8ہزار فٹ کی بلندی پریہ ایک خوشگوار دن تھا۔ہر ایک پہاڑ پر پورا جنگل اگا ہوا تھا ۔ برف بنی ایک جھیل سے گزر آنے کے بعد اب ہم مصنوعی خوشگوار حرارت سے بھرپور کمرے میں مشروب سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔تب اس نے یہ کہا: یہ دنیا تو دھوکے کی جگہ ہے۔ میرا دل زور سے دھڑکا اور مجھے ایک جھٹکا لگا۔
اس دھچکے سے سنبھلنے میں مجھے کچھ وقت لگا ۔ پھر میں نے کہا : معاف کرنا ایڈی (عدنان) ،مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ تمہارے اندر ایک حاجی اللہ رکھا روپوش ہے ۔ ہمیشہ تم نے عقلمندی کی بات کی۔ حقیقت بھی یہی تھی کہ تیس برس کی ہماری رفاقت اس طرح کی خرافات سے پاک تھی۔ ہم دونوں ہی اپنی اپنی جگہ نہایت کامیاب زندگی گزار رہے تھے ۔ دونوں کامل حقیقت پسند (Realistic) تھے ۔پھر آج اس نے یہ کیسا ملّائیت زدہ جملہ کہا۔
کچھ دیر خاموشی سے وہ مجھے دیکھتا رہا ۔ پھر زندگی میں پہلی بار میں نے اسے روتے دیکھا۔ یہ بات اس لیے بھی حیرت انگیز تھی کہ تیس برس میں کبھی کوئی حسرت ،کوئی ناکامی میں نے اس کے قریب پھٹکتے نہ دیکھی تھی ۔ پھر اس نے یہ کہا : بطور ایک سائنسدان، مجھے تربیت ہی ثبوت و شواہد کی بنیاد پر اصول مرتب کرنے کی دی گئی۔ سچ وہی ہے ، کائناتی قوانین کی بنیاد پر جسے ثابت کیا جا سکتا ہو ۔بسا اوقات ہم سائنسدان ساری زندگی ایک اصول اور ایک ذرے کی دریافت پہ صرف کر تے ہیں۔ یوں ہم ایک بڑی تصویر دیکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ اس دوران ہماری ذہنی حالت Obsessionکے مارے دماغی مریض کی سی ہو جاتی ہے ۔ ہم نارمل زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے ۔ عوام کالانعام رہنمائی کے لیے ہماری طرف دیکھتے ہیں لیکن ذہنی مریض کسی کی کیا رہنمائی کرے گا۔ یہ بات البتہ درست ہے کہ بھاری بھرکم اصطلاحات کے استعمال سے ہم انہیں مرعوب کیے رکھتے ہیں ۔
میں نے اس سے یہ کہا ''ایڈی ،تم شاید کسی لمحاتی ڈپریشن کا شکار ہو ۔ دیکھو ، یہ دھوکے کی جگہ نہیں ۔ کیا میری انگوٹھی میں جڑا ہیرا دھوکہ ہے ؟ کیا وہ حسین چہرے ، جو آج دن بھر ہم دیکھتے رہے ؟ یہ مشروب ، جس کا ایک گھونٹ خمار طاری کر دیتاہے ‘‘۔ میں نے جیب میں ہاتھ ڈالااور کہا ''نوٹوں کا یہ ڈھیر اور جو کچھ ہم اس سے خرید سکتے ہیں ، وہ تمہیں دھوکہ نظر آتا ہے ؟ یا کروڑوں روپے مالیت کی وہ گاڑی ، جس میں ہم محوِ سفر رہے ، وہ جھوٹ ہے ؟ نہیں ، تم مغالطے کا شکار ہو ۔ یہ سب حقیقت ہے ۔ یہ بڑا لطف انگیز ہے ۔ قنوطیت سے باہر نکلو اور ٹھوس حقیقت پر مبنی اس دنیا کا حظ اٹھائو‘‘۔
''یہی تو‘‘ اس نے رو کر کہا ''ہیرا کاربن ہے ،کوئلہ بھی کاربن۔ یقیناً تم کوئلہ جڑ ی انگوٹھی پہننا پسند نہ کرو گے لیکن ان دونوں میں بہت معمولی سا فرق ہے...اور میں تمہیں سچی بات بتائوں تو کاربن کا وجود ایک سفید جھوٹ ہے ۔ شروع میں صرف ہائیڈروجن تھی ۔ اسی سے ہیلیم بنی، اسی سے آکسیجن، کاربن،حتیٰ کہ لوہا۔اسی ہائیڈروجن سے سورج بنے ۔ اسی سے پانی او راسی سے ہمارے جسم کے تما م عناصر‘‘۔
میں حیرت سے اس کا منہ تک رہا تھا۔ وہ ہذیانی کیفیت میں بولتا رہا ''جب یہ سب مجھ پہ منکشف ہوا تو دنیا کو میں ایک اور ہی نگاہ سے دیکھنے لگا۔ ا ب جب میں اپنی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر تم سے ملنے آتا ہوں تو یہ محسوس ہوتاہے کہ ہائیڈروجن ، ہائیڈروجن پر بیٹھ کر ہائیڈروجن سے ملنے جا رہی ہے ۔ یہ روپیہ ہائیڈروجن ہے ۔ یہ حسین چہرے ، یہ پہاڑ، یہ جھیل اور ہوٹل، سبھی کچھ‘‘۔
خوف سے اس کا رنگ زرداور آواز بیٹھ چکی تھی ''میں نے ہائیڈروجن گیس کے ٹینک لیے اور تحقیق شروع کی ۔ ہر طرح سے میں نے اسے جانچا لیکن وہ ایک عام سا عنصر ثابت ہوا ، جسے ہم اپنی گاڑیوں میں جلاتے ہیں ۔ یہ ایک بڑی خوفناک بات تھی ۔ کائنات بڑے سورجوں سے بھری ہوئی ہے اور ایک دو ٹکے کی گیس خام مال کے طور پر استعمال ہوتے ہوئے ان کے مرکز میں قیمتی عناصر تخلیق کر رہی تھی ۔ ان میں سے کچھ عناصر باہم جڑتے ہوئے ، زندگی پا رہے ، جاندار اشیا کہلا رہے تھے ۔ یہ جاندار بے جان عناصر سے کھیل رہے تھے ، ان سے مستفید ہو رہے تھے ۔مزید برآں یہ کہ کروڑوں جانداروں میں سے ایک میں یہ ہائیڈروجن ذہانت و فطانت کا مجموعہ بن چکی تھی ۔ باقی ہنوز ہونق تھے اور ذہین ہائیڈروجن (انسان ) کے ہاتھوں بدترین استحصال کا شکار تھے‘‘۔
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ تین دہائیوں کی اس شاندار رفاقت کے بعد آج وہ یہ کس قسم کا مذاق کر رہا ہے ۔اس نے کہا :یہ بات ظاہر ہونے کے بعد کہ اس زمین او رآسمان ، اس تمام کائنات میں ہر شے ہائیڈروجن ہی سے وجود میں آئی ہے ، مجھے اپنے ہم نفسوں پر حیرت ہونے لگی ۔ وہ کائنا ت میں کیا کھوجتے پھر تے ہیں ۔ فضائے بسیط میں اڑتی دوربینوں کے ذریعے وہ کیا دیکھنا چاہتے ہیں ؟ اس زمین پر رنگا رنگ اشیا تخلیق کرنے والے اس عنصر نے دیگر زمینوں میں بھی کاریگری دکھائی ہوگی ۔اس زمین کی طرح قیمتی دھاتیں دوسرے سیاروںمیں بھی جلوہ گر ہوں گی ۔ یہاں اس کہکشاں میں زندگی تخلیق کرنے والے جوہر نے دوسر ے مقامات پر بھی جاندار پیدا کیے ہوں گے ۔یہاں مجھے معلوم ہو اکہ انسانی تحقیق کا زاویہ ہی غلط ہے ۔ اصل معمہ تو یہ تھا کہ ہائیڈروجن کا خالق کون ہے ۔ ادھر ہم فقط یہ دیکھتے رہ گئے کہ یہ گیس کون کون سی شکلیں اختیار کر سکتی ہے ۔ اصل سوال یہ تھا کہ انسانی کاسۂ سر میں عقل کہاں سے آئی ۔ دیگر جانور محروم کیوں رہ گئے ؟ ہم دوسری زمینوں تک رسائی، وہاں جاندار اشیا ، حتیٰ کہ ایک زندہ جرثومے کے لیے ایڑیاں رگڑتے رہے ۔یہ کتنا بڑا تضاد ہے ، جملہ انسانیت ، اس کے ذہین ترین اذہان جس میں ملوّث ہیں ۔
وہ گھنٹوں بولتا رہا۔ بالآخر اسی حالت میں ، میں اسے چھوڑ آیا۔ اس کی یہ باتیں میرے دل و دماغ پہ اثر انداز ہو رہی تھیں۔ ان گنت سوالات کو جنم دے رہی تھیں ۔ میرے خوشگوار موڈ کا اس نے ستیاناس کر دیا تھا۔ مجھے ہائیڈروجن سے غرض تھی ،نہ کاربن سے ۔مجھے ہیرے اور قیمتی گاڑیاں پسند ہیں ۔ مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ یہ دنیا بڑی خوبصور ت ہے اور میں اس زندگی سے لطف اندوزہونا چاہتا ہوں۔