"FBC" (space) message & send to 7575

’’ خط ‘بنام خدا‘‘

اداسی غالب آتی تو میں تنہائی ڈھونڈتا۔یوں بھی ان دنوں زندگی تلخ تھی ۔ ایسے میں یہ خاموش وادی میری جائے پناہ ہوا کرتی۔ہر قسم کے اشجار اور پھولوں سے لبریز ۔ یہاں ایک تالاب بھی تھا۔ اس کے سامنے میں گھاس پہ بیٹھ جاتا اور اپنی زندگی کے نشیب و فرا ز پہ ایک نگاہ دوڑاتا۔ یہاں فراز کالفظ محاورتاً استعمال ہوا ہے ۔ 
اس روز جب میں وہاں پہنچا تو مجھے کچھ آثار نظر آئے ۔ آدھی جلی ہوئی کچھ لکڑیاں اور راکھ کا چھوٹا سا ڈھیر۔ سگریٹ کے ٹکڑے ، ٹوٹا ہوا کپ اور ایک تحریر۔ اس پر لکھا تھا ''خط ‘بنام خدا‘‘۔پہلی بار سنا تھا کہ خدا کے نام بھی خط لکھا جاتاہے ۔آپ بھی پڑھیے ۔ 
''سیارۂ ارض ، نظامِ شمسی ،ملکی وے ، کائنات نمبر 1، 
اے آسمانوں اور زمینوں کے مالک !
یہاں اس زمین پر میری آزمائش کے یہ آخری ایام ہیں ۔ اپنے حریف ابلیس اور اس بڑے دشمن نفس کے مقابل میری کارکردگی کیسی رہی ، اس کا حساب تو تیرے ہی ذمّے ہے ۔ میں بہرحال یہی کہوں گا کہ یہ ایک سخت امتحان تھا۔
میں لمحہ لمحہ آزمایا گیا۔ اپنی آرزوئوںاور خواہشات سے ،غم اور خوف سے ، اپنی ذات میں کمتری کے احساسات سے ، اولاد کی محبت سے ، مخالف جنس کی کشش سے، روزگار سے ، وسائل کی کمی اورلذتِ گناہ سے۔ موسموں کی سختی ، دشمن کی یلغار اور دولت سے۔ اب میں پلٹ کے دیکھتا ہوں تو یہ احساس ہوتا ہے کہ میں ایک 
مصنوعی دنیا میں جی رہا تھا ۔ ایسے ، جیسے ایک دیہاتی کو لبھانے کے لیے ایک دلفریب میلہ سجا دیا جائے ۔ وہ بے خود ہو جائے اور اس عالم میں اس کے اندر کا دیہاتی پن عیاں ہو جائے ۔تو بخوبی جانتاہے کہ میرے ساتھ بھی ایسا ہوتا رہا لیکن پھر تیری عطا کردہ توفیق کے مطابق ، میں سنبھلتا بھی رہا۔ 
تو منصف اور عادل ہے ۔تو نے مجھے دو ہتھیار بھی دیے ، جن سے کام لیتے ہوئے میں نے دشمن کے کئی وار خالی جانے دیے ۔میرا پہلا دفاع عقل تھی ۔ جب جب میں نے اس سے کام لیا ، راستے کھلنے لگے ۔ جب جب یہ خواہش پہ غالب رہی، میں عافیت میں رہا۔ میں نے مسائل کا حل ڈھونڈا اور نت نئی منزلوں کا سفر کیا ۔ 
سب سے بڑا محافظ تو بہرحال تو خود تھا۔ تیری یاد، تیری محبت اور تیری جستجو۔ ہمیشہ تو نے میری آواز سنی اور مجھے تھام لیا ؎ 
شامِ شہرِ ہول میں شمعیں جلا دیتا ہے تو
یاد آکر اس نگر میں حوصلہ دیتا ہے تو
شیطان خوش ہے ۔ اپنے تئیں وہ کامیاب ہے کہ ایک بڑی اکثریت کو ورغلانے میں کامیاب رہا۔ عقلِ انسان ، جسے اس کے خلاف استعمال ہونا تھا، اس کی ناصر ہوئی ۔ آدمی گناہ کو اپنا 
حق سمجھنے لگا۔بڑے شہروں کی فلک بوس عمارتوں کے مکین،خود کو عقل و دانش کا منبع سمجھتے ہوئے ہم جنس پرستی کے قوانین بنانے لگے۔ عقل تیری شناخت سے محروم ہوئی تو چھوٹے مفادات، دنیاوی آسائشوں تک محدود ہو گئی ۔محلّات میں انواع و اقسام کے کھانوں سے لطف اندوز ہوتی ہوئی ، وہ دماغ کی بلندیوں سے معدے کی پستیوں میں اتر تی چلی گئی ۔
شیطان خوش ہے کہ دنیا لہو لہان ہے ۔ وہ خود کش دھماکوں کی زدمیں ہے ۔ انسانیت کی بغل میں بارود، بم ، راکٹ اور ایٹمی میزائل دھرے ہیں ۔ اقوام ایک دوسرے کو خونخوار نظروں سے گھور رہی ہیں ۔آدمی ایک دوسرے کی عزت تار تار کر رہے ہیں ۔ 
شیطان خوش ہے کہ مذہب ، جسے تیری شناخت، تجھ تک رسائی بننا تھا، قتل وغارت اور نفرت کا باعث بننے والے گروہوں کا ہتھیار بن گیا۔ القاعدہ ، بوکو حرام اور داعش ۔وہ شیعہ سنّی اختلافات میں ڈھل کے باقی رہنے والی دشمنی کی بنیاد بنا۔ اسی مذہب کے نام پر آدمی دوسروں کے جذبات سے کھیلنے لگا۔ان کی عقل کو عقیدت کی عینک پہنا کر ، اس نے انہیں لوٹ لیا۔ 
شیطان خوش ہے کہ انسانیت کی ایک قلیل تعداد کرّہ ٔ ارض کے وسائل پہ قابض ہے ۔وہ خوش ہے کہ انسانوں نے باہم مل کر تیرے قوانین کو ظلم اور جہل پہ مبنی قرار دیا۔ انہوں نے قاتلوں کو موت کی سزا دینے سے انکار کر دیا۔ 
پھر بھی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ شیطان خوش کیوں ہے ۔ کیا وہ نہیں جانتا کہ یہ تیری لکھی ہوئی وہی داستان ہے ، ازل سے ابد تک مختلف رنگوں میں ،مختلف آدمیوںاور گروہوں کے ساتھ جو دہرائی جا نی تھی ۔
کیا شیطان نہیں جانتا کہ اکثریت کو ہدایت پہ رکھنا نہ تو تیرا وعدہ تھا اور نہ تیرے لیے یہ کارِ دشوارتھا۔ یہی مطلوب ہوتا تو انسانوں اور جنّوں کی جگہ مزید فرشتے پیدا کر کے عبادت پہ مامور کیے جاتے ؎ 
دردِ دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو 
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرو بیاں
اس کے برعکس تو نے ہمیں ارادہ و اختیار دیا اور معاملہ ہمارے سپرد کر دیا۔ ساتھ یہ بھی کہا ''اور اگر تیرا رب چاہتا تو انسانوں کو ایک ہی جماعت بنا دیتااورآئندہ بھی ہمیشہ اختلاف کرتے رہیں گے ۔مگر جس پر تیرے رب نے رحم کیا... اور اسی لیے تو وہ پیدا کیے گئے ہیں ۔اور پوری ہو گئی تیرے رب کی یہ بات کہ میں ضرور جہنم کو جنوں اور انسانوں سے بھر دوں گا‘‘ سورۃ ہود 118,119۔ 
کیا شیطان نہیں جانتا کہ تعداد تیرا مسئلہ نہیں ۔کیا اسے معلوم نہیں کہ محبت اور خلوص سے تیری طلب کرتا ہواصرف ایک آدمی اس جہانِ رنگ و بو کے باقی رہنے کا سبب مہیاکر دیتاہے ۔ کیا اسے خطا کرنے کے بعد توبہ تھام لینے والوں سے تیری محبت دکھائی نہیں دیتی ۔ یہ کیسا جاہل ہے جو اربوں سالوں سے اپنی ضد پہ اڑا بیٹھا ہے ۔ خیر وہ وقت دور نہیں ، جب تو اس کے اور میرے درمیان فیصلہ کر دے گا ۔ یہ قضیہ اب نمٹنے ہی والا ہے ۔ ‘‘
قارئین ! میں ان سطور کو پڑھتا رہا اور حیران ہوتا رہا۔ یہ کسی ایسے آدمی کی تحریر تھی ، جو اس زندگی کو آسمان سے دیکھ رہا تھا۔ ادھر میں اپنی آزمائش پہ بری طرح بلبلا رہا تھا۔میری آنکھیں کھلنے لگیں اور اس دنیا کی غر ض و غایت سمجھ آنے لگی ۔یہ بات میری سمجھ میں آگئی کہ میں ایک امتحان گاہ میں ہوں ۔ اس واقعے کے بعد سے میرا طرزِ عمل بدل کے رہ گیا۔ اب میں ہر قسم کے مسائل کا خوش دلی سے سامنا کرتا ہوں ۔ مطمئن رہتا ہوں ۔!!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں