"FBC" (space) message & send to 7575

قمر زمان چوہدری صاحب فیصلہ کریں!

وزیرِ اعظم کا الزام یہ تھا کہ نیب شرفا کی پگڑیاں اچھال رہا ہے۔ وفاقی وزیرِ اطلاعات پرویز رشید نے یہ انکشاف کیا کہ نیب کے ناخن بڑھ چکے اور اب انہیں کترنا ضروری ہے۔ ماضی قریب میں پیپلز پارٹی کی طرف سے بار بار یہ الزام عائد کیا گیا کہ فوجی دبائو کے تحت وفاقی ادارے صرف ایک صوبے، سندھ میں متحرک ہیں۔ تب سابق صدر زرداری کا کہنا یہ تھا کہ جنرل راحیل شریف کو تین سال بعد چلے جانا ہے۔ اب انہوں نے یہ انکشاف کیا کہ جنرل صاحب تو ناگزیر ہیں۔ سپہ سالار کو یہ پوچھنا چاہیے: ع
کب کھلا تجھ پہ یہ راز؟
نیز یہ کہ سابق صدر کا کون سا بیان درست مانا جائے؟ 
ایک کے بعد پاکستانی سیاست میں دوسری برق رفتار تبدیلی جنم لے رہی ہے۔ چند ماہ پہلے تک پارٹی کی مرکزی قیادت میں ایک دھڑا سنجیدگی سے اس بات پر غور کرتا رہا کہ بلاول بھٹو کی قیادت میں زرداری صاحب سے علیحدگی اختیار کر لی جائے۔ یوں تیزی سے زوال پذیر سیاسی جماعت میں ایک نئی روح پھونکنے کا آغاز ہوتا۔ یہ کوشش ناکام رہی۔ زرداری صاحب اپنے جیتے جی پیپلز پارٹی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنا چاہتے ہیں اور جلد از جلد۔ بلاول بھٹو پر کرپشن کا کوئی سنگین الزام ابھی تک عائد نہیں مگر قیادت کے لیے درکار لوازمات ناپید ہیں۔ بھٹو صاحب کی پھانسی کے بعد محترمہ بے نظیر نے خاندانی اختلافات میں جس طرح سے اپنا آپ منوایا اور پارٹی قیادت سنبھالی، بلاول میں وہ گن نظر نہیں آتے۔ 
2011ء کے بعد اپنے اندرونی مسائل کے باوجود تحریکِ انصاف نے ٹو پارٹی سسٹم میں پیپلز پارٹی کی جگہ بڑی حد تک سنبھالی اور یوں صدر زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی اپنی طبعی موت کی جانب بڑھتی چلی گئی۔ زرداری صاحب نے اب فوج کو نون لیگ کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننے کی پیشکش کی ہے۔ 
اپنی تمام تر خرابیوں سے قطع نظر، پاکستانی قوم میں اب بلوغت کے آثار ہیں۔ میڈیا آزاد ہے، عدالت فعال۔ بدلے ہوئے حالات میں مارشل لا لگ نہیں سکتا اور لگے تو چل نہیں سکتا۔ فوج ایک بڑی سیاسی جماعت کو وعدہ معاف گواہ بنا کر پسِ پردہ حکومت کرنے کی کوشش کرے گی تو اسی طرح بے توقیر ہو گی، جیسی مشرف دور میں ہوئی تھی۔
پاکستانی ریاست تیز تر تبدیلیوں کے ایک عبوری دور سے گزر رہی ہے۔ نون لیگ کی مرکزی اور تحریکِ انصاف کی صوبائی حکومتوں، رینجرز اور عسکری قیادت، نیب اور میڈیا سمیت، عوام کے روبرو سبھی حالات کی بھٹی سے گزارے جا رہے ہیں ۔ الیکشن کمیشن کو جوہری تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ ایسی ہی جوہری تبدیلیوں کے بغیر پیپلز پارٹی اب بچ نہیں سکتی۔ سیاسی جماعتیں اور سول حکومت اخلاقی ابتری کا شکار ہیں۔ اس کا سب سے بڑا مظہر یہ ہے کہ ڈیفنس، سیمنٹ اور عسکری بینک سمیت، فوج کے زیرِ انتظام سارے ادارے منافع بخش ہیں۔ پاکستان سٹیل ملز، پی آئی اے اور ریلوے سمیت سول قیادت کے زیرِ انتظام ادارے بدترین خسارے کا شکار۔ دوسری طرف یہی سیاسی قیادت اپنی ذاتی سٹیل اور شوگر ملوں، مرغی اور دودھ کے کاروبار میں حیرت انگیز طور پر کامیاب ہے۔ عسکری اداروں کا منافع جنرلوں کی جیب میں نہیں جاتا بلکہ یہ فوجی اخراجات پورے کرنے کے کام آتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی قیادت پولیس کی بجائے فوج کر رہی ہے۔ ملٹری ہسپتال سی ایم ایچ کا سرکاری ہسپتالوں سے کوئی موازنہ ہی ممکن نہیں؛ حالانکہ وہاں فوجی جوانوں اور افسروں کا علاج مفت ہوتا ہے۔ پھر بھی پرائیویٹ ہسپتالوں سے کہیں سستا علاج سول مریضوں کو دستیاب ہے۔ بڑے سے بڑے سپیشلسٹ کی فیس 600 سے ایک ہزار روپے کے درمیان ہے۔ پرائیویٹ شعبے میں بڑے ماہرین تین سے پانچ ہزار روپے تک فیس وصول کر رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتال میں علاج اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک ایک تگڑی سفارش یا ذاتی تعلقات آپ کے معاون نہ ہوں۔ 
پاکستانی سیاست اس وقت مزاحیہ ترین صورت اختیار کر جاتی ہے، جب نون لیگ اور پیپلز پارٹی کی وہ قیادت مل کر چیئرمین نیب کا انتخاب کرتی ہے، جس پر خود کرپشن کے بڑے الزامات عائد ہیں۔ ملزم کو یہ اختیار دیا جا رہا ہے کہ اپنے خلاف تفتیشی افسر وہ خود منتخب کرے۔ اس سے قبل پیپلز پارٹی اور لیگی قیادت نے فخرالدین جی ابراہیم کی صورت میں جو بزرگوار منتخب کیے، ان کا حال سب کے سامنے ہے۔ قمر زمان چوہدری متحرک مزاج ضرور ہیں‘ لیکن ہمیشہ انہیں مرنجاں مرنج افسر سمجھا گیا۔ لیگی حکومت کی طرف سے نیب مخالف بیانات کے بعد ان کے پاس ایک سنہری موقع ہے۔ بالکل اسی طرح، جیسے پرویز مشرف کو انکار کرنے والے افتخار محمد چوہدری کو ملک گیر حمایت حاصل ہوئی تھی۔ چیئرمین نیب کا ایک فیصلہ صورتِ حال بدل سکتا ہے۔ سارے شریف شہزادے اندرون اور بیرونِ ملک کاروبار میں مصروف ہیں۔ حکومتی کارکردگی صفر ہے اور اس کی ساری امیدیں پاک چین اقتصادی راہداری سے وابستہ ہیں۔ زرِمبادلہ کے ذخائر قرض لے کر بڑھائے گئے اور اس میں آٹھ فیصد کا مہنگا ترین قرض شامل ہے۔ تین برسوں میں عام آدمی کی زندگی میں ایسی کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی، جس کی بنیاد پر حکومت کو عوامی تائید میسر آئے۔ 
قمر زمان چوہدری صاحب کو دو طرفہ دبائو کا سامنا ہے۔ پیپلز پارٹی کی طرف سے بار بار یہ الزام عائد کیے جانے کے بعد کہ نیب فوج کے اشارے پر سندھ میں متحرک ہے، فوجی قیادت نے پنجاب میں کارروائیاں کرنے کے لیے اس پر دبائو ڈالا ہے۔ دوسری طرف پرویز رشید سمیت حکومتی وزرا کا کہنا یہ ہے کہ نیب کے بڑھے ہوئے ناخن کتر دیے جائیں گے۔ چیئرمین نیب فیصلہ کریں کہ انہیں رفیق تارڑ اور عبدالحمید ڈوگر جیسی ہستیوں کی فہرست میں شامل ہونا ہے یا وہ ڈاکٹر شعیب سڈل کہلانا پسند کریں گے؟ اگر وہ باعزت طور پر یاد کیے جانے کی آرزو رکھتے ہیں تو انہیں صرف ایک پریس کانفرس میں یہ اعلان کرنا ہے کہ وہ حکومتی دبائو مسترد کرتے ہیں اور نیب اپنے آئینی دائرہ کار میں کارروائی جارے رکھے گا۔ اس کے بعد عسکری قیادت کو بھی وہ یہ پیغام دے سکتے ہیں کہ اپنے آئینی منصب کی ذمہ داریاں پوری کرنے کے لیے انہیں کسی قسم کی ہدایات درکار نہیں۔ قمر زمان چوہدری صاحب کو آئین کے تحت حاصل اپنے اختیارات کو استعمال کرنا ہے لیکن باعزت طور پر زندہ رہنے کا فیصلہ کوئی آسان کام نہیں۔ زمینی خدائوں کو انکار اور ربِ ذوالجلال کے حضور جھکنا پڑتا ہے۔
نہ شاخِ گل ہی اونچی ہے نہ دیوارِ چمن بلبل
تیری ہمت کی کوتاہی تیری قسمت کی پستی ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں