چند روز قبل جنرل اشفاق پرویز کیانی کے بارے میں ایک دانشور کے ''انکشافات‘‘ پڑھ کر آپ لطف اندوز ہوئے ہوں گے ۔ اخبار کے ساتھ ساتھ ٹی وی پر بھی کالم نگار کا طوطی بول رہا ہے ۔ آئے دن ہر قسم کے کردار میڈیا کی اس سکرین پہ آپ کو نظر آئیں گے ، جس پہ جادو جگانے کے لیے عقل کوئی بنیادی شرط ہرگز نہیں ۔ موصوف مقبولیت کے پیشِ نظر اس ذہنی کیفیت میں ہیں، جہاں اپنا ہر فرمان آدمی کو مستند نظر آتاہے ۔ ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی کارروائی کے بعد منظرِ عام پر آنے والے میمو سکینڈل کو انہوں نے جنرل کیانی کا لکھا ہوا سکرپٹ قرار دیا ہے ۔ اس لیے کہ ایبٹ آباد کے واقعے پر جنرل کیانی غصے میں تھے اور میمو کا جھوٹ گھڑ کر یہ غصہ انہوں نے پیپلز پارٹی کی حکومت پر اتارا۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کالم نگار بچپن سے ذوالفقار علی بھٹو کے شیدائی ہیں۔ بھٹو کو پھانسی دلوانے والے جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ساتھ حسبِ توفیق دیگر جنرل حضرات پر بھی وہ تبرّہ فرماتے رہتے ہیں ۔اپنا یہ مضمون انہوں نے عین بھٹو کی برسی کے دن عنایت فرمایا ہے ، جیالے تہہِ دل سے ان کے مشکور ہیں۔
یہ محبت اور معصومیت اپنی جگہ ، حقیقت مختلف ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ حسین حقانی نے اپنا بلیک بیری فون اور ڈیٹا عدالت کے سامنے پیش نہیں کیا تھا۔ وہ واپس آنے کا وعدہ کر کے بیرونِ ملک روانہ ہو ا اور پھر
یہ وعدہ توڑ دیا۔ میمو اگر ایک سکرپٹ تھا تو پیپلز پارٹی ہی کے کسی شاہین صفت دانشور نے اسے تحریر کیا تھا۔ آصف علی زرداری اگر نہیں تو خود حسین حقانی نے ۔سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی ہدایت پہ مجبوراً جب سوئس حکام کو خط تحریر کرنا پڑا تو ساتھ ہی خفیہ طور پر ایک دوسرا خط بھی انہوں نے بھجوا دیا تھا۔ رحمن ملک بھی ایسے کاموں کا طویل تجربہ رکھتے ہیں ۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد غالباً یہ ضمنی انتخاب کا مرحلہ تھا، جب انہوں نے پختون خوا میں اے این پی کی حکومت سے کہا تھا کہ دوسری صوبائی حکومتیں سکیورٹی خدشات کے پیشِ نظر انتخاب ملتوی کرانا چاہتی ہیں۔ ان کی خواہش پر پختون خوا کی حکومت نے بھی الیکشن کمیشن کو خط بھجوا دیا۔ بعد ازاں معلوم ہوا کہ دوسری حکومتوں نے ایسی کو ئی خواہش ظاہر نہیں کی۔میڈیا کے استفسار پر جب اے این پی نے ملک صاحب کا حوالہ دیا تو وہ صاف مکر گئے ۔
آرمی چیف بننے کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی کو شدید چیلنجز کا سامنا تھا۔جنرل پرویز مشرف کے کارناموں کے طفیل پاک فوج کی قیادت اس حال میں ان کے سپرد کی گئی تھی کہ جوانوں کو وردی میں بازار جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ جنرل کیانی جب سبکدوش ہوئے تو فوج کی مقبولیت بحال ہو چکی تھی ۔ 2009ء میں سوات مکمل طور پر فتح ہو چکا تھا۔ علاقے میں لڑکیوں کے تمام سکول بارود سے اڑا دیے گئے تھے ۔فضل اللہ کا لشکر مردان تک چڑھ آیاتھا۔جنرل کیانی نے چند ہفتوں کے اندر اس کا کنٹرول واپس حاصل کیااور پھر جنوبی وزیرستان کا بھی ۔ یہ عسکری قیادت کی سوچی سمجھی حکمتِ عملی تھی ، جس کے تحت قبائلی علاقے کو مرحلہ وار ان درندوں سے آزاد کرایا گیا۔ سوات اور جنوبی وزیرستان کی کامیابیاں مہینوں نہیں شاید ہفتوں میں حاصل کی گئیں ۔
اس وقت جب کراچی میں فوجی آپریشن کا مطالبہ کیا جا رہا تھا، جنرل کیانی وہاں گئے اورکہا کہ فوج نہیں یہ آپریشن رینجرز کو کرنا ہے ۔ آئی ایس آئی کے موجودہ چیف جنرل رضوان کی زیرِ قیادت یہ آپریشن شروع ہوا۔ اسی دوران بیش قیمت انٹیلی جنس اکٹھی کر لی گئی تھی ۔ کھل کے کارروائی اس لیے ممکن نہ تھی کہ مرکز میں پیپلز پارٹی اور صوبے میں قائم علی شاہ او رایم کیو ایم کی مخلوط حکومت ایک فریق تھی اور مزاحمت کر رہی تھی ۔ٹارگٹ کلنگ اور بھتہ خوری میں متحدہ کے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی اور اے این پی بھی اپنا کردار ادا کر رہی تھیں۔ یہ کردار ایم کیو ایم کی نسبت بہت محدود تھا ، جو کہ اس کھیل کی پرانی اور اصل کھلاڑی ہے ۔
تحریکِ انصاف، جماعتِ اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں ، حتیٰ کہ نون لیگ نے بھی شمالی وزیرستان آپریشن کو ایک ہوّا بنا دیا تھا۔میرے جیسا عام آدمی بھی اس دوران یہ لکھتا رہا کہ یہ آپریشن ایک بڑی جنگ کا مختصر اور ناگزیر حصہ ہے۔ نون لیگ کی حکومت بننے کے بعد بھی تاریخ کے بدترین قاتل ٹولے کے ساتھ مذاکرات کی ڈفلی بجائی جاتی رہی۔ طرفہ تماشہ یہ تھا کہ طالبان کی قیادت اس فضل اللہ کے ہاتھ میں تھی ، سوات میں جس کے ساتھ مذاکرات کا حشر ساری دنیا نے دیکھا تھا۔ امریکی بار بار شمالی وزیرستان میں کارروائی کا مطالبہ کرتے تھے ۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا گویا یہ کارروائی پاکستان نہیں بلکہ امریکی مفاد کے لیے کی جائے گی ۔ عمران خان ، سید منور حسن ، مولانا فضل الرحمٰن ، مولانا سمیع الحق اور دیگر حضرات نے شمالی وزیرستان کارروائی کے خلاف سخت ترین موقف اپنائے رکھا۔سوشل میڈیا پر فلسطین میں شہید ہونے والے بچوں کی تصاویر یہ کہہ کر پھیلائی جاتی رہیں کہ یہ شمالی وزیرستان میں ڈرون حملوں کے شکار ہیں ۔ پاک فوج جب شمالی وزیرستان میںکوئی محدود کارروائی کرتی تو ا س کے فوراً بعد بھی ایسی ہی تصاویر جاری کی جاتیں ۔ گوگل تصاویرکے ذریعے معلوم ہوتا کہ وہ تو سالہا سال سے انٹر نیٹ پر موجود ہیں ۔ نون لیگ اور تحریکِ انصاف کی قیادت مذاکرات چاہتی تھی اور اپنی یہ ضد انہوں نے پوری کر دکھائی ۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ڈرون حملے میں حکیم اللہ محسود جہنم واصل ہوا تو چوہدری نثار علی خاں نے اسے امن کا قتل قرار دیا۔ سید منور حسن نے اسے شہید قرار دیا اور پاک فوج کے جوانوں کو مقتول ۔ کیا ان حالات میں جنرل کیانی شمالی وزیرستان پر فوج چڑھا دیتے ؟اس صورت میںقوم کی نظروں میں پاک فوج کی ساکھ کو نقصان ہوتااور یہ بے حد حساس معاملہ تھا۔
فوجی قیادت میں تبدیلی کے بعد کالم نگار نے جنرل کیانی کو ایک آسان ہدف سمجھتے ہوئے اپنا غصہ نکالا۔ رزق کی طرح عزت بھی خدا کے ہاتھ میں ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی تو اپنا بھرپور کردار ادا کر کے خاموشی سے پسِ منظر میں چلے گئے ہیں ۔ پاکستانی تاریخ کے اوراق میںانشاء اللہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔