"FBC" (space) message & send to 7575

’’اے نبیؐ تیرا ان سے کوئی تعلق نہیں‘‘

تو جب پروفیسر احمد رفیق اختر نے یہ کہا کہ فرقوں کی کثرت دیکھتے ہوئے دل چاہتا ہے کہ ملک کا نام مملکتِ خداداد فرقہ جات رکھ دیا جائے تو بے اختیار سب ہنس پڑے۔ صاف اور واضح الفاظ میں قرآنِ حکیم یہ کہتاہے ''ان الذین فرقوا دینہم و کانوا شیعا‘‘ بے شک جن لوگوں نے دین میں تفریق پیدا کی (فرقہ تشکیل دیا ) اور اپنا الگ گروہ بنا لیا ، ''لست منہم‘‘ اے نبی ؐتیرا ان سے کوئی تعلق نہیں ۔ خدا ہمیں مسلمان (مسلم) قرار دیتاہے لیکن خود پہ ہم بریلوی ، دیو بندی، شیعہ اور سنّی کا لیبل لگائے ، ایک دوسرے کو غضب ناک نظروں سے دیکھ رہے ہیں ۔خدا تک رسائی تو دور کی بات اس کی پہچان بھی نہیں ، خواہش تک نہیں ۔
''مذہبی فکر میں ابہام او راس کا حل‘‘ یہ عنوان تھا پروفیسر صاحب کے سالانہ لیکچر کا اور وہ بتا رہے تھے کہ فرقہ کیسے تشکیل پاتا اور کن خرابیوں کا باعث بنتاہے۔ فرقۂِ معتزلہ کا ذکر ہوا۔ ان لوگوں نے اپنے گروہ کی بنیاد اس بات پہ رکھی کہ قرآن کا شمار مخلوق میں ہوتاہے ۔ اُن کی دلیل تھی کہ قرآن کے مطابق جنّوں کے ایک گروہ نے جب تلاوت سنی تو یہ کہا ''ھذا شیٍٔ عجاب‘‘۔ یہ تو بڑی عجیب چیز ہے (یا یہ کہ ہم نے بڑا عجیب کلام سنا)۔ پھر معتزلہ والے یہ کہنے لگے کہ ہر چیز (شے ) کو بالآخر فنا ہو جانا ہے۔ پھر ایک دانا آدمی آیااور معتزلہ سے اس نے یہ کہا : اس طرح اگر تم الفاظ پکڑنے لگو گے تو قرآن میں یہ بھی درج ہے ''و یحذر کم اللہ نفسہ‘‘ اللہ تمہیں اپنے نفس (ذات ) سے ڈراتا ہے۔ ایک دوسری آیت یہ کہتی ہے ''کل نفس ذائقۃ الموت‘‘ ہر نفس کو موت کا مزا چکھنا ہوگا۔ تو کیا نعو ذ باللہ تم اب یہ کہنے لگو گے کہ خدا کو بھی موت کا مزا چکھنا ہوگا؟
بڑی تصویر دیکھنے سے لوگ منکر ہیں ۔فرقہ پرست اپنے ذہن میں اساتذہ کا بت تشکیل دے کر، اسے پوجنے لگتاہے ۔ وہ ان سے محیر العقول واقعات کی امیدلگاتا ، سنی سنائی پہ یقین کرتا اور اسے آگے پھیلاتاہے ۔ ایک روز پروفیسر صاحب نے کہا کہ وہ تھک گئے ہیں تو ایک صاحب بولے: بھلاآپ کوئی عام انسان ہیں؟ آپ کو تھکن کیسے ہو سکتی ہے ؟ یہ ایک ذہنی المیے اور بیمارسوچ کی نشانی ہے ۔
حرفِ آخر کوئی نہیں ہوتا۔ خدا تک رسائی کے لیے دیکھنا یہ ہوتاہے کہ خدا نے کیا کہا اور رسولؐ کا طرزِ عمل کیا تھا۔ آپؐ نے تعلیم کیا دی اور صحابہؓ نے عمل کیسے کیا۔پھر ایک آیت پر حکم لگانے کی بجائے ، کسی بھی معاملے میں نازل شدہ تمام آیات کو ملا کر دیکھنا چاہیے۔ قرآن اور حدیث کو خود اپنی آنکھ سے پڑھیے ۔ تاریخ اور بالخصوص موجودہ زمانہ، اس کی ٹیکنالوجی اور مختلف علوم کا کم از کم مطالعہ ضروری ہے۔ خدا آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق پہ غور کرنے والوں کی ستائش کرتاہے۔ فلکیات کی ابجد
جانے بغیر کیا یہ ممکن ہے؟
مذہب کے ساتھ تاریخ کا مطالعہ ضروری ہے ۔امریکہ اور یورپ میں ہم جنس پرستی کے قوانین اور معاشرے کا مجموعی رویہ واضح مثال ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہالی ووڈ کے فلمساز خود کو غیر متعصب ثابت کرنے کے لیے فلم میں کسی کالے اداکار کو ضرورجگہ دیتے ۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ ہر فلم میں آپ ایک ہم جنس پرست جوڑا دیکھیں گے ۔ فلم کے مرکزی خیال سے اس کا تعلق نہ بھی ہوتو زبردستی اسے گھسیڑ دیا جاتاہے ۔ ہم جنس پرستی پر تنقید کا ایک لفظ لکھ کر دیکھیے ، آپ پر یلغار ہو جائے گی ۔ چند روز قبل مکروہ صورتوں والے دو ادھیڑ عمر اداکار اپنی ''شادی‘‘ کی تصاویر سوشل میڈیا پر جاری کر رہے تھے ۔اسرائیل جیسے ملک کی سیاست میں ، جہاں مذہبی طبقے کو غیر معمولی طاقت حاصل ہے ، ہم جنس پرستی پر اعتراض کے بھیانک نتائج نکلتے ہیں ۔ پروفیسر صاحب سے پوچھیے تو وہ آپ کو بتائیں گے کہ سپر پاور یونان (ایتھنز )نے ہم جنس پرستی کا قانون منظور کیا اور پندرہ بیس برس میں زوال پذیر ہو گئی ۔ سپارٹا والوں کا انجام بھی یہی تھا۔ عاد اور ثمود کا قصہ تو ہم جانتے ہی ہیں اور یہ بھی کہ خدا کا قانون کسی کے لیے بدلتا نہیں ۔ ایک اورتہذیب عالمی طاقتوں کے قبرستان میں دفن ہونے جا رہی ہے ۔
ایک دفعہ ایک مولانا صاحب نے پروفیسر احمد رفیق اختر سے یہ کہا : پاکیزگی کا میں بہت خیال رکھتا ہوں ۔ پروفیسر صاحب نے کہا : یہ تو بہت اچھی بات ہے ۔ وہ زور دے کر بولے : میں تو مخصوص دنوں میں اپنی شریکِ حیات کے ہاتھ سے کھانا بھی قبول نہیں کرتا۔ پروفیسر صاحب نے افسوس سے انہیں دیکھا اور یہ کہا : خدا خیر ہی کرے... مراد یہ تھی کہ اپنے تئیں ''پاکیزگی‘‘ اختیار کرتے ہوئے وہ بزرگوار نبی کریمؐ کے طرزِ عمل (سنت یا اسوۂ حسنہ) کی صریحاً خلاف ورزی کر رہے تھے ۔
پھر خارجیوں کا ذکر ہوا۔ حضرت ابنِ عباسؓ کا یہ قول ہمارے استاد نے نقل کیا: خارجی ہر دور میں نکلیں گے اور ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ ہوگا۔ یوں تو امیر المومنین حضرت عثمانؓ اور حضرت علی بن ابی طالبؓ کو شہید کرنے والے خارجی بھی مذہب ہی کے نام پر ایک گروہ، ایک فرقے کے بانی تھے ۔ آج بھی القاعدہ ، دولتِ اسلامی ، طالبان اور بوکو حرام ، مذہب کے نام پر ہی تو خوں ریزی کر رہے ہیں۔ ابو بکر بغدادی کا ذکر ہوا تو باب الفتن سے پروفیسر صاحب نے حضورِ اکرمؐ کا قول دہرایا ، جس میں شہر کے نام پر کنیت اختیار کرنے والے شخص (بغداد سے بغدادی) کا ذکر تھا۔
علامات ڈاٹ کام (alamaat.com)پر جائیے ، وہاں آپ کو بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ سالانہ خطاب میں سب سے اہم بات شاید یہی تھی کہ خود کو کسی فرقے سے منسلک نہ کیجیے ۔ آپ کو اگر امام احمد رضاؒ کی شخصیت پسند ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں ۔ ان کی تعلیمات کا مطالعہ کیجیے ۔ جو اچھی چیز ملتی ہے، لے لیجیے مگر یہ بات ذہن میں رکھیے کہ بطور انسان کسی کو بھی بعض مسائل کے ادراک میں غلطی لگ سکتی ہے۔ انسان اور خطا ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ ہم نے پروفیسر صاحب کو غلطی کرتے دیکھا اور اس کی نشاندہی بھی کی۔ وہ ایک عظیم استاد ہیں ، جو ہزاروں افراد کی ذہنی سطح میں غیر معمولی وسعت کا باعث بنے لیکن غلطی سے مبرّاتو ہرگز نہیں ۔
سب سے بڑی بات یہ کہ کوئی آپ سے فرقہ دریافت کرے تو اسے اپنا فرقہ مسلمان بتائیے۔ یہ وہ نام ہے ، جو خدا نے حضرت ابراہیمؑ کی زبان سے ہمارے لیے منتخب کیا ۔ ایک خاص انداز کا عمامہ اگر ایک فرقے کی پہچان بن جاتاہے تو اسے ترک کر دیجیے‘ اس لیے کہ پھر آپ امّت سے نکل کر ایک گروہ، ایک فرقے کا حصہ بن جائیں گے ۔ اجماعِ امّت سے نکل جائیں گے ۔ عام مسلمانوں سے جدا ہو جائیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں