"FBC" (space) message & send to 7575

نت نئے انکشافات

ٹیکنالوجی کی دنیا میں انقلاب در انقلاب رونما ہورہے ہیں ۔ نت نئے انکشافات انسانوں ، سیّارۂ ارض او رکائنات کی تاریخ سے پردہ اٹھاتے چلے جا رہے ہیں ۔ 
سام سنگ نے ایک ایسا کمپیوٹر ایجاد کیاہے ، معذور افراد ہاتھ کی بجائے جسے اپنی آنکھوں سے استعمال کر سکیں ۔ یہ آنکھوں کی حرکات اورایک خاص انداز سے پلکوں کے بند ہونے سے ہدایات لیتاہے ۔ سام سنگ کا کہنا ہے کہ یہ کمپیوٹر محدود تعدا دمیں بنائے جائیں گے اور ان کا مقصد منافع کمانا ہرگز نہیں۔ 
ادھر ماہرین نے سائبیریا سے ملنے والی ایک 45ہزار سال پرانی انسانی ٹانگ کے جینز کا کامیابی سے مطالعہ کیاہے ۔ جین وہ وراثتی مواد رکھتے ہیں ، جن سے ایک جاندار کی خصوصیات اگلی نسل میں منتقل ہوتی ہیں ۔ آپ کا قد کاٹھ، بالوں کا رنگ، حتیٰ کہ روّیہ، سبھی کچھ ان جینز میں لکھا ہوتاہے ۔ قدیم ترین باقیات میں جینز کے مطالعے سے ہمیں انسانی تاریخ کے بارے میں بہت کچھ سیکھنے کو ملتاہے ۔ قدیم انسان کی افریقہ سے ہجرت اور یورپ میں ایک اور انسانی نسل نی اینڈرتھل مین سے اس کی ملاقات کی بہت سی کہانیاں اس ٹانگ پر لکھی ہیں ۔عالمی نشریاتی اداروں نے اس دریافت کو خصوصی اہمیت دی ہے ۔ 
عالمی میڈیا کی ایک اور نمایاں خبر بولنے والے پرندوں ، بالخصوص انسانی آواز کی کامیاب نقل اتارنے والے طوطوںکے جینز کا مشاہدہ اور انسان سے اس کا موازنہ ہے ۔ مشہورجرنل ''سائنس‘‘میں چھپنے والی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ انسانوں اور ان پرندوں میں بولنے سے متعلق ایک ہی طرح کے جینز متحرک ہوتے ہیں ۔ یہ وہ جینز ہیں ، جو کہ دماغ کے ان خلیات کو آپس میں نت نئے روابط استوار کرنے کا حکم دیتے ہیں ، جو آپ کے پھیپھڑوں ، گلے اور ناک وغیرہ کے ان اعضا کی حرکات کو کنٹرول کرتے ہیں ، جن کے ذریعے آواز پیدا ہوتی ہے ۔
انسان کا بھیجا ہوا خلائی مشن "Voyager 1"نظامِ شمسی سے باہر نکل چکا ہے ۔عام طور پر ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ایک سورج کی پہنچ سے دور اور کسی دوسرے کی جانب بڑھتے ہوئے خلا کا طویل سفر پرسکون ہوگالیکن وائیجر ون کو اب تک تین بڑی شاک ویوز سے واسطہ پڑچکا ہے ۔ یہ وہ لہریں ہیں ، جو ہمارے سورج کی طرف سے پیدا کردہ دھماکوں کے نتیجے میں جنم لے رہی ہیں ۔ وائیجر ون وہ واحد مشن ہے ، جو نظامِ شمسی سے باہر بھیجا گیا ہے ۔ 38ہزار میل فی گھنٹا کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے ، اسے کسی دوسرے سورج تک پہنچنے کے لیے ہزاروں سال درکار ہیں ۔ 
بچّوں کے زیرِ استعمال پینسل کا سکّہ کاربن گریفائٹ کہلاتاہے۔ دس سال پہلے اس کی ایک نئی قسم گریفین دریافت ہوئی تو سائنسدانوں کو اس نے حیران کر کے رکھ دیا تھا۔ یہ اب تک دریافت ہونے والا سب سے باریک لیکن سب سے مضبوط میٹریل تھا۔ انسانی بال سے دس لاکھ گنا باریک مگر سٹیل سے دو سو گنا مضبوط۔ یہی نہیں ،اپنے اندر سے بجلی کی ترسیل کے دوران یہ اسے بالکل بھی ضائع ہونے نہیں دیتا اور اسے دنیا میں بجلی کا سب سے اعلیٰ موصل مانا جاتاہے ۔ اب گریفین کی جو نئی خاصیت سامنے آئی ہے ، اس نے توانائی کے سکڑتے ہوئے ذخائر کے پسِ منظر میں امیدوں کے نئے در کھول دئیے ہیں ۔ یہ مثبت چار ج رکھنے والی ہائیڈروجن گیس کو اپنے اندر سے گزرنے دیتی ہے ۔ ہائیڈروجن ایک بہت اچھا ایندھن ہے ۔ یہ ایک دھماکے سے جلتی ہے ؛لہٰذا اس کے لیے ایک خاص طرح کا مضبوط انجن درکار ہوتاہے ۔ دنیا بھر میں پانی سے کار چلانے کے دعویداروں اور خود پاکستان میں ''انجینئر ‘‘آغا وقار نے کامیابی سے جو تماشا لگایا تھا، اس کا پسِ منظر بھی پانی میں موجود ہائیڈروجن ہی تھی ۔آغا وقار کے دعوے میں بنیادی طور پر یہ مسئلہ حائل تھا کہ پانی سے ہائیڈروجن کو الگ کرنے کے لیے جو توانائی درکار ہوتی ہے ، وہ اس کو اہمیت دینے کو تیار نہ تھے ۔ سابق سینیٹر طارق چوہدری کو اس دریافت کے بارے میں بتایا تو ان کا کہنا یہ تھا : آکسیجن جلاتی ہے اور ہائیڈروجن جلتی ہے ۔ ان کے اشتراک سے پانی وجود میں آیا تھا اور بروزِ حشر یہ جو سمندروں کے بھڑکنے اور جل اٹھنے کا ذکر ہم سنتے ہیں ، یہ بھی اسی طرح وقوع پذیر ہوگاکہ ہائیڈروجن اور آکسیجن کو الگ کر دیا جائے گا۔ 
ہائیڈروجن کائنات کا سب سے ہلکا اور سب سے زیادہ پایا جانے والا عنصر ہے ۔ سورجوں (ستاروں ) کی پیدائش میں یہی گیس بنیادی خام مال ہے ۔ گریفین کی اس خصوصیت نے اب ان امیدوں کے در کھولے ہیں کہ ایک دن گاڑیاں ہوا سے ہائیڈروجن لے کر انہیں استعمال کر سکیں گی۔ یہ اس لیے بھی خوش آئند ہے کہ عالمی برادری کوئلے، تیل اور گیس کے مسلسل استعمال سے پیدا ہونے والی گندگی اور کرّہ ٔارض کے درجہ ء حرارت میں اضافے سے پریشان ہے ۔حال ہی میں دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں اورفضا کو سب سے زیادہ آلودہ کرنے والے ممالک امریکہ اور چین نے معاہدہ کیا ہے کہ وہ نقصان دہ گیسوں کے اخراج میں بڑے پیمانے پر کمی کریں گے ۔ اب ساری نظریں بھارت پر مرکوز ہیں ، جو دنیا میں تیسرے نمبر پر یہ گیسیں خارج کرتاہے ۔ ابھی چند روز قبل ہی جنوبی امریکہ کے ملک پیرو میں اقوامِ متحدہ کے حمایت یافتہ عالمی ادارے کے تحت دنیا بھر کے ممالک نے کاربن کے اخرا ج میں کمی پر غور او روعدے وعید کیے ہیں ۔ عالمی درجۂ حرارت میں مسلسل اضافے ہی کا نتیجہ ہے کہ سمندروں کا پانی اونچا ہو رہاہے اور فلپائن کی طرح جزائر پہ آباد ممالک پر اپنے ناپید ہونے کا اندیشہ طاری ہے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں