ٹائم مشین،سائنس فکشن کے گنے چنے موضوعات میں سے اہم ترین ۔کمتر دھاتوں کو سونے میں بدلنے ہی کی طرح، وقت میں آگے اور پیچھے سفر کرنے والی ایک مشین سائنس ہی نہیں، ناول اور فلم میں بھی ابتدا سے موجود رہی ہے ۔ لکھنے پڑھنے والے ہمیشہ سے اس پر غور کرتے رہے ہیں ۔ مستقبل اور ماضی میں انسانی دلچسپی کا سبب کیا ہے ؟ دراصل انسانی عقل بے پناہ تجسس کی حامل ہے ۔ انجان چیزہمیشہ اس تجسس کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔نئی اور پوشیدہ چیزوں میں انسانی تجسس کے لیے اسی کشش کے باعث ہمارے آبائو اجداد ایسی خطرناک مہم جوئیوں میں مصروف رہے ، جس کا انجام ان میں سے کئی ایک کی موت تھا۔ وہ کرّہ ء ارض کے سب سے بالا ، برف سے ڈھکے مہیب پہاڑوں پہ چڑھے۔ خطرناک پانیوں میں سفر کیا ۔ اور تو اور ،یہی تجسس اور اجنبی چیزوں سے یہی لگائواسے چاند پہ لے گیا۔ حادثات سے وہ ڈرا بھی تو وقتی طور پر ۔ یہی تجسس اسے تسخیرِ کائنات پہ اکساتا ہے ؛اگرچہ اس کے بس کی یہ بات نہیں ۔
جی ہاں ، تسخیرِ کائنات انسان کے بس کی بات نہیں ۔ انسان کا جسم کمزور ہے ، وسائل کم، مہلت محدود۔ اپنا سارا وقت وہ تحقیق، پیداواری مقاصد پہ صرف نہیں کر سکتا۔ اس کی سرشت میں قتل و غارت ہے ۔ انسانی وسائل، اس کی توانائی کا ایک بڑاحصہ باہم قتل و غارت، جنگی ایجادات پہ صرف ہوتا ہے ۔ انسانی جسم کمزور ہے ، اس کی محدودات ہیں ۔ یہ وہ مادہ ہے ، جو توانائی میں بدل نہیں سکتا۔ خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر نہیں کر سکتا۔اس کی عمر کم ہے ۔ ساٹھ ستر برس میں وہ تھک جاتاہے ، بیمار پڑنے لگتاہے ۔اس زمین کے وسائل کم ہیں ۔جدید انسان کی پچاس ہزار سالہ تاریخ ہی نہیں ،زندگی ابتدا ہی سے وسائل پہ قبضے کی جنگ لڑتی رہی ہے ۔ جنگلوں میں درندے شکار پہ لڑتے ہیں ۔ شہروں میں ہم قیمتی اشیا پر۔ ان تمام محدودات کی موجودگی میں ، انسان ادھر اُدھر ، دوسری زمینوں اور دوسرے سورجوں کی طرف جھانک ہی سکتاہے ۔ انہیں فتح کرنا اس کے بس کی بات نہیں ۔
ٹائم مشین ! آنے والے انجان زمانوں ، تاریخ کے سینے میں دفن پر اسرارکہانیوں کی دنیا ۔ بھلا کون ہوگا، جو پہلے حیران پریشان انسان کو اس کرّہ ء خاک پہ اترتا دیکھنے کی آرزو نہ کرے گا؟ بھلا کون ہوگا ، جومستقبل میں جھانکنا نہ چاہے گا؟ مستقبل پر جب بھی بات ہوتی ہے ، سب سے زیادہ دلچسپ چیزان زمانوں کی ممکنہ ٹیکنالوجی لگتی ہے ۔ پہلے آدم سے آج تک ، ممتاز انسانی صلاحیت یہ ہے کہ ہر چیز کو وہ ایک نام دیتاہے ۔ راز کی جوبات اسے معلوم ہوتی ہے ، اسے وہ سائنسز میں شامل کر دیتاہے ۔ اس کی بنیاد پر نت نئی ایجادات کرتاہے ۔ یہ ٹیکنالوجی ہی کا اعجاز ہے کہ قارون کی دولت اب ایک بینک اکائونٹ اور وہ اکائونٹ اب ایک اے ٹی ایم کارڈ میں سما سکتاہے ۔ یہ ٹیکنالوجی ہے کہ ایک متوسط گھر میں پڑا ہوا صوفہ کسریٰ کے تخت سے زیادہ آرام دہ ہے ۔ قیصرِ روم کے غلام اسے شتر مرغ کے پروں سے ہوا جھلتے تھے لیکن اب ہر گھر میں موجود اے سی ، حتیٰ کہ پنکھا اس سے بڑھ کر ہے ۔ ایک عام کار ہلاکو کے گھوڑوں پر حاوی ہے ۔ فریج کا پانی ہرقل کی صراحی سے زیادہ ٹھنڈا ہے ۔ خلیفہ منصور اگر جدید باتھ ٹب اور گیزر دیکھ پاتا تو شاید خود کشی کر لیتا۔ خون آلود ، ٹی بی زدہ کھانسی میں مبتلا ظہیر الدین بابر شاید اپنی زندگی کے بدلے آج ہمارے ہسپتالوں میں خاکروب کی نوکری پسند کرتا۔ یہ ٹیکنالوجی ہی کا اعجاز ہے کہ آج کا انسان بادشاہوں جیسی راحت میں زندگی بسر کرتاہے ۔ جی ہاں ، ہم سب مستقبل کی ٹیکنالوجی دیکھنا چاہتے ہیں مگر یہ ہمارے بس کی بات نہیں ۔
وقت ہے کیا؟2008ء میں حجاز کا سفر یاد آتاہے ۔ روزہ کھلنے میں ایک گھنٹا باقی تھا، جب جہاز نے اڑان بھری اور یا للعجب ، یہ ایک گھنٹا تین گھنٹوں میں بدل گیا ۔ اس لیے کہ سعودی عرب کا وقت ہم سے دو گھنٹے پیچھے ہے ۔اندازہ اس سے لگائیے کہ جہاز کی رفتار سے سفر کرتے ہوئے، ہماری اس زمین میں وقت یوں آگے پیچھے ہوتاہے تو زمین سے مریخ تک کتنا فرق آتا ہوگا؟ ہمارے سورج سے ساتھ والے ستارے تک کتنا؟ ہماری کہکشاں سے ہمسایہ کہکشائوں میں وقت کتنا بدل جاتا ہوگا؟ کائنات کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک؟ ہماری کائناتِ بالا سے نیچے والی کائنات تک ؟ اوپر بادشاہ تو وہی خالق ہے ، نیچے مخلوقات پہ وقت بدلتا چلا جاتا ہے ۔
وقت کیا بلا ہے ؟ آدمی نے اپنی سہولت کے لیے گھڑی کا پیمانہ ایجاد کیا۔ دن اور رات کو چوبیس گھنٹوں میں بانٹ لیا۔ اب سورج میں تو رات نہیں ہوتی ۔ وہاں تو ہمیشہ دن رہتاہے ۔ سورج کے حساب سے اگر وقت کو تقسیم کرنا ہو تو یوں کریں گے کہ وہ کتنے ارب سال جل چکا اور ابھی اسے کتنا عرصہ مزید جلنا ہے ۔ اپنی سہولت کے لیے ہم نے مشرق، مغرب ، شمال اور جنوب کی تقسیم کی ۔ خدا کہتاہے : رب المشرقین و رب المغربین۔ دو مشرقوں اور دو مغربوں کا رب ۔ ہم قد کاٹھ میں اتنے چھوٹے اور اپنی زمین سے اس قدر چپکے ہوئے ہیں کہ ہمیں درست طور پر یہ بھی نہیں معلوم کہ ایک محدود سی خلا میں چکراتی اس زمین کے اوپر کی سمت کون سی ہے اور نیچے والی کون سی ۔
کیا خدا وقت کا پہیہ الٹا چلا سکتاہے ؟ کیا وہ ہمیں اگلے زمانوں میں لے جا سکتاہے ؟کبھی اس پر لکھنے کی میں کوشش کروں گا۔ بے چارا ، مجبور انسان۔ دوسری زمینوں اور دوسرے سورجوں کو وہ دیکھ سکتاہے ،چھو نہیں سکتا۔ وسائل کی کمیابی میں باہم قتل و غارت میں مصروف انسان ۔ ماضی کریدتا ، مستقبل کے اندازے لگاتا انسان ۔ وقت میں آگے اور پیچھے سفر کرنے کی وہ حسرت کر سکتاہے ، ماضی اور مستقبل کو چھو نہیں سکتا۔ ہاں البتہ ایک دنیا ہمارے اندر بھی بستی ہے۔ انسانی دماغ چھوا جا سکتاہے ۔ اس پر تحقیق آگے بڑھ رہی ہے۔ اسی میں خواہشات چھپی ہیں ۔نفس اسی میں جیتا ہے ۔ اسی میں نیکی پوشیدہ ہے ۔ دنیا بدل دینے والی انسانی ذہانت اسی میں چھپی ہے ۔ یہی ماضی ہے ، یہی مستقبل۔ کائنات اسی کے لیے بنی ہے ۔ کائنات اسی میں پوشیدہ ہے ۔ اپنے اندر کی دنیا میں اترنے کی کوشش کیجیے ۔