خبر اتنی تھی کہ کپتان شادی کر رہا ہے اور خبر یہ ہے کہ اس کی طلاق ہو گئی۔ جو کچھ اب ہو رہا ہے ، وہ چٹخارہ ہے اور سنسنی فروشی ۔اس تماشے میں پاکستانی صحافت کے نامی منجن فروشوں میں بدلتے دکھائی دیتے ہیں۔اندیشہ یہ ہے کہ اس تگ و دو میں وہ خود تماشہ بن جائیں گے۔جو الائو وہ بھڑکا رہے ہیں ، اس کی چنگاریاں ان کے گھروں تک پہنچیں گی ۔ مخلوق پھر اسی طرح محظوظ ہوگی ، جیسے اب آپ ہو رہے ہیں ۔
خبر صحافی کا عشق ہوتی ہے ، اس کی عبادت اور رزق ہوتی ہے ۔ جتنی بڑی خبر، اتنی ناموری ۔ اس کے علاوہ صرف دو چیزوں کا خیال رکھنا ہوتاہے ۔ متعلقہ شخص ، ادارہ یا لیڈر آپ کو پسند ہے یا نہیں ، خبر میں خواہش کی آمیزش نہیں کی جا سکتی ۔کم از کم دو معتبر ذرائع سے تصدیق کی جاتی ہے وگرنہ انجام برا ہوتاہے ۔ زرداری عہد میں ایک صاحب نے بڑے طمطراق سے سرخی جمائی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس کے قتل کی منصوبہ بند ی ہے ۔ بعد ازاں یہ سفید جھوٹ ثابت ہوا ، جس کا ملبہ ایک دوسرے پر پھینکنے کی کوشش کی جاتی رہی ۔پسِ منظر اس کا یہ تھا کہ شریف برادران کے منظورِ نظر ایک سبکدوش افسر کو آئی بی کا سربراہ بنایا گیا تھا ، جو اپنی کارکردگی کا ڈنکا بجانا چاہتا تھا۔ اور کچھ نہ ہو سکا تو اس نے قتل کی جھوٹی منصوبہ بندی تخلیق کی ۔ پہاڑ کھودا گیا تو چوہابرآمد ہوا۔
شادی ہوئی، طلاق ہو گئی ۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جمائمہ گولڈ سمتھ کے برعکس، ریحام خاموشی سے پسِ منظر میں رہنے والی خاتون نہیں ۔ وہ خبروں کی زینت رہیں گی ۔کپتان کے ساتھ خاموش رہنے کی کوئی مفاہمت ہے بھی توآئندہ مہینوں اور برسوں میں وہ بھلا دی جائے گی ۔ عمران خان کے لیے کسی حد تک وہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہیں مگر کس حد تک؟ یہ ایک علی الاعلان شادی تھی ۔ یہ نہیں کہ ایک خاتون نکاح نامہ اٹھائے خفیہ شادی کا بھانڈا پھوڑ رہی ہے اور شوہر صاحب آگے بھاگتے پھر رہے ہیں ۔ یہ شادی تھی، سکینڈل نہیں ۔غلطی عمران خان کی ہو سکتی ہے ۔ ریحام خان غلط ہو سکتی ہیں ۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں ہی قصور وار ہوں یا صرف یہ کہ مزاجاً وہ مختلف ہوں ۔ ان کی ترجیحات ، طرزِ زندگی میں فرق ہو۔ آثار یہ ہیں کہ بعض حضرات اس طلاق میں سے مزید بڑی خبریں نکالنے کے آرزومند ہیں ۔
قبل از وقت کپتان کی شادی اور پھر طلاق کی خبر دینے والے کہنہ مشق صحافی عارف نظامی صاحب کو دل کھول کر داد د ی گئی ۔ وہ مستحق ہیں۔ اپنا لوہا انہوں نے منوا لیا اور خوب ان کا چرچا ہوامگر اتنا کافی نہیں۔ تیور یہ ہیں کہ بڑی خبر ہے ، سال ڈیڑھ سال چلنی چاہیے۔ روزانہ وہ ایک نئی اطلاع بہم پہنچاتے ہیں ۔ فرمایا : ریحام کے بچّے گھر میں ڈانس پارٹیاں کرتے تھے اور کپتان کو یہ گوارا نہ تھا۔ شریکِ پروگرام چوہدری غلام حسین نے اس پر جو الفاظ ارشادفرمائے، وہ نقل کرنے کے قابل نہیں ۔ چوہدری صاحب دانا بینا آدمی ہیں ۔ غالباً حضرت عمرؓ سے منسوب واقعہ انہوں نے پڑھ رکھا ہوگا۔ شراب نوش نے سوال یہ کیا تھا: امیر المومنین، میرا احتساب بعد میں ہوگا، پہلے یہ فرمائیے کہ میری دیوار پھلانگنے کی اجازت آپ کو کس نے دی ؟
ایک صاحب نے ارشاد کیا: ریحام برطانوی خفیہ ایجنسی کی ایجنٹ تھیں ۔ کپتان کو انہوں نے زہر دینے کی کوشش کی۔ سوال یہ ہے کہ برطانوی ایجنٹ ہوتیں تو کیا اس انداز میں وہ اختلافات میں پڑتیں یا ہر قیمت پر عمران خان سے سمجھوتہ کرتیں کہ مستقل طور پر جاسوسی کرتی رہیں ۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتاہے کہ میاں بیوی میں سے ایک دوسرے کو زہر دینا چاہے تو کیا اس سے بچنا ممکن ہے؟ ایک اورکا کہنا ہے کہ ریحام خان نے کپتان سے ان کی دوستی ختم کرائی ۔ ہرکوئی اپنے دل کے پھپھولے پھوڑ رہا ہے ؛حتیٰ کہ بات اب ریحام خان کے دوپٹے تک آپہنچی ہے ۔ ایک صاحب کا کہنا ہے کہ کپتان کی فرمائش پر انہوں نے اوڑھا تھا، ورنہ تو وہ آزاد خیال خاتون ہیں ۔ اللہ اکبر کبیرا۔
ریحام خان اگر روزانہ کی بنیاد پر انٹر ویو دینے یا کتاب لکھنے کا سلسلہ شروع کر یں توعمران خان کے لیے پریشان کن صورتِ حال پیدا ہوسکتی ہے ۔ میری رائے میں ایسا ہی ہوگالیکن جیسا کہ پہلے عرض کیا، یہ کوئی سکینڈل نہیں ۔ سیتا وائٹ سمیت ، نون لیگ اور ایم کیو ایم والوں نے کپتان کے ماضی کا کون سا گوشہ زیرِنقاب چھوڑا ہے اور کیا اس کانتیجہ نکلا؟ کیا قوم نے اسے قابلِ غور سمجھا؟ تحریکِ انصاف ہاری تو سیاسی غلطیوں کی وجہ سے اور ہاری کہاں ؟ ایک صوبہ تو لے مری ۔
مان لیجیے کہ سیاستدان پبلک پراپرٹی ہوتے ہیں ۔ ہم صحافی بھی پبلک پراپرٹی ہیں ۔ بات نکلی ہے تو آئیے اسے دور تلک لے چلیں ۔ سب اپنے داغدار ماضی کو بھول کر پتھر اٹھائے کھڑے ہیں ۔ یہاں اس
کرّۂ خاک پہ کس کا دامن صاف ہے ؟ کون ہے پاکباز؟ حضورؐ نے فرمایا تھا: آدم کی ساری اولاد گناہ گار ہے اور بہترین گناہگار وہ ہیں ، جو جلدی توبہ کرتے ہیں ۔ فیس بک اور سوشل میڈیا کی اس دنیا میں آج کس کا ماضی کھنگھالنا مشکل ہے ؟ کس نے کہاں سے تعلیم حاصل کی ، کہاں نوکری کی اور کس کس سے اس کا واسطہ رہا، اس پر تحقیق قطعاً مشکل نہیں ۔ آج مڑ کر میں اپنے ماضی کو دیکھتا ہوں تو بہت سے لمحات میرا منہ چڑاتے ہیں ۔سنگ زنی کرنے والوں کو اس وقت سے ڈرنا چاہئے ، جب ان کی ذاتی زندگیوں پر تحقیق شروع ہو۔ ہم اخبار نویسوں میں یوں بھی پاکباز کم ہی ہوتے ہیں کہ خریدار بہت ہیں ۔ سوشل میڈیا کا کہنا ہے کہ شادی شدہ حضرات اپنے کمروں کی کھڑکیاں روشن دان بند رکھیں کہ میڈیا پگڑی اچھالنے کو بے تاب ہے ۔
عبرت کا لمحہ ہے کہ حکومت ٹوٹنے کی اطلاع دینے والے آج ڈانس پارٹیوں پر میاں بیوی کے جھگڑے نشر کر رہے ہیں ۔ کاش نندی پور پر ایسی تفصیلات سامنے آتیں اور قائدِ اعظم سولر پارک پر۔ سترہ سال بعد بمشکل تمام شریف خاندان نے اتفاق فائونڈری کا قرض چکایا تو شہباز شریف صاحب قوم سے داد کے طلب گار تھے ۔ انسانی تاریخ میں یہ پہلی بار تھا کہ ایک قوم کا لیڈر قرض چکانے پرداد طلب کر رہا تھا۔اس پر بھی ذراغور فرمائیں ۔