"FBC" (space) message & send to 7575

اصل کہانی

موضوع پیری مریدی تھا۔ اَن پڑھ سکیورٹی گارڈ لطیف نے باالفاظِ دیگر مجھ سے پوچھا کہ اپنے روحانی پیشوا کی محبت میں آدمی کہا ں تک جا سکتاہے ؟اپنے تئیں عالم فاضل ہونے کی حیثیت سے اس جاہل شخص کو میں نے حقارت سے دیکھا ۔ دل ہی دل میں ، میں یہ سوچ رہا تھا کہ وہ علم کی اس بنیاد (Basics)سے بھی محروم ہے ، جس کے بغیر بات سمجھی نہیں جا سکتی ۔بہرحال ، میں نے یہ کہا : مذہب کے نام پر آدمی ہمیشہ سے لٹتا چلا آیا ہے ۔ اپنی دولت،گھر بار اور عزت و آبرو ، سبھی کچھ وہ کھو دیتا ہے ۔ ''سر یہ تو کچھ بھی نہیں ‘‘ اس نے جوش سے کہا ''پیر کی محبت شرک تک لے جاتی ہے ۔ خدا کی عطا کردہ نعمتوں کو ہم ایک آدمی کی کرامت سمجھ بیٹھتے ہیں ۔‘‘
ایسا لگا کہ ہر طرف سنّاٹا چھا گیا ہے اور ایک گنوارشخص کے سامنے میں پست ہوگیا ہوں ۔ ایسا لگا کہ پروفیسر احمد رفیق اختر کی آواز میرے کانوں میں گونجی ہے ''عقیدت اور جہالت کا آغاز ایک ساتھ ہوتاہے ‘‘جب بھی یہ آواز بلند ہوتی ہے ، بت تڑخنے لگتے ہیں ۔ 
مسئلہ یہی ہے ۔ہوش سنبھالنے کے ساتھ ہی ہم سب اپنے دل ودماغ میں صنم پالنے لگتے ہیں ۔ اکثر یہ والدین ، اپنے باپ دادا کا بتایا ہوا رستہ ہوتاہے ، جس پہ ہم ساری عمر چلتے ہیں ۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بظاہر ہم ہوش مند ، درحقیقت تعصبات میں اندھے ہوتے چلے جاتے ہیں ۔ 
میدانِ صحافت کے ایک عبقری نے ماضی کے اوراق سے اپنی پسند کی ایک کہانی ڈھونڈ نکالی ہے ''بے نظیر بھٹو نے خفیہ طور پر اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی(جنرل اشفاق پرویز کیانی) کو لندن بلایا اور انہیں این آر او معاہدے کا ضامن بنایا۔ بی بی کو بہت پہلے سے یہ معلوم تھا کہ وہی اگلے آرمی چیف ہوں گے ؛لہٰذا ان کی ضمانت درکار تھی جو مل گئی ۔ انعام کے طور پر جنرل کیانی کو مزید تین سال مل گئے ۔ یہ ایک الگ کہانی ہے کہ اپنے آخری تین برسوں میں ان کی قوّتِ فیصلہ جواب دے گئی۔‘‘ معزز کالم نگار اور اینکر پرسن نے میمو سکینڈل کو جنرل کیانی کا لکھا ہوا سکرپٹ قرار دیا ہے ۔ 
جنرل کیانی کا میں مدّاح ہوں ۔ ایسے میں انصاف کرنا مشکل ہوتاہے لیکن کوشش میں ضرور کروں گا۔غلطی کرنا، ٹھوکر کھانا ، آدمی کے خمیر میں گندھا ہوا ہے اور جنرل کیانی اس سے مبرّا نہیں ۔وہ اس وقت ڈی جی آئی ایس آئی تھے ، جب جنرل پرویز مشرف اور بے نظیر بھٹو کے درمیان معاملات طے پا رہے تھے ۔ اس دوران پرویز مشرف کی طرف سے انہیں اس معاملے کا حصہ بنایا گیا۔ بہرحال ا ین آر او کی سازش میں شرکت کو کوئی بھی درست نہیں کہہ سکتالیکن اس کھیل کے بڑے کھلاڑی بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف ہی تھے ۔ 
مئی 2011ء کے ایبٹ آباد آپریشن میں امریکی ہیلی کاپٹروں کا 100میل تک پاکستان کے اندر گھس آنا اور خود اسامہ بن لادن کی وہاں موجودگی بھی انٹیلی جنس اور فوجی لحاظ سے ایک بڑی ناکامی تھی۔ یہ کہا جاسکتاہے کہ پاکستان کے 7ارب کے مقابلے میں 640ارب ڈالر کا دفاعی بجٹ رکھنے والی عالمی طاقت امریکہ ر یڈار پہ دکھائی نہ دینے والی جدید ترین ٹیکنالوجی سے لیس تھی لیکن یہ کافی نہیں ۔ اعتراف کرنا اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنی چاہیے ۔
2008ء کے الیکشن میں پرویز مشرف جنرل کیانی سے قاف لیگ کی حمایت کی امید بلکہ تقاضا رکھتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا۔ جنرل کیانی فوج کو سیاست سے دور لے گئے ۔اسی کا نتیجہ تھا کہ ان کے چھ سالہ دور کے بعد وہ دن سراب محسوس ہونے لگے ، جب فوجی جوانوں کو بازار جاتے ہوئے وردی بدل دینے کا حکم دیا گیا تھا۔ ان کی عسکری کامیابیوںمیں 2009ء کا سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن شامل ہے ۔اس کے بعد امریکہ کی طرف سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا۔ مذہبی سیاسی جماعتوں اورعمران خاں نے اس کے خلاف انتہائی سخت موقف اختیار کیا۔ اس دوران ملالہ یوسف زئی اور سلالہ پر امریکی حملے کے واقعات پیش آئے ، جس میں دو درجن فوجی جوانوں کو شہید کر دیا گیا۔ ملالہ کے واقعے پر سوشل میڈیا یک زبان ہو کر چیخ رہا تھا کہ شمالی وزیرستان آپریشن کا جواز گھڑنے کے لیے یہ ایک ڈھونگ ہے ۔ 
سوال یہ ہے کہ بطور آرمی چیف جنرل کیانی کی اصل خوبیوں اور خامیوں کا تجزیہ کرنے کی بجائے ،عوام کو ہم اپنے تعصبات سے کیوں محظوظ کرنا چاہتے ہیں ؟ کیا نواز شریف کا تختہ الٹ کے آٹھ سال پاکستان پہ حکومت کرنے والا پرویز مشرف ایک احمق شخص تھاکہ بے نظیر بھٹو کو قبل از وقت یہ اطلاع ارسال کرتا کہ کسے وہ اگلا آرمی چیف بنانے جا رہا ہے ؟اپنی پالیسیوں کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو تباہ کردینے والے سابق صدر زرداری نے بی بی کے کتنے وعدوں کا پاس کیا کہ ان کی وفات کے برسوں بعد دوسری مدّت کے لیے جنرل کیانی کو تین سال کی توسیع پیش کی جاتی ۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی نے پہلی بار توسیع کی پیشکش کی تو جنرل کیانی نے انکار کر دیا تھا۔پھر دوسری بار ایسا کیا ہوا کہ رات گئے وزیرِ اعظم کو اس کا اعلان کرنا پڑا۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ فوج اگر سیاست میں دخیل ہے تواپنی کارکردگی اور عوامی حمایت کے بل پر سیاسی قیادت اسے واپس کیوں دھکیل نہیں دیتی ؟ کیا ترکی میں یہ سب ہو نہیں چکا؟ 
جنرل کیانی ہرگز ہرگز ایک مہم جو جرنیل نہیں تھے ۔ یہ سفید جھوٹ ہے کہ میمو سکینڈل ان کا لکھا ہوا سکرپٹ تھا۔ اگر ایساہوتا اور پیپلز پارٹی ہی کی صفوں میں میمو کی منصوبہ بندی نہ کی گئی ہوتی تو حسین حقانی کو بیرونِ ملک فرار اور اپناڈیٹا چھپانے کی ضرورت پیش نہ آتی ۔ 
بت! ہمارے ذہنوں میں بت ہیں ۔میں ایک ایسے خطے کا باسی ہوں ،شدید غربت اور نصف صدی سے مسلسل نظر انداز کیے جانے کی بنا پر جو احساسِ کمتری کا شکار تھا ۔ ایسے میں غریبوں کے حقوق کا علم بلند کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ہیرو مان لیا گیا ؛ حتیٰ کہ بنگلہ دیش کی تخلیق میں ان کی ہوسِ اقتدار کو بھی نظر انداز کر دیا گیا۔ میرے اس ہیرو کو فوجی آمر پھانسی دے ڈالتاہے ۔برسوں بعد اب میرے ہاتھ میں قلم ہے ۔ اب میں اپنے ناپسندیدہ افراد کی پگڑیاں اچھالنے کو آزاد ہوں ۔
غور سے پڑھیے تو یہ ہے پسِ منظر میں چھپی ہوئی اصل کہانی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں