"FBC" (space) message & send to 7575

اندھا کنواں

ا ب عالمی نشریاتی ادارے بھی اس تحقیق میں مصروف ہیں کہ پاکستانی فوج اور اس کے سپہ سالار کی غیر معمولی مقبولیت کا راز کیا ہے ۔ سیدھی اور صاف بات یہ ہے کہ نہ صرف مشرقی او رمغربی سرحدوں پر اپنے فرائض وہ بخوبی انجام دے رہی ہے بلکہ سول ادارے بھی اسی کے پیدا کردہ دبائو کے تحت متحرک ہیں ۔ کراچی میں ایم کیو ایم ،پیپلز پارٹی اور مذہبی فرقہ پرست دہشت گردوں اور جرائم پیشہ کو لگام اسی نے ڈالی ۔ اسی نے سندھ میں نیب اور ایف آئی اے کو کارروائیوں پر مجبور کیا۔ پنجاب میں رانا مشہود کے خلاف تحقیقات اسی نے شروع کرائیں ۔ سوات ، جنوبی اور شمالی وزیرستان کو عسکریت پسندوں سے رہا اس نے کرایا۔ادھر دوسری طرف سیاسی قیادت ہے ، ایک پورا سال گزرجانے کے بعد بھی جو تحفظِ پاکستان ایکٹ کے تحت خصوصی عدالتیں تشکیل نہیں دے سکی۔ فوجی عدالتوں میں گنے چنے مقدمات ہی سنے جا سکتے ہیں ۔ مجرموں کو سزاملنے کا عمل شروع نہ ہوا تو امن کے عارضی مہ و سال سے گزرنے کے بعد کراچی ایک بار پھر خرابی کا شکار ہو سکتاہے ۔ 
شریف خاندان دانا و بینا ہے ۔پاکستان اور دنیا بھر میں کامیابی سے کاروبار اور تمام سیاسی حربے آزما کر اقتدار حاصل کرنا کسی گائودی کے بس کی بات نہیں ۔ اس کے باوجود حیرت انگیز طور پر جہاں ، جس منصوبے کی تحقیق کی جائے ، وہیں سے کچرا نکلتا ہے ۔ اب پیش ہے ، گوادر ایل این جی ٹرمینل ، جس کی لاگت تین ارب روپے سے بڑھ کر تیرہ ارب تک جا پہنچی ۔عالمی برادری سے لگ بھگ آٹھ فیصد پر قرض حاصل کر کے وزیرِ خزانہ اسحق ڈار داد کے طلب گار ہیں۔ ماہرین کی رائے میں دوگنا شرح پر ۔خیر، یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چھوٹے میاں صاحب اس بات کا بھی فخریہ ذکر کرتے رہے ہیں کہ اتفاق فائونڈری کے عوض حاصل کردہ تین ارب روپ اور سود سترہ برس بعد انہوں نے واپس کر دیا تھا۔ 
اقوامِ متحدہ میں وزیرِ اعظم نے درست طور پر کشمیر اور سرحدوں پر بھارتی جارحیت کا معاملہ اٹھایا ۔بھارتی گولہ باری کا معاملہ انہیں اعداد و شمار کے ساتھ زیادہ شدّو مد سے اٹھانا چاہیے تھا۔ آرمی چیف کئی بار یہ بات کہہ چکے ہیں کہ بھارت دہشت گردی کے خلاف جنگ سے توجہ ہٹانا چاہتاہے ۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے موثر ریاست کے طور پر سامنے آیا ہے۔ عالمی برادری سے وزیرِ اعظم یہ کہتے کہ جون 2014ء میں جیسے ہی شمالی وزیرستان آپریشن شروع ہوا،بھارت نے پاک فوج کو مشرق میں انگیج کرنے کی کوشش کی ۔ اس وقت جب امریکہ ،خطے او رپوری دنیا کا مفاد اس میں ہے کہ پاکستانی افواج مغربی سرحد پر دہشت گردوں کاخاتمہ کریں ، ہماری نصف فوج مشرق میں بھارت سے نمٹنے میں مصروف ہے ۔ کیا بالواسطہ طور پر یہ دہشت گردوں کی مدد نہیں ؟
وزیرِ اعظم نواز شریف کو نریندر مودی کے ان بیانات کا حوالہ دینا چاہیے تھا، جن میں پاک چین اقتصادی راہداری پر تحفظات اور بنگلہ دیش کے قیام میں اپنے کردار کا فخریہ انہوں نے ذکر کیا تھا۔ یہ وہ فاش غلطیاں تھیں، جن کا حوالہ دے کر وزیرِ اعظم بھارت کو بیک فٹ پر دھکیل سکتے تھے ۔ زور دے کر یہ بات انہیں کہنی چاہیے تھی کہ چھ دہائیوں سے مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادیں عمل درآمد کی منتظر ہیں ۔ دنیا کی دو طاقتور ایٹمی ریاستیں مسلسل کشیدگی اور اس جنگ کے خطرے سے دوچار ہیں ، دنیا بھرمیں جو تباہی کا آغاز ثابت ہو سکتی ہے ۔
جنگ کے دوران فوج اور عسکری قیادت کی اہمیت یوں بھی بڑھ جاتی ہے ۔ خطے کے حالات بھی ایسے ہیں کہ پاکستانی فوج کا کردار بہت بڑھ گیا ہے ۔ افغانستان میں پاکستان ، بالخصوص اس کی مسلّح افواج کے خلاف نفرت کا اظہار فیشن ہے ۔ بالکل اسی طرح ، جیسے چند برس قبل بائیں بازو کے ہمارے دانشور اور اخبار نویس حضرات اسے جرأت مندی کا مظہر سمجھتے تھے؛حتیٰ کہ عوامی دبائو کے تحت انہیں خاموش ہونا پڑا ۔ افغان سرزمین پر ہر حملے اور ہر دھماکے کا الزام پاکستان پر دھرنا ایک قابلِ تحسین عمل سمجھا جاتا ہے ۔ بنیاد اس کی امریکہ بہادر نے ڈالی تھی۔ مضحکہ خیز طور پر تیرہ سالہ افغان جنگ کے اختتام پر سا ت سو ارب ڈالردفاعی بجٹ رکھنے والا امریکہ ، افغانستان میں جو عالمی افواج کی قیادت کر رہا تھا، اپنی شکست کا ذمہ محض سات ارب ڈالر بجٹ والی پاکستانی افواج پر ڈالنا چاہتا تھا۔ اسی لیے سلالہ پر حملہ کر کے دو درجن پاکستانی فوجی اس نے شہید کر ڈالے تھے اور اسی پر امریکی جرنیل جنرل اشفاق پرویز کیانی سے تلخ کلامی کرتے رہے ۔اسی لیے آئی ایس آئی کے خلاف عالمی میڈیا میں مہم چلائی گئی۔ اس سے قبل 2007ء میں جنرل پرویز مشرف نے پاک افغان سرحد پر باڑ او ربارودی سرنگیں بچھانے کا منصوبہ پیش کیا تو اپنے کٹھ پتلی حامد کرزئی کو عالمی طاقت آمادہ نہ کر سکی ۔ اب قندوز پرافغان طالبان کا قبضہ عارضی ثابت ہوتا ہے یا مستقل، اس نے طالبان کی حملوں اور جنگ کی قوت پوری طرح واضح کر دی ہے ۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ امریکی قیاد ت میں اقوامِ عالم افغانستان میں ناکام رہیں ۔ یہ بھی کہ افغان نیشنل آرمی ایک ناپختہ ادارہ ہے ، جوطالبان کو شکست نہیں دے سکتا۔ 
بات بات پہ پاکستان پر الزام دھرنے والی افغان قیادت اب ظاہر ہے کہ قندوز چھن جانے کے بعد بغلیں جھانک رہی ہے ۔ معاملے کا دیر پا حل نکالنے کی ضرورت ہے ۔ یہ عسکری ہو یا سیاسی ، دونوں صورتوں میں پاکستان اور اس کی فوجی قیادت کا تعاون افغان حکام کو درکار ہوگا ۔ یہ وہ صورتِ حال ہے ، جس میں خطے میں بھی پاکستانی فوج کا کردار بہت بڑھ جاتاہے ۔ سری لنکا میں انسدادِ دہشت گردی سے لے کر یمن میں ایران عرب کشیدگی اور گوادر کے راستے دنیا بھر سے چینی تجارت ، ان تمام معاملات میں پاکستانی فوج ایک بڑے کردار کی حامل ہے ۔ عالمی برادری اس سول قیاد ت کو درخورِ اعتنا نہیں سمجھتی ، جسے اقتدار او رکاروبار سے ایک ساتھ محظوظ ہونا ہے ۔
سول اور ملٹری ، دونوں کے لیے یہ ایک خطرناک صورتِ حال ہے ۔ مقبولیت مداخلت پہ اکساتی ہے ، اپنے دائرہ ء کار سے باہر لے جاتی ہے ۔ سیاسی ناکردہ کاری کا نتیجہ پے درپے مارشل لائوں کی صورت میں اس قوم، اس کی سیاسی قیادت اور خود فوج کو بھگتنا پڑا۔ اس کے خلاف ردّعمل کی فضا پیدا ہوئی ۔ جنرل پرویز مشرف کی جبراً رخصتی کے بعد بمشکل تمام کھوئی ہوئی ساکھ پاک فوج نے واپس حاصل کی۔ بد قسمتی سے ایک بار پھر ہم حالات کے اسی موڑ پر آکھڑے ہوئے ہیں ،جہاں مار شل لا کی چہ مگوئیاں ہیں ۔ دیکھنا یہ ہے کہ اب کی بار فوجی قیادت بردباری اور دانشمندی کا ثبوت دیتی ہے یا ایک بار پھر جلد بازی میں خود کو اس اندھے کنویں میں گرا دیتی ہے ، جسے سول قیادت نے اپنی بے عملی سے کھودڈالا ہے ۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں