"FBC" (space) message & send to 7575

کائنات میں ایک آدم

'' 100ارب کہکشائوں میں ایک کے سینکڑوں ارب سورج ۔ ایک سورج کی آٹھ زمینوں میں سے ایک کا نام ''کرّہ ء ارض‘‘۔اسی سیارے کے لاکھوں حیوانوں میں دو ٹانگوں پہ سیدھے کھڑے ایک جانور پہ یکایک عرفان کا ایک لمحہ طلوع ہوا۔کرّ ہ ء ارض کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہے کہ ایک جانور سوچ میں گم ہے ۔ اس کا نام ہومو سیپیین سیپین Homo Sapien Sapien ہے، عرفِ عام میں جسے انسان کہا جاتاہے ۔ اس کتاب میں اسے ''آدمی ‘‘پکارا گیا ہے ۔ 
آدمی کو بیک وقت مسرّت اور خوف سے روشناس کرانے والا یہ لمحہ کیونکر طلوع ہو ا، تا حال یہ ایک راز ہے ۔ کیا اپنے ایک کمزور سے ہم جنس کو قوی ہیکل بھینسوں کا ریوڑ ہانکتے دیکھنا اس لمحے کی پیدائش تھی؟ یا اس وقت و ہ پنجروں میں بند شیر اور ہاتھیوں کو انسان کے ہاتھوں خوار و زبوں دیکھ رہا تھا؟ کچھ دیر قبل وہ آسمان کو چھوتی ہوئی عمارت سے باہر نکلا توکتوں کے ایک غول کو اس نے سردی میں ٹھٹھرتے دیکھاتھا۔ لمحاتی طور پر اسے تفاخر کے احساس نے آلیا۔پھر ہوا نے اس کے کان میں سرگوشی کی ''کیوں؟‘‘
''واقعی ،ہم انسان کیوں ذہین ہیں ؟‘‘۔آدمی نے سوچا۔
''کیوں‘‘سے شروع ہونے والی، صدیوں پہ محیط اس ساعت نے آدمی کی زندگی بدل دی۔ یہ ایک لمبے سفر کا آغاز تھا ۔ سچائی کی تلاش کا یہ سفر کائنا ت کا وہ سب سے مقدس فریضہ تھا، بنی نوعِ انسان کی طرف
سے آدمی کو جس کی تکمیل کرنا تھی ۔ اس دوران سبھی علوم پہ اسے ایک نظر ڈالنا تھی ۔اسے حیوانی اور انسانی ذہن میں فرق کھوجنا تھا۔ اس مقصد کے لیے اسے دماغی سائنسدانوں (Neuro Scientists) سے ملنا تھا۔اسے رحم ِ مادر میں ایک واحد خلیے کو تیس گھنٹے بعد دو میں بدلتے دیکھنا تھا۔ اس نے مرکزی اعصابی نظام کے گرد انسان کو جنم پاتے دیکھنا تھا۔ اسے ماحول او رآب و ہوا کے ماہرین سے ملنا تھا۔اسے دو اعصابی خلیوں کی اس کامیاب پیغام رسانی کا مطالعہ کرنا تھا، جو ساری انسانی شان و شوکت، علم اور کامیابیوں کا سبب ہے ۔ اسے زندہ خلیے کا جائزہ لینے کے ساتھ ساتھ سورج کے مرکز میں ہائیڈروجن کو ہیلیم میں بدلتے دیکھنا تھا۔ اسے ایک جاندار کے کئی ٹریلین خلیات کو ایک دوسرے سے تعاون کرتے دیکھنا تھا۔ سب سے اہم بات یہ کہ اپنی تحقیقات کو اسے سادہ اور مختصر ترین الفاظ میں دنیا کے سامنے پیش کرنا تھا۔ 
آدمی سوچتا رہا ۔ اس کا ذہن سپر کمپیوٹر کی رفتار سے دوڑ رہا تھا۔ اس کے ذہنی خلیات (Neurons)آپس میں نت نئے روابط (Connections)بناتے ہوئے مزید بنیادی سوال ترتیب دیتے جا رہے تھے ۔ خودسے اس نے وہ سوال کیا، غور و فکر کرنے والا ہر ذہن لازماًجس سے گزرتا ہے ''میں کون ہوں اور یہاں ا س زمین پہ کیا کر رہاہوں ؟‘‘
اس نے زندگی کے بارے میں سوچا۔ زندگی کی بنیاد بننے والے عوامل پہ سوچا۔ 
آدمی نے فیصلہ کیا کہ اپنی استعداد کے مطابق سچ کھوجنے کی وہ بھرپور کوشش کرے گا اور اپنے اس عہد میں وہ مخلص تھا۔ 
آدمی نے تلاش شروع کی ۔ ان لوگوں کی تلاش جن میں سے ہر ایک حیات کے ایک آدھ پہلو پہ عبور رکھتا تھا۔ اُس کے ذہن میں سوالا ت کا ایک صحرا وجود پا چکا تھا۔ اگلے کئی برس تک وہ ان کے جواب ڈھونڈتا رہا۔ہر جواب اس بے رحم صحرا میںایک نخلستان کاکردار ادا کرتا تھا۔ بڑے طویل فاصلوں پہ چھوٹے چھوٹے نخلستان ۔ یہ فاصلے بہرحال اسے عبورکرنا تھے وگرنہ اس ریگستان میں وہ سسک سسک کے مر جاتا۔ 
یہ ایسا ماجرا نہ تھا کہ جسے چھپایا جا سکتا۔ یہ بات خوشبو کی طرح پھیل رہی تھی کہ ایک جانور پہ آگہی کا نزول ہوا ہے اور وہ سوال پہ سوال کیے جا رہا ہے ۔کرّہ ٔارض کے مختلف حصوں سے لوگ ٹولیوں کی صورت میں اسے دیکھنے آتے اور اس یقین کے ساتھ لوٹتے کہ اب کی بار بنی نوعِ انسان تمام خفیہ رازوں سے پردہ اٹھانے جا رہا ہے ۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والوں نے جوابات مہیا کرنے کے لیے ایک ٹیم تشکیل دی ۔ آدمی کی صورت میں انہیں ایک ایسا شخص دکھائی دے رہا تھا، جو ان کے تھوڑے تھوڑے علوم یکجا کر کے کائنات کے دقیق عقدوں کو سلجھا دیتا ۔ اس وقت ان کی حالت ان بچّوں کی سی تھی ، جو ایک ایک اینٹ اٹھائے ، ایک گھر ، اپنا گھر تشکیل دینا چاہتے ہوں ۔ ‘‘
قارئین ، یہ میری کتاب ''کائنات میں ایک آدم‘‘ کا پہلا صفحہ ہے ۔ بہت عرصے سے میرے دل و دماغ پہ اس خیال نے غلبہ پا رکھا تھا ۔ روزانہ کی بنیاد پر کچھ نہ کچھ کام میں کرتا رہا۔ اس دوران کیمبرج اور ہارورڈ سمیت، دنیا کی بڑی یونیورسٹیوں میں اہلِ علم کی تحقیق کا میں مطالعہ کرتا رہا۔ میں نے کوشش کی کہ گزری انسانی نسلیں جو کائناتی عقدے سلجھا چکیں ، ان پہ ایک نظر ڈالوں ۔ میں نے کرّۂ ارض کی تاریخ میں رونما ہونے والے بڑے واقعات کا مطالعہ کیا۔ مثلا ً ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے دس مربع کلومیٹر حجم کے شہابِ ثاقب کے زمین پر گرنے کے نتیجے میں بڑے پیمانے کی تباہی اور اس دوران ڈائناسار کا معدوم ہوجانا۔ ان عظیم الجثہ جانداروں کے ناپید ہونے کے بعد چھوٹے جانوردنیا بھر میں پھیلتے چلے گئے تھے ۔ انسان بھی ان میں شامل ہے ۔
میں نے انسانی جسم کے کام کرنے کا طریقہ کار ، اس کے مختلف نظام پڑھے۔ ایک بہت بڑا سوال کششِ ثقل کا ماخذ ہے ۔ زمین اگر ایک خاص قوّت سے ہمیں اپنی طرف کھینچ نہ رہی ہوتی توزندگی بے حد دشوار بلکہ شاید ناممکن ہوتی ۔ یہ کششِ ثقل ہے ، ہمارے چلنے پھرنے سے لے کر کھانا کھانے ؛حتیٰ کہ نسل بڑھانے میں جس کا ایک کردار ہے ۔ اسی کے تحت زمین سمیت تمام سیارے سورج کے گرد گھومتے اور وہ توانائی پاتے ہیں ، کرّہ ٔارض پہ زندگی کو جنم دینے والے تین بنیادی عوامل میں سے جو اہم ترین ہے ۔کوشش یہ ہے کہ ایک ناول کی صورت میں ، آسان زبان میں یہ کتاب تحریر کروں مگر ساتھ ہی ساتھ بڑے سائنسی حقائق کو درست طور پر بیان کر سکوں ۔روزانہ کی بنیاد پر دو صفحے اگر تحریر کیے جائیں تو پانچ ماہ میں تین سو صفحوں کی یہ کتاب مکمل کی جا سکتی ہے ۔
دعا کیجیے کہ یہ منصوبہ کامیابی سے ہمکنار ہو ۔ دعا کیجیے کہ میرے اور پڑھنے والوں کے لیے یہ برکت کا باعث ہو ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں