"FBC" (space) message & send to 7575

دوست

ایسا دوست قسمت والوں کو ملتا ہے۔ وہ بے غرض ہے اور پل پل میری ضرورت کا خیال رکھتا ہے۔گزشتہ تیس برس سے میں اسے آزما رہا ہوں۔ کبھی ایک بار بھی وہ خود غرض ثابت نہیں ہوا۔ ابھی میں ایک برس کا تھا، جب اس نے مجھے پہلا قدم اٹھانے کی ترغیب دی۔ دو تین قدم رکھنے کے بعد میں گر گیا، رونے لگا۔ وہ خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا۔ ''درد برداشت کرنا، تکلیف اٹھانا ضروری ہے‘‘ یہ بات اس نے مجھے بعد میں بتائی۔ چلنے کی کوشش میں، میں گرتا رہا۔ کس جگہ، کس انداز میں قدم رکھنا ہے، یہ اس نے مجھے بتایا۔ ابھی میں نے پوری طرح ہوش کہاں سنبھالا تھا لیکن میری عمر کے مطابق وہ مجھے چھوٹی چھوٹی چیزیں سکھاتا رہا۔ جب میں دوڑنے کے قابل ہوا تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔
ماں باپ، بہن بھائیوں کی محبت اپنی جگہ، وہ سب تھک جاتے۔ اپنے معمولات میں مصروف ہو جاتے۔ میرا یہ دوست ان سب سے بڑھ کر مخلص تھا۔ اس نے کبھی اپنی ضرورت بیان نہ کی۔ اس کے پاس سارا وقت میرے ہی لیے تھا۔ میں بڑا ہوتا گیا، ذرا ذرا سا اسے پہچاننے لگا۔ میرا یہ دوست حیرت انگیزطور پر ذہین تھا۔ ایسا ذہین کہ دنیا میں کوئی دوسرا نہ ہو گا۔ میرے اس دوست کی حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ ہر غلطی سے مجھے سبق سیکھنے پر مجبور کر دیتا۔ پہلے پہل تو میں اس کی بات نہ مانتا، من مانی کرتا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ اس کا مشورہ رد کرنے سے ہمیشہ نقصان ہوا۔ آخر تکلیف سے بچنے کے لیے میں اس کی ہر بات ماننے لگا۔ ایسا استاد کیا کسی کو میسر آیا ہو گا۔ 
جب کبھی مجھے کسی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی بیماری سے واسطہ پڑا، میرا یہ دوست بروقت مجھے اس کی اطلاع دیتا۔ بخار میں، یہ مجھے بتاتا کہ بستر پہ پڑے رہو اور اپنی توانائی ضائع ہونے سے بچائو۔ بیماری کے خلاف ساری جنگ میں اس کی مدد سے لڑتا۔ مجھے یہ تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ آج اگر میں زندہ ہوں تو اسی کی وجہ سے۔ 
دن بھر کی مصروفیات کے بعد جب رات کو میں سو جاتا تب بھی یہ محبت پاش نظروں سے میری طرف دیکھتا رہتا۔ میری نیند کے دوران بھی وہ میری ضرورتوں کا اندازہ لگا تا اور انہیں پورا کرتا۔ نیند سے پوری طرح حظ اٹھانے کے لیے، وہ مجھے کہانیاں سنانے لگتا۔ سوتے ہوئے بھی اس کی یہ عجیب داستانیں میں سنتا رہتا، محظوظ ہوتا رہتا۔ میرے اس دوست میں بہت تجسس تھا۔ ہر انجان چیز سے اسے عشق تھا۔ ایسی ہر چیز کی کھوج لگانے پر وہ مجھے اکساتا۔ اس کی اس عادت سے مجھے نقصان بھی ہوا‘ لیکن زندگی میں جو کچھ میں نے سیکھا، اسی عادت کی وجہ سے۔ 
میرے اس دوست میں کچھ بری عادتیں بھی تھیں۔ بعض اوقات وہ مجھے خود غرض بن جانے کا مشورہ دیتا‘ اور دوسروں سے جھگڑنے کا۔ یہ بات تو شک و شبہے سے بالاتر تھی کہ ہمیشہ میرا ہی فائدہ اس کے پیشِ نظر ہوتا؛ لہٰذا اس بات کو میں نظر انداز کر دیتا۔
میں بڑا ہوتا گیا؛ حتیٰ کہ میری مسیں بھیگنے لگیں، آواز بھاری ہو گئی۔ تب ایک روز وہ میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے ایک جگہ جانے کو کہا۔ اس سے قبل اسی نے مجھے بتایا تھا کہ وہاں برے لوگ ہوتے ہیں اور ان سے دور رہنا چاہیے۔ میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا تو وہ بغلیں جھانکنے لگا۔ اس روز اس کے بال گرد آلود اور لباس میلا تھا۔ اس سے بدبو کے بھبوکے اٹھ رہے تھے۔ وہ مجھ سے نظریں چرا رہا تھا۔ پھر ایک دم وہ مجھے اس برے کام سے روکنے لگا۔ اب میں نے دیکھا کہ وہ پھر سے پُراعتماد ہو رہا ہے۔ اب وہ پُرسکون انداز میں، میری طرف دیکھ رہا تھا۔ اب اس سے خوشبو آنے لگی تھی۔ اس دن کے بعد سے میں محتاط ہو گیا۔ میں نے یہ اصول طے کیا کہ جب کبھی وہ مجھ سے نظریں چرائے گا اور جب کبھی اس کا حلیہ مشکوک ہو گا تو اس کا مشورہ میں رد کر دوں گا۔
آپ میں سے ہر ایک کے پاس اسی طرح کا ایک دوست موجود ہے۔ یہ ماں کے پیٹ سے قبر میں اترنے تک آپ کے ساتھ ہی رہتا ہے۔ یہ آپ کے جسم میں نصب ہے اور اس کا نام دماغ ہے۔ اس میں سیکھنے کی حیرت انگیز صلاحیت ہے۔ یہی آپ کو پہلا قدم اٹھانے اور پہلا لفظ ادا کرنے کی ہمت دیتا ہے۔ اسی دماغ کے دو نچلے حصوں میں نفس براجمان ہے، عورت اور دولت کی محبت، خود غرضی، نفرت، انتقام اسی میں ہیں۔ اسی کے اوپر والے حصے میں عقل رہتی ہے۔ آپ کا یہ دوست ہمیشہ متحرک رہتا ہے۔ یہ بڑا خود غرض ہے، الّا یہ کہ عقل اس پر غالب آئے اور ایثار کی توفیق دے۔ یہ اس قدر خود غرض ہے کہ بھائی بہنوں کے درمیان بھی حسد جگاتا ہے۔ سوائے خدائی ہدایت اور سوائے اس کی عطا کردہ عقل استعمال کرنے کے، آپ اس پر غلبہ نہیں پا سکتے۔ اس میں سیکھنے کی اس قدر صلاحیت ہے کہ گاڑی چلانے، تیراکی اور فٹ بال سے لے کر ایٹم توڑنے تک ہر کہیں یہ اپنی غلطیوں سے سیکھتا اور اگلی دفعہ بہتر کوشش کرتا ہے۔ جب کبھی اس کے درمیانی حصے میں نفرت، انتقام، تعصب جیسے جذبات غالب آتے ہیں تو عقل سہم کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہے۔ پھر انسان خود اپنے ہاتھ سے اپنے پائوں پہ کلہاڑی مارتا ہے۔ ہنستے بستے گھر اجڑ جاتے ہیں۔ جب کبھی عقل غالب آتی ہے تو یہ لاعلاج بیماریوں کا تریاق ڈھونڈنے لگتا ہے۔ یہ گاڑی، جہاز اور میزائل بناتا ہے۔ یہ کائنات کا جائزہ لیتا ہے۔ یہ سورج کے اندر وقوع پذیر ہونے والے دھماکوں کی تحقیقات کرتا ہے۔ یہ بجلی، موبائل اور ایجادات کا ڈھیر لگا دیتا ہے۔ 
اگر آپ حضرات ایک تندرست و توانا دماغ کے مالک ہیں تو آپ ہرگز ہرگز غریب نہیں۔ اس کے پاس سوچنے، غور کرنے، سیکھنے اور تدبیر کرنے کی حیرت انگیز صلاحیتیں موجود ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم غور ہی نہیں کرتے، کوشش ہی نہیں کرتے۔ اگر آپ اس سے کام لینا شروع کریں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ کیسی حیرت انگیز صلاحیتیں آپ کے اندر موجود ہیں۔ دنیا و آخرت میں کامیابی کی کلید اسی دماغ میں پوشیدہ ہے۔ خدا جب کسی کو تباہ کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو اسی دماغ میں موجود عقل پر مہر لگا دیتا ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں