیا ہے ۔ موجودہ انسانوں سے چھوٹے قد اور قدرے بڑے سر والا یہ آدمی اتنی بڑی سچائی کا حامل ہے کہ صرف تعصبات کی رو میں بہکا ہوا شخص ہی اسے جھٹلا سکتاہے ۔23ہزار سال پہلے پھر وہ ناپید ہو گیا۔ اس شاندار انسانی نسل کی تباہی کی مکمل کہانی اب تک سامنے نہیں آسکی۔ استادِ محترم پروفیسر احمد رفیق اختر کا کہنا یہ ہے کہ وہ آدم خور تھا۔ ایک قبیلہ دوسرے پہ حملہ آور ہوتا تو اسے نوچ کے کھا جاتا۔ اس ضمن میں ، میں نے کچھ تحقیق کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔ 
انسانی علم میں شاندار اضافے کا ایک سبب وہ جاندار ہیں ، اپنی ہلاکت کے بعد جو برف کی تہوںمیں دفن ہوگئے (یا برف میں دفن ہو کے مر گئے)۔ اس ضمن میں قدیم ترین جاندار سات لاکھ سال پرانا ایک گھوڑا ہے ۔انسانی علم نہ صرف وسیع ہوتا چلا جا رہا ہے بلکہ نسل درنسل وہ درستگی کے ساتھ منتقل ہورہا ہے ۔کسی او رجاندار میں ایسا ماجرا دیکھنے میں نہیں آیا۔ آسمان کی بلندیوں سے نازل ہونے والی آفات سے لے کر سمندری طوفانوں تک ، ایک ایک شے کی حقیقت جاننے کی ہم بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب بڑھتے ''نیلوفر‘‘ہی کا جائزہ لیجیے ۔ کبھی سمندر کا سفر کرنے والے وہ خوش قسمت ملّاح ایک دوسرے کو ان سمندری آفات سے آگاہ کرتے تھے، جن سے بچ نکلنے میں وہ بمشکل کامیاب ہوتے۔ ریڈیو کی دریافت کے بعد جب وہ بحری جہازوں اور کشتیوںمیں نصب ہو اتو کھلے سمندر میں موجود جہازوں سے یہ اطلاعات دور دراز کے ساحلوں تک پہنچنے لگیں ۔ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ہوائی جہازوں سے ان سمندری عفریتوں کا جائزہ لیا جانے لگا۔ پھر خلا میں کرئہ ارض کے گرد گھومنے والے ایسے سیٹیلائٹ روانہ کیے گئے ، آج جو زمین کے چپے چپے پہ نگاہ رکھے ہوئے ہیں۔ ساحلوں پہ ریڈار نصب ہیں ۔ جدید ٹیکنالوجی کی بدولت آج ہم سمندری طوفان کی سمت، نوعیت، شدّت ، ہر چیز تو جانتے ہیں اور امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے بارے میں کیا کہیے ۔ وہ تو 2005ء کے سمندری طوفان اوفیلیا کے مرکز میں بغیر پائلٹ کے ایک طیارہ بھی اتار چکا ہے ۔
کائنات کے اسرار، اپنے اندر کا ماجرااور سب سے بڑھ کر ٹیکنالوجی میں ترقی۔طب کے میدان سے لے کر میدانِ جنگ تک، اسی بل پہ مغرب نے ہمیں زیر کر رکھا ہے ۔ پاکستان ، درست الفاظ میں پاکستانی سیاست اپنی تاریخ کا ایک بڑا موڑ مڑ رہی ہے ۔ ایک دہائی بعد شاید درست طور پر ہمیں اس کا اندازہ ہوگا۔بدمعاش اشرافیہ اور ٹیکس چوروں کا گلا پکڑنے کے بعد ، درست سیاسی قیادت کے ابھرنے کے بعد، زیرِ زمین دفن اپنے قومی وسائل سے مستفیض ہونے کے بعد اس سیاسی او رمعاشی بحران سے بہرصورت ہمیں نکل جانا ہے ۔ اس کے بعد جن میدانوں میں شب و روز ہمیں محنت کرنا ہوگی ، ٹیکنالوجی ان میں سب سے نمایاں ہوگا۔جن لوگوں کو میرا یہ کلام خوش فہمی پہ مبنی لگے ، ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں سمیت، وہ پاکستان کی قابلِ قدر دفاعی ٹیکنالوجی پہ ایک نگاہ ضرور ڈالیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں