"FBC" (space) message & send to 7575

پاک فوج ، کامیابیاں اور محدودات

افغان جنگ کے بدترین تیرہ برسوں میں ، ریاستِ پاکستان اگر اپنا وجود برقرار رکھ پائی ہے تو اس کا بنیادی سبب سخت جان اور متحرک فوج ہے ۔ کارگل آپریشن اور مارشل لا سمیت جنرل پرویز مشرف کی بدترین حماقتوں سے قطع نظر، آج یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ قبائلی علاقے میں فوج تعینات کرنے کا فیصلہ سو فیصد درست تھا۔جنون کے مارے بھارت کی ہمسائیگی میں ، یہ بقا کی جبلّت تھی ، جس کے تحت افواجِ پاکستان کے ادارے نے بتدریج خود کو عالمی معیار کی اعلیٰ تربیت یافتہ سپاہ میں ڈھالا۔سیاست میں مداخلت سے قطعِ نظر اور یہ ایک طویل ،بحث طلب موضوع ہے ، ہماری فوج کی کامیابیاں بے شمار ہیں۔ اس وقت ، جب افغانستان میں امریکی سربراہی میں عالمی طاقتیں ناکام ہو چکیں اور اس وقت جب اپنی ہر ناکامی کا الزام پاکستان پہ دھرنے والی افغان قیادت طالبان کی یلغار تلے کانپ رہی ہے ، پاک فوج کامران ہے ۔ عراق، شام ، لیبیا اور افغانستان کے برعکس، گوریلا جنگ کے مقابل نہ صرف وہ قائم و دائم ہے بلکہ پہلے سے زیادہ توانا۔دہشت گردوں کے علاوہ، اس کا سامنا اپنے سے سات گنا بڑے دفاعی بجٹ رکھنے والے دشمن سے ہے ۔ مشرق سے مغرب تک، سرحد پر کھلی جنگ سے لے کر چھپ کر حملہ کرنے والے دہشت گردوں تک، کہیں بھی اس نے سستی اور کمزوری کا مظاہرہ نہیں کیا۔
سوات ، جنوبی اور شمالی وزیرستان میںفوجی شہادتوں اور دہشت گرد 
ہلاکتوں کا تناسب ایک اور دس کا ہے ۔ 2001ء سے شروع ہونے والی جنگ کے بعد قریب ایک پورا عشرہ قوم کنفیوز رہی۔ اسے امریکی جنگ قرار دیتے ہوئے، حکیم اللہ محسود تک کو شہید کہا گیا۔دوسری طرف افسر ، حتیٰ کہ قریب نا خواندہ سپاہی بھی اتنے سمجھدار ثابت ہوئے کہ کبھی خود کشی یا اپنے ساتھیوں پر فائرنگ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ ایسے واقعات بھارتی ، افغان ، امریکی اور برطانوی افواج میں عام ہیں ۔ جنرل کیانی کے دور سے ایک طے شدہ حکمتِ عملی کے تحت بلوچستان، فاٹا، کراچی، سوات اور وزیرستان میں زیادہ سے زیادہ جوانوں اور افسروں کو حصہ لینے کا موقع دیاگیا۔ پاکستانی فوج آج کس قدر تربیت یافتہ ہے، یہ کوئی بھارت سے پوچھے۔ اس وقت جب ڈیڑھ لاکھ فوج افغان سرحد پرتعینات تھی اور اس وقت جب شمالی وزیرستان میں اہم ترین آپریشن جاری تھا، مشرق میں چھیڑ چھاڑ کا اسے منہ توڑ جواب ملا۔پولیس سے لے کر احتساب تک، جہاں کہیں کوئی چھوٹی بڑی پیش رفت نظر آتی ہے ، کہیں نہ کہیں اس کا سہرا فوجی قیادت ہی کے سر ہے ۔
عین اس وقت جب روس یہ دعویٰ کر رہا تھا کہ شام میں اس کی بمباری کا ہدف داعش ہے ، برطانیہ میں جنرل راحیل شریف دہشت گردی،القاعدہ اور افغانستان میں پر پھیلاتی دولتِ اسلامیہ پر خطاب کر رہے تھے۔ اپنے کنگ سائز میڈیا اور سوا ارب آبادی کی بڑی تجارتی منڈی کے بل پر بھارت خواہ کتنا ہی شور مچا لے، خطے اور عالمی سطح پر پاکستانی فوج کا ایک بڑا کردار ہے ۔اسے کوئی کم نہیں کر سکتا۔ یہ تو ہو گئی وہ ستائش ، فوج اور اس کی قیادت بجا طور پر جس کی حقدار ہے ۔ اس کے باوجود مناسب یہ ہوگا کہ عسکری قیادت ایک بار غور سے اس بات کا جائزہ لے کہ کیا بتدریج اسے کسی دلدل میں اتارنے کی سازش ہو رہی ہے ؟چوراہوں میں آرمی چیف کی تصاویر آویزاں کی جا رہیں اور مسلسل انہیں یہ بتایا جا رہا ہے کہ فقط وہی اس ملک کو مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر یہ مارشل لا نافذ کرنے والے ماضی کے تمام آمروں کا فلسفہ ہے۔ ایک برس قبل آرمی چیف امریکہ روانہ ہوئے تومیرے پڑوسی سجاد اظہر صاحب اس بات پر حیران تھے کہ سوشل میڈیا پراس دورے کی تصاویر کون جاری کر رہا ہے ۔ نت نئی تصاویر منظرِ عام پر آنے کا یہ سلسلہ جاری ہے ۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ کچھ جنرل حضرات کے بیانات میں احتیاط کا دامن ہاتھ سے چھوٹتا ہوا نظر آتاہے ۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ محتاط ڈی جی آئی ایس آئی جنرل رضوان اختر ہیں ، جنہیں کبھی غیر ضروری طور پر اظہارِ خیال کرتے نہیں دیکھا گیا۔ ہیبت خاموشی میں ہوتی ہے ۔ دشمن کو آپ کے طرزِ فکر کی خبر آپ کے عمل سے ہونی چاہیے ، نہ کہ تقاریر سے ۔ جو لوگ آرمی چیف سمیت عسکری قیادت کو روزانہ کی بنیاد پر یہ اطلاع پہنچا نے میں مصروف ہیں کہ وہ لافانی عظمت کا مجسمہ ہیں ، وہ دوست نہیں ، دشمن کا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ 
فوج کا کام ختم نہیں ہوااور کم از کم اگلے دس برس تک وہ کامیابی کا اعلان نہیں کر سکتی ‘ اس لیے کہ باغی بلوچ سرداروں، طالبان ، بھارت اور فرقہ ورانہ تخریب کاروں کی موجودگی میں ملک کے تمام حساس مقامات کی حفاظت ایک کارِ دشوار ہے ۔ دوسری طرف انتہا پسندوں کے لیے ایک آسان ہدف کا تعین اور مہینوں منصوبہ بندی کے بعد اس پر یلغار اور بالخصو ص خود کش دھماکے وہ ہتھیار ہیں ، دنیا بھر میں کہیں بھی جن کا توڑ نکالا نہیں جا سکا۔ اڑھائی ہزا رکلومیٹر کی پاک افغان سرحددہشت گردوں کی معاون ہے ۔ 
فوج ملک کے تمام مسائل حل نہیں کر سکتی ۔وہ فقط اپنے دائرئہ کار میں رہتے ہوئے دبائو بڑھا سکتی ہے ۔ سول اداروں کی نا اہلی، کرپشن اور حکومت کی ناقص ترجیحات کے ماحول میں عسکری قیادت کا اثر و رسوخ بڑھ گیا ہے ۔ ملک کو درپیش ہولناک مسائل کے پیشِ نظر معاملات فوجی قیادت کے ہاتھ میں ہونا ایک ایڈہاک حل ہو سکتاہے ، مستقل ہرگز نہیں ۔ 
حضور پاکؐ نے فرمایا تھا: طاقتور وہ نہیں ، جو مدّمقابل کو پچھاڑ دے بلکہ وہ ہے جو اپنے غصے پر قابو پا لے ۔ غصہ، شہرت کی خواہش سمیت، اپنی جبلّتوں پر قابو پاناہی زندگی کا دشوار ترین کام ہے ۔ جسٹس افتخار محمد چوہدری نے جنرل پرویز مشرف کو شکستِ فاش سے دوچار کیا تھا لیکن شہرت اور غلبے کی خواہشات میں وہ ایک قومی ہیرو سے گھٹتے گھٹتے ایک متنازعہ کردار بن گئے ۔ دوسری طرف ہمارے پاس جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مثال ہے ، سوات اور جنوبی وزیرستان فتح کرنے کے باوجود عسکری قیادت تبدیل ہونے کے بعد ان پر طنز اور طعنوں کے ساتھ یلغار کی گئی ۔ کسی کم ظرف کو جواب دینا بھی انہوں نے مناسب نہیں سمجھا۔ عافیت خاموشی میں ہوتی ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں