"FBC" (space) message & send to 7575

ڈاکٹر صاحب رحم!

ہزاروں برس کی انسانی تاریخ میں دوسری سائنسز کی طرح طب میں بھی ناقابلِ یقین ترقی ہوئی ہے ۔ پتھر کا دور لاکھوں برس پر پھیلا ہوا زمانہ تھا، جو حضرت عیسیٰ ؑ سے چھ ہزار سال قبل ختم ہوا ۔ اس دور میں اوسط انسانی عمر صرف بیس برس تھی ۔آج عالمی اوسط 67سال ہے ۔ انسانی مادہ میں بچّے کی پیدائش دوسرے تمام جانوروں کی نسبت پیچیدہ اور انتہائی حد تک تکلیف دہ ہے ؛لہٰذا زچگی کے دوران ماں اور بچّے کے مرنے کی شرح بہت زیادہ تھی ۔آدمی کو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ نہ نظر آنے والے جراثیم بھی ہماری ہی طرح کے جاندار ہیں اور ہمارے جسموں میں داخل ہو کر تباہی لا سکتے ہیں ۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ انسانی جسم میں موجود بیماریوں کے خلاف لڑنے والے نظام کو ایک مخصوص بیماری کے خلاف مستعد کیسے کرنا ہے ۔ ہزاروں برس میں انسان یہ سب سیکھتا چلا گیا۔ اس نے ہر بیماری کے جراثیم کو پہچانا ۔ آدمؑ سے وراثت میں ملنے والی صلاحیت کی بنا پر ، اس نے ہر جرثومے کو ایک نام دیا ۔ اسے ہلاک کرنے کے لیے مختلف جراثیم کش ادویات (Antibiotics) بنائیں ۔ سینکڑوں سال میں ان جراثیموں نے ان ادویات کے خلاف اپنے اندر مزاحمت پیدا کی اور اپنی اولاد میں اسے منتقل کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جراثیم کش ادویات کی افادیت تیس فیصد تک گر چکی ہے ۔ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق دنیا اب ما بعد اینٹی بایوٹکس دور کے دہانے پر کھڑی ہے ۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے ۔ 
حکومتی بے حسی کاعالم یہ ہے کہ سینکڑوں ارب روپے کی لاگت سے بڑے شہروں میں سریے سیمنٹ کے دیو ہیکل مینار تعمیر ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔ تعلیم اور قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی کی طرح ، سرکاری ہسپتال بھی اندھیر نگری چوپٹ راج کی کہانی سناتے ہیں ۔ ڈیڑھ برس قبل ایمر جنسی میں فیصل آباد کے الائیڈ ہسپتال جانا پڑا تو ہر خون آلود بستر پر دو سے تین مریض جانکنی میں تڑپ رہے تھے ۔مریضوں کا ہجوم تھا اور ڈاکٹر بے بسی کا شکار۔ نظر انداز کیے جانے والے مریضوں کے اہلِ خانہ ہنگامہ آرائی میں مصروف تھے ۔
ہم میں سے ہر ایک کو ، ہمارے اہلِ خانہ کو کسی نہ کسی وقت تکلیف سے گزرنا ، معالج کے پاس جانا ہوتاہے ۔ درست انتخاب بہت ضروری ہے ۔ اب ڈاکٹروں کی ایک نئی کھیپ میدان میں آئی ہے ۔ معائینے کا وقت معلوم کرنے کے لیے فون کیجیے تو بتایا جاتا ہے پہلی بار پانچ ہزار، دوسری بار تین ہزار ۔ معائنہ کے بعد باہر نکلیے تو ایک شخص کان میں سرگوشی کرتاہے : وہ سامنے سے دوا خرید لیجیے ، بالکل خالص ہے ۔ ایسے میں گھن سی آنے لگتی ہے ۔ 
جسم کے مختلف نظام باہم متصل ہیں ۔ یہ ایک دوسرے کو متاثر کرتے ہیں۔صحت مند رہنے کے لیے ضروری ہے کہ انسان خود پر نظر رکھے ۔ ڈیڑھ دو برس تک میرا معدہ بری طرح بگڑا رہا۔ اس دوران کیمرے سے معدے کے معائنے (Endoscopy) سمیت تمام ٹیسٹ بھی ہوئے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ چونکہ گلے میں ٹانسلز خراب ہیں ۔ ان میں جراثیم (بیکٹیریا) اور خوراک کے گلے سڑے ذرّات جمع ہیں ؛لہٰذا نیچے جا کر وہ معدے کو تکلیف دیتے ہیں ۔ڈاکٹر نے ٹانسلز کا آپریشن تجویز کیا اور ساٹھ ہزار روپے فیس بتائی ۔ خوش قسمتی سے میں ایک ہسپتال میں ڈاکٹر اشرف بخاری کے پاس چلا گیا۔ بخاری صاحب نے یہ کہا : لالچ بری بلا ہے ۔ تم آپریشن کے لیے راضی ہو اور مجھے میری فیس مل جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ٹانسلز میں جراثیم ناک سے جا رہے ہیں ۔ ناک کی ہڈی میں ایک بڑا سوراخ ہے ۔ اس میں خون رستا رہتاہے ۔ جراثیم یہاں پرورش پاتے اور پھر گلے میں جاکر ٹانسلز کو خراب کرتے ہیں ۔ یوں ناک سے شروع ہونے والا مسئلہ گلے اور پھر معدے کو بگاڑ رہا تھا۔
ڈاکٹر اشرف بخاری بے چین تھے کہ میں انہیں ناک کا آپریشن کرنے دوں ۔ان کا کہنا یہ تھا کہ میں ہسپتال کو آپریشن تھیٹر استعمال کرنے کے دس بارہ ہزار روپے ادا کر دوں اور ان کی فیس رہنے دوں ۔ میں نے اصرار کیا تو کہنے لگے کہ آپریشن کامیاب رہا تو میری فیس بھی دے دینا۔ حیرتوں کی حیرت، اس سے قبل ہرڈاکٹر کا کہنا یہی تھا کہ ہڈی میں اتنے بڑے سوراخ کو بند کرنا ممکن نہیں ۔بخاری صاحب کا کہنا تھا کہ وہ پلاسٹک کے ٹکڑوں سے اسے بند کریں گے ۔ انہوں نے یہ کر دکھایا اور یا للعجب چند ہفتوں میں ٹانسلز خود بخود ٹھیک ہونے لگے ۔ ڈاکٹر اشرف بخاری ان معالجوں میں سے ہیں ، بندہ آنکھ بند کر کے خود کو جن کے حوالے کر سکتا ہے ۔ وہ اپنے شعبے ، یعنی ناک کان گلے تک محدود نہیں رہتے۔ مریض کے دوسرے مسائل یکجا کر کے ایک بڑی تصویر دیکھتے ہیں ۔ یہ بتاتے ہیں کہ اس کا رنگ قدرے زرد ہے اور اسے کچھ عرصہ آئرن لینا چاہیے ۔ 
بڑے ڈاکٹر جو ستارہ ء امتیاز جیسے تمغے حاصل کرتے ہیں ، ان کے پاس مریضوں کا ہجوم حد سے بڑھ جاتاہے ۔ پھر وہ معدے کے ڈاکٹر مظفر لطیف گل کی طرح برق رفتاری سے فیصلے کرتے اور مریضوں کو تیزی سے نمٹاتے ہیں ۔ دوسری مثال ایشیا میں ریڑھ کی ہڈی کے سب سے بڑے ڈاکٹر بریگیڈئیر اسد قریشی کی ہے ۔ وہ بہت تفصیل سے معائنہ کرتے ہیں۔مریض کو لاحق دیگر بیماریاں بھی اپنے پاس درج کرتے ہیں ۔ ان کے مریضوں کو طویل انتظار کرنا ہوتا ہے لیکن ڈاکٹر صاحب نے ہر ایک کو مکمل توجہ دیناہوتی ہے ۔جہاں تک ڈاکٹر مبشر حسین ملک کا تعلق ہے ، وہ دنیا سے بے نیاز ہیں ۔ میں اپنے ملازم واجد علی کو ان کے پاس لے گیا تھا، جسے تیس بر س سے مرگی کے دورے پڑتے تھے ۔ وہ دن او رآج کا دن ، دوبارہ کبھی اسے دورہ نہیں پڑا۔واجد کو دیکھتے ہی انہوں نے کہا : بچپن میں سر میں چوٹ لگی تھی ؟ اس نے کہا: جی ہاں ...
میں اس وقت ہسپتال ہی میں تھا، جب ایک اذیت ناک اشتہار کے بارے میں سنا۔ ڈاکٹر مریض سے کہتا ہے کہ اس کے دل کی دو شریانیں بند ہیں ۔ مریض کہتا ہے کہ وہ آپریشن کی سکت نہیں رکھتا۔ اس پر ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں کہ پھر آپ ''اسلامی نسخہ ء قلب ‘‘آزمائیں ۔ ان کے بقول شریانیں کھولنے کے ساتھ ساتھ وہ شوگر، بڑھا ہوا وزن ، جوڑوں کا درد، بلڈ پریشر، السر، تیزابیت، سبھی کچھ ٹھیک کر دے گا۔ حیرتوں کی حیرت ، یہ کاروبار کہیں اور نہیں ، اسلام آ باد کے قلب بلیو ایریا میں جاری و ساری ہے ۔ دور دراز کے دیہات میں کیا ہوتاہے ، یہ ہم سب جانتے ہیں ۔ کسی بھی مہذب ملک میں ایسی تشہیری مہم ہوتی تو یقینی طور پر ذمہ دار سلاخوں کے پیچھے ہوتے ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں