"FBC" (space) message & send to 7575

قیامت کیا ہے؟

ٹیلی فون پر ناروے میں اپنے کسی عزیز سے جب ہم تبادلۂ خیال کرتے ہیں تو دونوں طرف کی آوازیں بغیر کسی تعطل کے ایک دوسرے تک پہنچتی ہیں۔ کمپیوٹر پر ہم اپنی عزیز ہستیوں کو دیکھتے ہوئے بھی ان سے بات کر سکتے ہیں ۔ سکائپ جیسے پروگرام اسی لیے بنائے گئے ہیں ۔ اس دوران ایک لمحے کی رکاوٹ بھی پیدا نہیں ہوتی،سوائے اس کے کہ انٹرنیٹ کنکشن میں کوئی مسئلہ ہو۔ دنیا کے ایک سرے سے ، ہم دوسرے کونے میں ای میل بھیجتے ہیں اور ایک سیکنڈ کے اندر وہ موصول ہو جاتی ہے ۔ یہ سب اس لیے کہ ڈیٹا روشنی کی رفتار سے سفر کرتاہے اور روشنی کی رفتار تقریباً تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈ ہے ۔ یہ رفتارحیران کن ہے کہ ہماری کار 100کلومیٹر فی گھنٹا کی رفتار سے محوِ حرکت ہو تو بزرگ افراد گھبرا جاتے ہیں ۔ آئن سٹائن نے کہا تھا کہ روشنی کی رفتار وہ آخری حد ہے ، جس سے تیز رفتار سفر کبھی ممکن نہ ہو سکے گا۔ اس نے درست کہا تھا لیکن صرف انسانوں کی حد تک ۔
خدا کے ہاں رفتار کے پیمانے مختلف ہیں ۔ وہ توانائی اور روشنی کا خالق ہے ۔ اسی توانائی کا ، جس سے ہر قسم کے مادہ ، لوہا، سونا ، چاندی ، تیل،آکسیجن اور خود انسانی جسم کو بنانے والے عناصر نے جنم لیا۔ وہ چاہے تو فزکس اور ریاضی کے قوانین کو تلپٹ کر سکتاہے ۔آج ہم جانتے ہیں کہ ہماری کہکشاں کے مرکز میں جو بلیک ہو ل ہے ، وہ کس قدر خوفناک کششِ ثقل کا مالک ہے ۔ اس قدر کہ اس کے گرد بارہ سورج ناقابلِ یقین رفتار سے حرکت میں ہیں ۔ ان میں سے ایک کی رفتار ایک کروڑ اسّی لاکھ کلومیٹر فی گھنٹا ہے ۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ روشنی کی رفتاریعنی تین لاکھ کلومیٹر فی سیکنڈسے سفر کرتے ہوئے ، ہماری کہکشاں کے ایک کونے سے دوسرے تک سفر کرنے کے لیے ایک لاکھ سال کا عرصہ درکار ہے ۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ رسولِ اکرمؐ جب اس کہکشاں سے گزر کر ، آسمان کی وسعتوں سے گزر کرآسمانوں اور زمینوں کے رب کے حضور تشریف لے گئے تو انہیں ایک لاکھ سال تو قطعاً نہ لگے تھے ۔حضورؐ پہلے فلسطین تشریف لے گئے اور پھر وہاں سے آسمانوں کی سیر کے بعد جب لوٹ کر آئے تو وہ مبارک رات بھی پوری نہ گزری تھی ۔یہ کیسے ممکن ہوا؟
یہ سب اس لیے کہ خدا توانائی اور مادے کا خالق ہے ۔ آج اگر انسان نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے عناصر کی بنیادی خصوصیات میں تبدیلی کے قابل ہو اہے تو وہ شروع ہی سے اس پہ قادر تھا لیکن ایسا بھی وہ کچھ خاص قوانین کے تحت ہی کرتا تھا۔ موجودہ دور کا انسان اب وہاں تک پہنچ رہا ہے ۔استاد پروفیسر احمد رفیق اختر کے الفاظ میں خدا بھی اسی ٹیکنالوجی کی سب سے اعلیٰ شکل استعمال کرتاہے ، جس کی ادنیٰ اقسام ہم انسانوں کے زیرِ تصر ف ہیں ۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت ہمارا اپنا جسم ہے ۔ یہاں دماغ سے احکامات برقی رو کی شکل میں جسم کے ایک ایک عضوتک پہنچتے ہیں ۔ وہی برقی رو جو ہمارے گھروںکو روشن رکھتی ہے ۔ استاد کا یہ بھی کہنا ہے کہ سائنس ہر اس معجزے تک ضرور پہنچے گی ، جو گزرے ادوار کے انبیاؑ خدا کے حکم سے بجا لاتے رہے ۔ میرے ذاتی خیال میں آگ کو اگر ابراہیمؑ پہ تپش سے محرومی کا حکم دیا گیا تھا تو نینو ٹیکنالوجی کی مدد سے یہ عین ممکن ہے ۔ نینو ٹیکنالوجی میں ہم ایک عنصر کی مفید خاصیت کو تو برقرار رکھتے ہیں ، اس کی مضر خاصیت کو ہم ختم کر دیتے ہیں۔ مثلاًلوہے کے ایٹموں میں مضبوطی تو اسی طرح برقرار رہے لیکن ساتھ ہی اس میں لچک پیدا کر دی جائے تو یہ نینو ٹیکنالوجی کا کمال ہے ۔ خدا چاہے تو موسیٰ ؑ کا عصا جو کہ لکڑی کے ایک خاص قسم کے ایٹموں پر مشتمل ہے ، وہ اژدھے کی ایٹمی ساخت حاصل کر سکتاہے ۔ آپ کے خیال میں اژدھا کیا ہے ؟ انسان کی طرح وہ بھی ہائیڈروجن، آکسیجن، کیلشیم، اور کاربن وغیرہ پہ مشتمل ہے ۔ خدا کو کرنا تو کچھ نہیں ہوتا ۔ اسے تو صرف ایٹموں کو ایک خاص ترتیب سے جوڑنا ہوتاہے ۔ یہ ترتیب قائم ہے تو ہائیڈروجن ، آکسیجن اور کاربن وغیرہ کا مجموعہ انسان کی شکل میں زمین پر دندنا تا پھرے گا۔ اگر وہ اس ترتیب میں بگاڑ پیدا کر دے تو وہ مٹی کا ایک ڈھیر بن جائے گا۔ آپ خود ان عناصر ہائیڈروجن، آکسیجن، کاربن ، کیلشیم اور فاسفورس وغیرہ کی وہ مطلوبہ مقدار لیجیے ، جوانسانی جسم کے بنیادی اجزا ہیں ۔ انہیں ایک دوسرے کے اوپر تلے رکھیے ۔ آپس میں گڈ مڈ کر دیجیے لیکن آپ انسان تخلیق کرنے میں کامیاب ہرگز نہ ہوں گے ۔
آپ کے خیال میں قیامت کیا ہے ؟ وہ جو قرآن کہتاہے کہ سورج چاند ایک ہو جائیں گے ۔ خوفناک زلزلے برپا ہوں گے اور زمین اپنے اندر کی اشیا نکال پھینکے گی ۔ صاف ظاہرہے کہ سائنسی تحقیقات کے عین مطابق سورج اپنے اختتام پر پھیلے گا ۔ وہ زمین کے قریب آئے گا۔ یہاں زلزلے برپا ہوں گے ۔ زلزلوں کے تحت پہاڑ اڑ جائیں گے ۔ سورج کی خوفناک گرمی اور کششِ ثقل کے تحت زمین پگھل جائے گی اور اس کے اندر کی اشیا باہر نکل آئیں گی ۔ فرق صرف یہ ہے ، جو اب تک میری سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اس سب حادثے کے آغاز سے اختتام تک تو دو تین ارب سال درکار ہیں ۔ پھر یہ یکایک کیسے ہو گا۔ جواب سادہ ہے ۔ خدا اپنی قدرت کا جلوہ دکھائے گا۔ بالکل اسی طرح جیسے وہ لکڑی کے ایٹموں کو اژدھے کے خلیات میں بدل دیتاہے۔ اسی طرح وہ سورج کی ساری ہائیڈروجن سے کہے گا کہ رفتہ رفتہ اور بتدریج کی بجائے ، ایک ہی ساعت میں ساری کی ساری ہائیڈروجن ہیلیم میں تبدیل ہو جائے ۔ یہ ارب ہا ارب ایٹم بموں کے یکایک پھٹنے کے مساوی ہو گا۔ سورج کا ایندھن ختم ہو جائے گا۔ وہ مرنے لگے گا اور پھیل جائے گا۔ زمین کے قریب آجائے گا۔ عطارد ، زہرہ اور ہمارے چاند کو نگل جائے گا۔ ادھر زمین پر یہ حالت ہوگی جو سورۃ ء الحج میں خدا نے ارشاد فرمائی ہے ۔''اے انسانو، اپنے رب سے ڈرو۔ بے شک قیامت کا زلزلہ بڑی عظیم شے ہے ۔ جس دن تو ہر دودھ پلانے والی کو دیکھے گا کہ اپنے دودھ پیتے بچے کو بھول جائے گی اور ہر حاملہ کا حمل گر جائے گااور لوگ تجھے اس طرح دکھائی دیں گے ، گویا وہ نشے میں ہیں ؛حالانکہ وہ نشے میں نہ ہوں گے بلکہ اللہ کا عذاب ہی ایسا شدید ہو گا۔‘‘ الحج،1، 2۔
قارئین ، راولپنڈی میں ایک سرو قد خاتون رہتی ہے ، جس سے میں شادی کرنا چاہتا ہوں ۔جب قیامت کا زلزلہ برپا ہوگا تو نہ صرف میں اسے بھول جائوں گا بلکہ دودھ پلانے والی مائیں اپنی اولاد کوبھی ۔دوسرے جانوروں کی طرح ، اس کرّہ خاک سے تمام انسانیت کا نام و نشان تک مٹ جائے گا۔ یہ ہے انجام!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں