"FBC" (space) message & send to 7575

2013ء کے انتخابات‘ جنرل پاشا اور جنرل کیانی

جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ ملکی سیاست میں ایک بڑا موڑ ہے۔ حکومت کی ناقص ترجیحات اور حکمتِ عملی کے باوجود قسمت مہربان ہے۔ اقتصادی راہداری کے تحت ملک میں سڑکوں کا جال بچھ رہا ہے۔ بلوچستان میں فوج کے ترقیاتی ادارے ایف ڈبلیو او نے 502 کلومیٹر سڑک تعمیر کر دی ہے‘ جسے اقتصادی راہداری سے ملا دیا جائے گا۔ سڑک اپنے ساتھ معاشی امکانات لاتی ہے۔ چینی سرمایہ کاری کا سب سے بڑا حصہ بجلی منصوبوں سے متعلق ہے؛ لہٰذا اگلے انتخابات سے قبل لوڈ شیڈنگ ختم جائے گی۔ قطر سے مائع قدرتی گیس کی درآمد شروع ہو چکی۔ یوں بھی عالمی پابندیاں اٹھنے کے بعد اگلے دو برس میں ایرانی گیس پچاس فیصد قلت ختم کر دے گی۔ تیل سستا ہے اور ایرانی ذخائر مارکیٹ میں آنے کے بعد اگلے کئی برس سستا ہی رہے گا۔ چینی قرض اور سرمایہ کاری جن شرائط کے تحت بھی حاصل کی جا رہی ہے، ظاہر ہے کہ اس سے بیروزگاری میں کمی ہو گی۔ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد سے دہشت گردی میں خاطر خواہ کمی آئی ہے۔ عسکریت پسندوں کے مالی وسائل پہ ضرب اس سلسلے میں فیصلہ کن ثابت ہو سکتی ہے۔ یوں 2018ء کے الیکشن تک ملکی حالات خاصے بہتر ہو چکے ہوں گے اور ویران گلیوں میں میٹرو سوار شریف برادران جشن منا رہے ہوں گے۔ 
یہ تجزیہ اس لیے بھی درست لگتا ہے کہ دو ماہ قبل عمران خاں نے کہا تھا: لاہور میں ایک نہیں، پانچ تحریکِ انصاف ہیں (ایک عبدالعلیم خان کی، ایک اعجاز چودھری، ایک محمودالرشید اور دو نامعلوم افراد کی) جسٹس وجیہہ الدین احمد کی سفارشات کے تحت پارٹی تنظیمیں معطل کرنے کے بعد چودھری سرور کو پنجاب کا آرگنائزر مقرر کیا گیا تھا‘ لیکن پھر شاہ محمود قریشی (مرکز میں اپنے عہدے کے ساتھ ساتھ) پنجاب کے دس اضلاع بھی لے اڑے۔ سوشل میڈیا پر تحریکِ انصاف والے عدالتی کمیشن پہ برہم اور نون لیگ والوں سے الجھ رہے ہیں۔ بہرحال، اس دھڑے بندی کے ساتھ شکستہ صف پی ٹی آئی کو آج نئے عام انتخابات میں اتارا جاتا تو اسے 2013ء سے زیادہ مایوس کن نتائج کا سامنا ہوتا۔ 
نون لیگ کے زبیر عمر کا کہنا ہے کہ جنرل پاشا بطور آئی ایس آئی چیف‘ تحریکِ انصاف کی حمایت کر رہے تھے اور بعض دوسرے بھی اسی کام میں مصروف تھے۔ جاوید ہاشمی نے الزام عائد کیا ہے کہ تحریکِ انصاف میں شمولیت کے لیے جب وہ کراچی پہنچے تو کپتان نے ان سے کہا کہ جنرل کیانی سے بات ہو گئی ہے اور جنرل پاشا سے بھی۔ بقول جاوید ہاشمی، کپتان کی اس بات پر وہ بے ہوش ہوتے ہوتے بچے اور سوچتے رہے کہ اب تحریکِ انصاف میں شامل ہوا جائے یا نہیں۔ جاوید ہاشمی کے اس بیان کو حرف بحرف درست مان لیجیے تو بھی یہ وہ مکّا ہے جو انہیں لڑائی کے بعد یاد آیا، اس لیے کہ 31 اگست 2014ء تک وہ تحریکِ انصاف کے صدر تھے۔
میرے والد کے جنرل کیانی اور عمران خان‘ دونوں ہی سے انتہائی قریبی تعلقات رہے اور بہت سی چیزوں کا میں عینی شاہد ہوں۔ شمالی وزیرستان ہی کی طرح، 2009ء میں کپتان سوات اور جنوبی وزیرستان آپریشن کی بھی سخت مخالفت کر رہا تھا۔ اس پر ٹی وی کے ایک پروگرام سمیت، میرے والد کی کئی بار عمران خان سے بحث ہوئی (ایک بار تو طویل گفتگو کے بعد وقتی طور پر خان صاحب نے تسلیم بھی کر لیا تھا کہ دہشت گردوں کے بارے میں ان کا موقف غلط ہے) میرے والد کا کہنا تھا کہ عمران خان مستقبل کا اہم ترین لیڈر ہے اور طالبان کے بارے میں اس کا موقف قوم کو تقسیم کرنے کا باعث ہے۔ جنرل کیانی سے انہوں نے اصرار کیا کہ جس طرح ملک کے نامور صحافیوں کو انہوں نے اعتماد میں لیا ہے، اسی طرح کپتان سے بھی انہیں بات کرنی چاہیے۔ جنرل کیانی نے اس مقصد کے لیے جنر ل پاشا کو عمران خان کے پاس بھیجا۔ جنرل صاحب عمران خان سے متاثر ہوئے اور ایسے متاثر کہ اپنے ہر ملاقاتی کے سامنے اس کا اظہار کرنے لگے۔ ظاہر ہے کہ بطور آئی ایس آئی چیف اپنی حدود کو انہوں نے فراموش کیا اور بعد میں اس کا خمیازہ بھگتا۔
جہاں تک جنرل کیانی کا تعلق ہے، الیکشن کے نتائج سے صاف واضح تھا کہ فوج کی طرف سے تحریکِ انصاف کو کسی قسم کی مدد فراہم نہیں کی گئی۔ جنرل کیانی پر تو بلکہ دھاندلی میں ملوّث ہونے اور بالفاظِ دیگر نون لیگ کی حمایت کا الزام لگتا رہا۔ ایک بار عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کے بارے میں جنرل کیانی سے میرے والد کی بات ہوئی۔ والد صاحب نے کہا کہ ان کے خیال میں تحریکِ انصاف 150 سیٹیں حاصل کر لے گی۔ والد صاحب نے جنرل کیانی سے ان کی رائے پوچھی تو انہوں نے کہا: میرا خیال یہ ہے، ہارون صاحب کہ آپ کو مایوسی ہو گی۔
جنر ل کیانی جانتے تھے کہ جنرل پاشا کا طرزِ عمل نقصان دہ ہے‘ لیکن یہ بھی سچ تھا کہ آئی ایس آئی بطور ادارہ تحریکِ انصاف کی قطعاً کوئی حمایت نہیں کر رہی تھی۔ انہوں نے خاموشی سے مارچ 2012ء میں جنرل پاشا کی سبکدوشی کا انتظار کیا (کہنے والے کہتے ہیں کہ دھرنے کے دوران جنرل راحیل شریف نے بھی ایسا ہی ایک فیصلہ کیا تھا) جنرل کیانی بہرحال جنرل پاشا سے ناخوش تھے اور آخری دنوں میں انہوں نے ان کا فون سننا ترک کر دیا تھا۔ 
الیکشن سے قبل کپتان وزارتِ عظمیٰ کے حصول کے لیے اس قدر پُریقین تھا کہ اسے فوجی قیادت سے خوشگوار مراسم کی ضرورت کبھی محسوس نہ ہوئی۔ الٹا وہ جنرل کیانی کے بارے میں منفی خیالات کا اظہا رکیا کرتا‘ اورگاہے میرے والد کو بھی ان سے دور ہی رہنے کا مشورہ دیتا۔ ایک بار میرے والد سے انہوں نے کہا کہ وہ جنرل کیانی سے غیر ضروری طور پر متاثر ہو گئے ہیں۔ والد صاحب نے اس پر یہ کہا کہ سترہ سالہ دوستی میں خود کپتان سے تو وہ ضرورت سے زیادہ متاثر نہ ہوئے تو جنرل کیانی سے کیونکر ہوں گے۔ خان صاحب اس پر خاموش ہو گئے۔ 
2013ء کا الیکشن جنرل کیانی کے لیے بہت مشکل مرحلہ تھا۔ آرمی چیف بننے کے بعد 2008ء میں انہوں نے فوج کو دھاندلی روکنے کا حکم دیا تھا۔ اس پر چودھری برادران اور پرویز مشرف ان سے سخت نالاں رہے۔ 2013ء میں صورتِ حال یہ تھی کہ چودھری نثار سمیت نون لیگ والے خفیہ اداروں پر تحریکِ انصا ف کی مدد کا الزام عائد کر رہے تھے۔ دوسری طرف نواز شریف جنرل کیانی کو پرویز مشرف کے ہم نفس کے طور پر دیکھتے تھے۔ تیسری طرف ایک ناتجربہ کار کپتان تھا‘ جو ان کے بارے میں منفی رائے رکھتا تھا۔ چوتھی طرف جسٹس فخرالدین جی ابراہیم تھے‘ جنہوں نے جنرل کیانی سے دو گھنٹے طویل ملاقات کے بعد کہا تھا: آرمی چیف کو میرا سلام دیجیے گا۔ جسٹس ریاض کیانی نے ان سے یہ کہا تھا کہ پولنگ سٹیشن پر مقرر ہونے والے فوجی افسر کو دھاندلی کی صورت میں بھی مداخلت کا اختیار نہ ہو گا۔ حالات اور واقعات کی شہادت یہ ہے کہ جنرل کیانی نے اس صورتِ حال میں الیکشن سے قطعی طور پر لاتعلق رہنے کا فیصلہ کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں