"FBC" (space) message & send to 7575

محمود اچکزئی، مولانا شیرانی کے بیانات اور ’’ب خان‘‘

موت سے قبل بوڑھے سردار نے دونوں بیٹوں، الف خان اور ب خان کو بلایا۔ اس نے یہ کہا: میرے بچو، تمہیں معلوم ہے کہ ہمیں شدید خطرات لاحق ہیں۔ ہماری زمینوں کی مشرقی طرف غاصب خان رہتا ہے۔ ہماری کچھ زمینوں پر پہلے ہی وہ قبضہ کر چکا ہے۔ اب میری موت کے بعد اسی طرح تم متحد رہنا۔ تم ذمہ داریاں بانٹ لینا۔ 
باپ کو دفنا چکے تو الف خاں نے ب خان سے یہ کہا: تم خوب طاقتور ہو، بندوق چلانا جانتے ہو۔ آج سے زمینوں کی سرحدوں کی رکھوالی تمہارے ذمے۔ جہاں تک رہے مالی امور اور قبیلے کی دیکھ بھال کا تعلق ہے، وہ سب میرے ذمے۔ تمہیں گولہ بارود مل جائے گا، تمہارے بیوی بچوں کو اخراجات ملتے رہیں گے۔ ب خان نے اس کی یہ بات مان لی مگر یہ کہا: گولہ بارود کے پیسے مجھے پہنچاتے رہنا۔ زمینوں کے داخلی معاملات خوب سنبھال لینا۔ بستی والوں کے باہمی جھگڑوں کو خود نمٹانا۔ کسی بدقماش کو بستی میں نہ رہنے دینا۔ مشرق کی طرف رہنے والا غاصب خان بہت بدمعاش ہے۔ وہ بہت بڑا جاگیردار ہے۔ اس سے تب ہی نمٹا جا سکتا ہے جب میری پوری توجہ اس کی طرف ہو۔ اگر بستی کے داخلی معاملات ٹھیک طرح سے نہ چل سکے تو میرا دھیان بٹ جائے گا اور دشمن فائدہ اٹھا لے گا۔ الف خان نے کہا کہ وہ فکر نہ کرے اور جوان اکٹھے کرکے سرحد پر کھڑا رہے۔ 
مہینہ شروع ہوا تو الف خاں نے ب خان کو بلایا، اسے سات لاکھ روپے دیے اور کہا کہ اس سے وہ گولہ بارود، جوانوں کی تنخواہیں اور دیگر دفاعی اخراجات پورے کرے۔ ب خان حیرت زدہ رہ گیا۔ اس نے کہا: میرے بھائی تم اچھی طرح جانتے ہو کہ غاصب خان کے پاس 45 لاکھ روپے ہیں۔ میں سات لاکھ روپے سے اس کا مقابلہ کیسے کروں؟ اس کے پاس اچھی بندوقیں ہیں، بہت زیادہ جنگجو ہیں۔ الف خاں نے کہا: غاصب خان بہت بڑا جاگیردار ہے۔ ہمارا قبیلہ چھوٹا ہے، زمینیں کم ہیں، آمدن تھوڑی ہے۔ تم بڑے جرّی جوان ہو میرے بھائی۔ اگر تم ہمت ہار گئے تو غاصب خان ہمیں مار ڈالے گا۔ ب خاں جانتا تھا کہ الف خان ٹھیک کہہ رہا ہے۔ اس نے کہا کہ وہ 7 لاکھ روپے ہی میں غاصب خان کا مقابلہ کر کے دکھائے گا اور اس نے یہ کر دکھایا۔ 
ایک روز ب خان گھر آیا تو اس نے دیکھا کہ الف خان ایک عالیشان عمارت تعمیر کر رہا ہے۔ ب خان نے کہا: میرے بھائی، میرے پاس دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے پیسے پورے نہیں اور تم یہاں محل تعمیر کر رہے ہو۔ الف خاں نے کہا: ب خان اگر محنت کرکے، کچھ دماغ لڑا کے خرید و فروخت کرتا اور کچھ کما لیتا ہوں تو اس میں تمہارا کیا نقصان ہے۔ ب خان نے کہا: میرے بھائی باپ نے قبیلہ ہم دونوں کے سپرد کیا تھا۔ تمہارے ہاتھ میں مالی اور داخلی امور تھے۔ میرے ہاتھ میں غاصب خان اور دوسرے بیرونی خطروں کا سامنا کرنا۔ اگر تم اپنی جائیداد میں اضافہ کرنے میں لگ جائو گے تو بستی والوں کی فکر کون کرے گا۔ دونوں میں توتکار ہوتی رہی۔ یہ سلسلہ برسوں جاری رہا۔ ایک دن ب خاں کا صبر جواب دے گیا۔ وہ اپنے جوانوں کے ساتھ آیا، الف خان کو قید کر دیا اور بستی کے سارے مالی اور انتظامی معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے۔ اوّل اوّل بستی میں خوشی کی لہر دوڑی۔ کچھ عرصے بعد معلوم ہوا کہ ب خان لڑنے بھڑنے میں تو خوب ماہر تھا لیکن سادہ لوح ہے۔ انتظامی معاملات چلانا اس کے بس کی بات نہیں۔ اس دوران الف خان کسی نہ کسی طرح قید سے نکلا، اپنے حمایتی اکٹھے کیے اور دوبارہ سے بستی کے انتظامات اپنے ہاتھ میں لیے۔ ب خان پھر سرحد پہ جا کر کھڑا ہو گیا۔ یہ عمل تین بار دہرایا گیا۔ ہر بار اس کا یہی انجام نکلا۔ آخر ب خاں نے سوچا کہ میں سرحد کی حفاظت کرتا رہتا ہوں۔ اندرونی معاملات اگر خراب ہوتے ہیں تو بستی والے جانیں اور الف خان جانے۔ 
ایک روز سیلاب آیا، بستی پانی میں ڈوب گئی۔ ب خاں نے آدھے جوان سرحد پر متعین کیے اور باقی آدھوں کے ساتھ بستی والوں کو سیلاب سے نمٹنے میں مدد دینے لگا۔ پھر ہر سال سیلاب آنے لگا۔ ہر سال الف خان یہی ذمہ داری سر انجام دیتا۔ ہر زلزلے میں اسے یہی خدمات سرانجام دینا پڑتیں۔ دوسری طرف الف خان، جس کے ہاتھ میں معاشی معاملات تھے اور جسے ان مسائل سے نمٹنے کی تیاری کرنا چاہیے تھی، اپنے کاروبار میں لگا رہتا۔
ایک روز تو قیامت ہی آ گئی۔ ب خان کو معلوم ہوا کہ الف خان نے غاصب خان کے قریبی بندے سجن خان سے کاروباری تعلقات استوار کر رکھے ہیں۔ جب ب خاں نے استفسار کیا تو الف خاں نے لاپروائی سے یہ کہا: تم بھی کیسے ہونق ہو ب خان ، ساری دنیا میں کاروباری لوگوں کے آپس میں تعلقات ہوا ہی کرتے ہیں۔ انہی دنوں بستی میں اندرونی جھگڑے رہنے لگے۔ بار بار ب خان کو داخلی مسائل حل کرنے کے لیے بلایا جانے لگا۔ پھر یہ معلوم ہوا کہ غاصب خان کے کچھ جاسوس بستی میں گھس آئے ہیں۔ وہ بارود نصب کرتے اور لوگوں کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ جہاں موقع ملتا ہے، بستی والوں کو گولیوں سے بھون ڈالتے اور پھر چھپ جاتے ہیں۔ ہمیشہ کی طرح الف خاں نے ب خان سے مدد مانگی۔ ب خان نے اس پر یہ کہا: معاہدے کے مطابق داخلی امن تمہاری ذمہ داری تھی۔ اس کام کے لیے تم نے بندے (پولیس) بھرتی کر رکھے ہیں لیکن بہرحال اس کام میں بھی میں تمہارا ہاتھ بٹا دیتا ہوں۔ آہستہ آہستہ داخلی امن کی ذمہ داری بھی ب خان کے سپرد ہو گئی۔ 
ایک روز ایک بڑا دھماکہ ہوا۔ بہت سے بستی والے شہید ہوئے۔ اس روز الف خان کے قریبی لوگ چوراہوں میں یہ اعلان کرنے لگے کہ ب خان اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے۔ ب خان سر پیٹتا آیا۔ اس نے کہا: ظالمو! 7 لاکھ روپے میں، مَیں 45 لاکھ روپے والے غاصب خان سے تمہاری حفاظت کر رہا ہوں۔ اندرونی امن کی ذمہ داری تو مجھے اضافی طور پر دی گئی تھی۔ بنیادی طور پر تو یہ الف خان کا کام تھا۔ پھر میں اس بم دھماکے کا ذمہ دار کیسے ہو گیا۔ 
بظاہر یہ کہانی یہاں ختم ہو گئی لیکن کون جانتا ہے کہ آگے کیا ہونے والا ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی روز ب خان کا صبر ایک بار پھر جواب دے جائے؟ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں