مختلف موضوعات پر، آج کے انسان کو جن سے واسطہ ہے، جنید کا اظہارِ خیال مبہوت کر دیتا ہے۔ فیس بک سطحیت کی دنیا ہے۔ یہاں بالعموم جذبات کے کاروبار سے مدّاحوں کی تعداد بڑھائی جاتی ہے۔ دنیا میں جو بھی شخص آ پ کو متاثر کرتا ہے، یا تو وہ آپ کو جذباتی سطح پر متاثر کرتا ہے یا عقلی طور پر۔ جذبات دماغ کے درمیان میں ہوتے ہیں، عقل اوپر والے حصے میں۔ جنیدکی بات انسانی عقل اور تجسس کو اپنی طرف کھینچتی ہے۔ عقل انسان کو جانوروں سے ممتاز کرتی ہے۔ اگر یہ عقل خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہو تو پھر وہ ایک عام انسان کو آدم بنا تی ہے۔
جنید لکھتا ہے: ''ہم (انسان ) ہومو سیپین ہیں اور ہومو سیپین کا مطلب ہے عقل مند انسان۔ Self Awareness انسان کو دوسری جاندار انواع سے جدا کرتی ہے۔ سائیکالوجی میں Self Awareness سے مراد ایک جاندار کی وہ خصوصیت ہے جس میں وہ اپنی ہی سوچنے کی صلاحیت سے آگاہ ہوتا ہے۔۔۔۔‘‘ ۔ کبھی نہ کبھی ہم میں سے ہر ایک اس بات پہ غور کرتا ہے کہ انسان سوچتا کیوں ہے اور جانور کیوں نہیں سوچتے؟ ہم دوست اور دشمن کی سوچ پڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جانور یہ سب نہیں کر سکتے۔ وہ کھانے کی چیز اور دشمن کو دیکھ کر مختلف طرح سے اپنا ردّ عمل دے سکتا ہے۔ اپنے ردّعمل کا تجزیہ نہیں کر سکتا۔ وہ کسی چیز کی تہہ میں اترنے کے لیے تجربات کر سکتا ہے اور نہ منصوبہ بندی۔ یہ Reasoning اور Planning انسانی دماغ کے اوپر والے حصے میں ہوتی ہے۔ جانوروں میں یہ اوپر والا حصہ انسان کی نسبت بہت کمتر ہے۔ فرض کیجیے کہ شیر، ہاتھی اور اونٹ میں بھی یہ انسان ہی کی طرح پیچیدہ ہوتا تو ہم اس آسانی سے ان کا استحصال نہ کر سکتے۔پھر یہ عین ممکن تھا کہ وہ انسان کو چڑیا گھر میں قید کر دیتے۔
کرّۂ ارض کا بڑھتا ہوا درجۂ حرارت سائنسدانوں کی پریشانی کا باعث ہے۔ جنید لکھتا ہے: اگر کرّۂ ارض کی ساری برف پگھل جائے تو سمندر کی سطح 216 فٹ اونچی ہو جائے گی۔ 2013ء میں جاری کردہ نیشنل جیو گرافک کے اعداد و شمار کے مطابق اس صورت میں مختلف بر اعظموں کا جغرافیہ بدل کر رہ جائے گا۔ بہت سے بڑے شہر ڈوب جائیں گے ۔ عالمی آب ہوا میں رونما ہونے والی بہت سی خرابیاں اب سدھاری نہیں جا سکتیں ۔ ہر سال سمندروں کی سطح بلند ہونے کی شرح بڑھتی جا رہی ہے۔ اندیشہ یہ ہے کہ اس صدی کے اختتام تک سمندر تین فٹ تک اونچا ہو جائے گا۔ کچھ دہائیوں میں ساحلی شہروں جیسا کہ نیو اورلینز، نیویارک، ایمسٹر ڈیم، کولکتہ ، بنکاک اور ٹوکیو میں اس مسئلے کا بہر حال انسان کو سامنا کرنا پڑے گا۔ نیشنل جیو گرافک کے مطابق 1880ء سے لے کر
اب تک سمندر کی سطح 8 انچ بلند ہوئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق آج سمندر میں اضافے کی شرح پچھلے تین ہزار سال میں بلند ترین ہے۔ سطح ِ سمندر میں ایک انچ اضافے کا مطلب ہے کہ 50 سے 100 انچ تک زمین سمندر میں شامل ہو جائے گی ۔ اندازہ یہ ہے کہ 21کروڑ سے زیادہ انسان آج جس جگہ آباد ہیں، آٹھ دہائیوں بعد وہ سمندر کا حصہ ہوگی ۔
2014ء میں دنیا بھر سے دس ہزار سائنسدان امریکہ میں اکٹھے ہوئے تھے ۔ ان کا متفقہ اعلامیہ یہ تھا کہ مغربی انٹارکٹکا میں اب اتنی دراڑیں پڑ چکی ہیں کہ کوئی انسانی کوشش اب اس کا انہدام روک نہیں سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ برف کے اس عظیم الشان مجموعے کا زمین بوس ہو جانا، پانی میں بدل جانا ہے۔ سوال اب یہ نہیں کہ ایسا ہوگا یا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کب ہوگا؟ اندازہ ہے کہ اگلی دو سے دس صدیوں کے درمیان کسی بھی وقت۔ اس کے ساتھ ہی سمندرکی سطح 12سے 16فٹ تک بلند ہو جائے گی۔
یہاں جنید دو آیتوں کا ترجمہ لکھتا ہے: کیا وہ دیکھتے نہیں کہ بتدریج ہم زمین کو ا س کی سرحدوں سے گھٹاتے چلے جارہے ہیں ۔ تو کیا وہ اس پر قابو پالیں گے؟ سورۃ الانبیا 44:۔ کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے جا رہے ہیں اور خدا حکم کرتاہے، کوئی اسے رد کرنے والا نہیںاور وہ جلد حساب لینے والا ہے ۔ سورۃ الرعد: 40۔
خدا کو بغیر کسی دلیل کے ماننا چاہیے، یہ آپ سب نے اپنے بچپن میں سنا ہوگا۔ قرآن مجید اس کے بالکل برعکس کہتا ہے۔ جلد ہی ہم انہیں آفاق میں اور خود ان کے اپنے اندر اپنی نشانیاں دکھا دیں گے؛ حتیٰ کہ ان پر حق بالکل واضح ہو جائے گا، فصلت 53۔ خدا بار بار اپنی نشانیوں کا ذکر کرتا ہے۔ اس نے آپ کو عقل دی ہی اس لیے کہ آپ دنیا میں اور اپنے اندر اس کی نشانیاں دیکھیں اور اس پر ایمان لائیں ۔ آج کے دورمیں آپ ایک سورج کی پیدائش دیکھ سکتے ہیں اور اپنے جسم میں ایک خلیے کی بھی۔ آپ دماغی خلیات کے باہمی کنکشن دیکھ سکتے ہیں اور ایک کہکشاں میں چمکتے ستارے بھی ۔ ان سب میں خدا کی نشانیاں ہیں ۔
فیس بک پہ جنید ایک حدیث بیان کرتاہے: دین حجاز کی طرف اس طرح سمٹ جائے گا، جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف سمٹتا ہے۔ اور دین حجاز میں اس طرح پناہ گزین ہوگا، جس طرح جنگلی بکری پہاڑ کی چوٹی پہ پناہ لیتی ہے۔ نیز دین کی ابتدا اجنبیت سے ہوئی اور وہ اجنبیت ہی کی طرف لوٹے گا۔ پس اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے، جو اس چیزکو صحیح کرتے ہیں، جسے لوگوں نے میری سنت میں سے میرے بعد بگاڑ دیا۔ جامع ترمذی، جلد دوم، 538۔ ایک حدیث اور جو آج کے میڈیا پہ 100 فیصد منطبق ہوتی ہے : عبد اللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ علم کو اس طرح نہیں اٹھا لے گا کہ اس کو بندوں سے چھین لے بلکہ وہ علما کو موت دے کر علم کو اٹھائے گا۔ حتیٰ کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جاہلوں کو امام بنا لیں گے۔ ان جاہلوں سے سوال کیے جائیں گے اور وہ بغیر علم کے جواب دیں گے۔ اس لیے خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۔ کتاب العلم صحیح بخاری۔
فیس بک پہ جنید کا پتہ یہ ہے facebook.com/J0NAID?pnref=story۔ سیکھنے والوں کے لیے یہاں بہت کچھ ہے ۔