"FBC" (space) message & send to 7575

جہادی اور فسادی

شام میں وحشت و درندگی ، گلیوں میں پھول سے بچّوں کی لاشیں اپنی نوعیت کا کوئی پہلا سانحہ نہیں ۔جب سے اس نیلے سیارے پر زندگی وجود میں آئی ہے ، قتل و غارت کا یہ کھیل جاری ہے ۔ چنگیز ، ہلاکو، تیمور لنگ، بڑے سپہ سالار جب شہر فتح کرتے تو گلیوں میں خون بہتا ۔ کھوپڑیوں کے مینار بنائے جاتے ۔ یہ صرف انسانوں ہی میں نہیں ۔ جنگل میں شیروں کا ٹولہ جب ایک ہرن یا بیل کو اپنے دانتوں سے ادھیڑ ڈالتاہے تو یہ بھی زندگی کی ایک قسم کا زندگی کی دوسری قسم پر تشدد ہے ۔ ایک نر شیر اور چیتا، اپنے علاقے میں سرحدوں پر مخصوص نشانات لگاتاہے ۔ اس کی حدود میں قدم رکھنے والے کسی دوسرے شیر اور چیتے کو اس کے ساتھ زندگی اور موت کی جنگ لڑنا ہوتی ہے ۔ 
آج جب دائیں بازو کے انتہا پسند سوشل میڈیا پر اسامہ بن لادن کا یومِ ''شہادت‘‘ منا رہے ہیں ، چند نکات ان کی پیشِ خدمت ہیں ۔سرکارِ دو عالمؐ نے جہاد کی جو شرائط بیان فرمائی تھیں، ان میں دشمن کی عورتوں ، بچّوں ، بوڑھوں اور بے گناہ نہتے افراد کو قتل کرنے کی ہرگز کسی قیمت پر اجازت نہیں تھی ۔ نائن الیون سمیت، القاعدہ نے جو کچھ کیا، ان میں بے گناہ افراد بڑی تعداد میں قتل ہوئے ۔ اور تو اور، کم عمر نوجوانوں کو خود کش حملہ آور بنا کر دنیا بھر میں فساد کا سہرا القاعدہ ہی کے سر ہے ۔اسامہ بن لادن نے جو کچھ کیا، اس کا نقصان مسلمانوں کو ہوا۔ مغرب میں آباد مسلمان آج جن مشکلات کا شکار ہیں ، القاعدہ کا اس میں ایک بڑا کردار ہے ۔ اسامہ بن لادن دہشت گردوں کا سربراہ تھا، اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں ۔ رہی یہ بات کہ امریکہ اور مغرب دنیا بھر میں انتہا پسندی کا باعث ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے نمٹنے کا طریقہ وہ ہرگز نہیں ، جو القاعدہ نے اختیار کیا۔
سچ تو یہ ہے کہ گزری ایک دہائی میں بہت سے ''جہادی ‘‘ فسادی ثابت ہوئے ۔ جو لوگ جہادِ کشمیر میں ملوث تھے، بعد میں ان میں سے بہت سے گروہ پنجابی طالبان میں شامل ہوئے اور پاکستانی ریاست کو انہوں نے بے پناہ نقصان پہنچایا۔ افغان طالبان ، ہمارے انتہا پسند دانشور ، جن پہ عقیدت کے پھول نچھاور کرتے نہیں تھکتے، ان میں سے بہت سے داعش میں شامل ہوئے۔اب ایک دوسرے کی گردنیں کاٹنے میں وہ مشغول ہیں ۔ ملا عمر کی ہلاکت کے بعد جانشینی کی جنگ میں فریقین نے ایک دوسرے پر بندوق اٹھانے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی۔ ولی الرحمٰن محسود کی ہلاکت کے بعدپاکستان طالبان کے دھڑوں خان سید سجنا اور شہریار محسود گروہ نے ایک دوسرے کو بڑے پیمانے پر جانی نقصان پہنچایا۔ خدا یہ کہتاہے : اور اگر اللہ بعض لوگوں کے ذریعے بعض کو دفع (ہلاک ) نہ کردے تو زمین ضرور تباہ ہو جاتی لیکن اللہ سارے جہان پر فضل کرنے والا ہے ۔ البقرۃ 251۔ 
کل بھوشن کی گرفتاری کے بعد جب اُس سے ایرانی پاسپورٹ برآمد ہوا اور جب چاہ بہار میں ''را‘‘ کی سرگرمیوں پہ بات کی گئی تو ایران نے پاکستانی میڈیا میں اپنے خلاف رپورٹوں پر ناراضی کا اظہار کیا۔ایران میں انٹیلی جنس کا نظام ایسا سخت ہے کہ جوہری پروگرام پر سخت تنازعے کے باوجود امریکہ اور مغرب وہاں ایک بھی حکومت مخالف مظاہرہ نہ کروا سکے ۔ ایران کو وہ مسائل ہر گز درپیش نہیں ، ہمیں جن سے واسطہ ہے ۔ ہماری آدھی فوج تو ہمیشہ بھارتی سرحد پہ متوجہ رہتی ہے ۔ افغان سرحد کے معاملات سب کے سامنے ہیں ۔ ایسی سیاسی تنظیمیں پائی جاتی ہیں ، جو بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے روابط رکھتی ہیں ۔ آج عزیر بلوچ کے انکشافات کے بعد ایک بار پھر وہی سوالات جنم لے رہے ہیں ۔ 
یمن کی جنگ کبھی وقوع پذیر نہ ہوتی ، ایران اگر شورش پسندوں کی حوصلہ افزائی سے سعودی نواز حکومت گرا نہ دیتا۔ عراق اور افغانستان میں ایران نے عملاً امریکہ کی مدد کی ۔ پورے خطے میں اس نے پائوں پھیلا رکھے ہیں ۔ شام میں جو قتلِ عام جاری ہے ، اس میں ایران کا اور ایرانی نواز حزب اللہ کا بھرپور کردار ہے ۔ اسی طرح عربوں کا اتحاد بھی اپنے حامی جنگجوئوں کی پیٹھ ٹھونک رہا ہے ۔ دونوں اطراف مسئلے کا حصہ ہیں ، حل کا ہرگز نہیں ۔ حزب اللہ ، جو کبھی اسرائیل کے خلا ف مزاحمت کی علامت تھی، اب وہ ایرانی اور شامی حکومت کی پشت پناہی سے مخالف جنگجوئوں سے لڑ رہی ہے جو خود کو مسلمان کہلواتے ہیں۔ دونوں طرف کی گولہ باری میں اگر بے گناہ معصوم عورتیں ،بوڑھے اور پھول سے بچّے شہید ہوتے ہیں تو عرب اور ایرانی جنگجوئوں کی صحت پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا۔ ایک بات البتہ واضح ہے ، ایران پاکستانی میڈیا پر نظر رکھے ہوئے ہے ۔ یہ بات اس لیے بھی واضح ہے کہ جیسے ہی ایران پر تنقید کیجیے ، ای میلز کی بارش ہو جاتی ہے ؛حالانکہ آبادی میں ان کا تناسب بہت ہی کم ہے ۔ 
ایک سوال یہ ہے : شام میں قتل و غارت دیکھیے تو شبہ ہونے لگتاہے ۔ کیا اس دنیا کا کوئی خدا ہے بھی یا نہیں ۔ کم علمی کی وجہ سے ایسے سوالات جنم لیتے ہیں ۔ آپ تاریخ دیکھیے تو ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے آسمان سے آنے والے ایک دم دار ستارے نے کرّہ ء ارض کی 70فیصد مخلوقات کو ختم کر دیا تھا۔ تبھی ڈائنا سار ختم ہوئے اورہمارے جیسے چھوٹے جاندار نشو ونما پاسکے۔ 24کروڑ سال پہلے جو زمین پرہلاکت خیز دور گزرا تھا، اس میں اس وقت کی 96فیصد مخلوقات ہمیشہ کے لیے ختم ہو گئی تھیں ۔ زندگی ہمیشہ تکلیف سے گزرتی رہتی ہے ۔ پھر سوال یہ ہے کہ زیادہ تکلیف دہ موت کون سی ہے ؟ 70سال کا بوڑھا جب 30برس بستر پہ گزار کے 100سال کی عمر میں فوت ہوتاہے یا وہ جو دورانِ جنگ چند لمحات میں ؟ اوروہ جو طاعون ، ہیضے، ٹی بی اور پولیو کی وبائیں جو شہروں کے شہر، آبادیوں کی آبادیاں اجاڑ دیا کرتیں ؟ دو عظیم جنگوں میں دس کروڑ انسان قتل ہو گئے ۔ 
زندگی کو آباد کرنا،اس کی ضروریات پوری کرنا اورموت نازل کرنا، یہ خدا کے کام ہیں ۔ میرے ذمّے بس اتنا ہے ، جس کی میں استطاعت رکھتا ہوں ۔ اگر کوئی طریقِ کار سے مجھے آگاہ کر سکے تو میں دو یتیم شامی بچّوں کو گود لینا چاہتا ہوں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں