"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی لائحہ عمل موجود ہے ؟

امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق نے جب یہ کہا کہ غیر مسلموں سے معدنیات واپس لے کر مشترکہ اسلامی منڈیاں قائم کریں گے تو میں چونک گیا۔زمانہ انگڑائی لے رہا ہے ۔ ایک دہائی تک خوفناک ترین دہشت گردی برداشت کرنے کے بعد پاکستان اب بدل رہا ہے ۔خطہ بدل رہا ہے اور دنیا میں طاقت کے نئے مراکز ابھر نے کو ہیں ۔عروج وزوال کی داستان ایک بار پھر دہرائی جا رہی ہے ۔ ؎
جو تھا نہیں ہے ، جو ہے نہ ہوگا،یہی ہے اک حرفِ محرمانہ 
قریب تر ہے نمود جس کی، اسی کا مشتاق ہے زمانہ 
روز ایک نیا سوال ابھرتاہے ، جسے دہراتے چلے جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے سب سے پہلے ، پاکستان سے بھی پہلے چین کا رخ کیوں کیا؟چین نے یہ کیوں کہا کہ پاک افغان تعلقات میں بہتری کے لیے وہ اپنا کردار ادا کرتا رہے گا؟ روسیوں نے اپنے سب سے بڑے خریدار بھارت کے تحفظات نظر انداز کرتے ہوئے پاکستان کو ایم آئی 35ہیلی کاپٹر فراہم کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ ا س وقت جب امریکی اور یورپی اتحاد سے سابق عالمی طاقت کے تعلقات انتہائی حد تک کشیدہ ہیں ۔ اس وقت، جب ایک ڈیڑھ ماہ قبل ہی روسی کمپنیوں اور بڑے کاروباری افراد پہ یورپ اور امریکہ نے معاشی پابندیاں عائد کرنے کا آغاز کیا ہے ، پاکستان کے ساتھ اس کے تعلقات اتنی تیزی سے بڑھ کیوں رہے ہیں ؟ گیس ، تیل اور کوئلے کے مجموعی ذخائر کے لحاظ سے دنیا کی یہ امیر ترین سلطنت دفاع کے ساتھ ساتھ توانائی کے میدان میں بھی ہماری طرف ہاتھ بڑھا رہی ہے ۔ تین روز قبل ماسکو میں پاک روس جوائنٹ ورکنگ گروپ میں یہ طے پایا ہے کہ پاکستانی سمندر میں تیرتے ہوئے ایل این جی ٹرمینلز کی تعمیر، گوادر سے نواب شاہ تک گیس پائپ لائن، ملک میں تیل او رگیس کی تلاش اور ایل پی جی کی تیاری سمیت، روس پاکستان کی مدد کرے گا۔ سپر پاور امریکہ، جس نے ایرانی گیس حاصل کرنے کے خلاف ہم پہ بدترین دبائو ڈالے رکھا،اب خاموش کیوں ہے ؟
یہی نہیں ، سر سے پائوں تک ، اوپر سے نیچے تک پاکستانی سیاست اور پاکستانی معاشرہ بدل رہا ہے ۔ اقتدار بظاہر وزیرِ اعظم نواز شریف کے ہاتھ میں ہے لیکن ڈاکٹر طاہر القادری، چوہدری برادران اور سب سے بڑ ھ کر عمران خان نے انہیں شدید دبائو کا شکار کر رکھا ہے ۔عمران خان نے وزیراعظم کو زچ کرڈالا ہے اورنون لیگ نے کپتان کو ۔ یہ بدلے ہوئے حالات ہیں ، جن میں14اگست کے بعد شروع ہونے والے بدترین سیاسی بحران کے باوجود مارشل لا کی صدا کہیں سے سنائی نہ دی ۔ میڈیا بظاہر ہمیشہ سے بلند آہنگ رکھتاہے لیکن قومی امنگوں کو ملحوظ نہ رکھنے والے ایک ادارے کے زوال کے بعد نہ صرف یہ کہ اب وہ بھی سہما سہما سا ہے بلکہ اس کی مختلف اکائیاں اب بھی ایک دوسرے کی بوٹیاں نوچنے کی فکر میں ہیں ۔
اسلامی دنیا میں کیا ہورہا ہے ؟ لیبیا، مصر، افغانستان ، شام اور عراق میں ؟ مشرقِ وسطیٰ کے کتنے ہی ممالک میں خوں آشام ٹولوں نے ریاست کو تار تار کر ڈالا اور کتنے ہیں ، جن کا نقشہ بدلنے والا ہے ؟ پاکستان کا شمار خانہ جنگی کے شمار انہی ممالک میں ہونا تھا لیکن اپنی سخت جانی کے طفیل ، انتہائی تربیت یافتہ مسلّح افواج اور سب سے بڑھ کر خدا کی رحمت کے بل پر وہ بچ نکلا۔ 
اب واپس آجائیے خطے کی صورتِ حال پر۔ چین اور روس اپنا عالمی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر چکے ہیں اور پاکستان کا جھکائو ان کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ معاشی راہداری کے منصوبے میں چینی حکومت اور چینی بینک اپنے ہی ملک کی کمپنیوں کو قرض دیں گے اور وہ کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گی۔ نہ صرف یہ کہ انہیں اپنا قرض اور سود واپس کرنا ہوگا بلکہ منافع بھی وہ یہیں سے کمائیں گی ۔ اس کے باوجو د، اس کے باوجو دمیں یہ کہتا ہوں کہ تین سو ارب ڈالر کی ننھی منی پاکستانی معیشت جب ساڑھے آٹھ ہزار ارب ڈالر کے دیو قامت چین سے جڑے گی تو معاشی سرگرمیاں لازماً بڑھیں گی ۔ لازماً ملازمتیں پیدا ہوں گی ۔ زیرِ زمین دفن ہمارے معدنی ذخائر نکالے جائیں گے ۔ یہ سرگرمیاں بہترین شرائط پر ہوں اور سب سے زیادہ خود ہم ہی ان سے مستفید ہوں ، اس کے لیے ہمیں انتہائی حد تک چوکنّا رہنا ہوگا۔ حوالے کے طور پر ملاحظہ ہو، ٹی تھیان کاپر کمپنی کو دیا جانے والا ریکوڈک کا وہ ٹھیکہ ، جس کی بازگشت پھر عالمی ثالثی عدالت تک سنائی دیتی رہی ۔
پاکستان عالمِ اسلام کا لیڈر نہیں ۔ ابھی تو وہ پوری طرح اپنے پائوں پہ کھڑا نہیں ہو پایا۔ ابھی تو ٹیکس اکٹھا کرنے کے نظام، پولیس اور عدالت سمیت، کتنے ہی اداروں کی اصلاح باقی ہے ۔ ابھی توہم علاقائی اور عالمی طاقتوں کی طرف دیکھ رہے ہیں ۔ دہشت گردی کے اژدہے میں ابھی دم خم باقی ہے ۔ اگلی ایک دہائی میں پاکستانی سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں کو اس آگ سے گزرنا ہے ، جس سے گزرے بغیر سونا خام ہی رہتاہے ۔جماعتِ اسلامی انہی میں سے ایک ہے ، انتخابی میدان میں جو شاید اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزررہی ہے ۔ 2013ء کے الیکشن میں 342کے ایوان میں وہ 4نشستیں جیت سکی تھی۔ یہ کل سیٹوں کا 2.12فیصد !
سیّد منور حسن کے اس بیان سے مجھے کوئی سروکار نہیں ، جس پہ لے دے ہو رہی ہے ۔ سب جانتے ہیں کہ قتال کا فرض ہماری مسلّح افواج کے سپرد ہے ۔ میں تو اس پہ حیران ہوں کہ ملکی صورتِ حال اور انتخابی سیاست میں خود اپنی سمٹتے سکڑتے کردار کو نظر انداز کرتے ہوئے امیر جماعتِ اسلامی سراج الحق نے یہ کیا کہہ ڈالا'' غیر مسلموں سے معدنیات واپس لے کر مشترکہ اسلامی منڈیاں قائم کریں گے۔‘‘
کیا اپنا یہ ہدف حاصل کرنے کے لیے محترم امیر جماعتِ اسلامی کے پاس کوئی لائحہ ء عمل موجود ہے ؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں