قصہ مختصر یہ کہ نور دین اپنے عشق میں ناکام ہوا۔ اس نے خاک چاٹی ۔ سات گائوں پار سے بارات آئی اوراس کی محبت بیاہ لے گئی۔ یہ عشق دو عشروں پہ محیط تھا ۔یہ اس کا بچپن اور اس کی جوانی نگل گیا۔ نوردین بستر پہ تھا اورا س کے ہمجولی، گائوں کے واحد طبیب خیر بخش کا کہنا تھا کہ وہ بسترِ مرگ پر ہے ۔ خیر بخش چاہتا تھا کہ نور دین جیتا رہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ نور دین کے بچنے کی واحد صورت یہ ہے کہ ایک بار پھر اسے عشق ہو جائے ۔اس کا کہنا یہ تھا کہ محبت کی کونپل ایک بار پھر اس کے دل میں پھوٹ پڑی تو اس آرزو کو جنم دے گی ، جس میں آدم زاد کو زندگی پیاری ہو جاتی ہے ۔ انہی دنوں خیر بخش نے یہ ترکیب سوچی۔نور دین سے اس نے کہا کہ وہ انسانوں کی بجائے خدائے واحد سے عشق کرے ۔ نور دین نے لاکھ کہا کہ خطائوں کا یہ پتلااس قابل کہا ں، خیر بخش نہ ٹلا۔ اس نے کہا کہ ابتدا میں سبھی خطا کے پتلے ہوتے ہیں ۔ اس نے یہ بھی کہا کہ یہ وہ محبت ہے ،جس میں ناکامی نہیں ۔ نور دین سوچتا رہا۔ کبھی وہ اپنے آپ کو دیکھتا، کبھی اپنے بوسیدہ در و دیوار کو۔ بستی میں خیر بخش سے زیادہ پڑھا لکھا کوئی نہیں تھااور اس کا کہنا یہ تھا کہ وہ خداسے محبت کا اہل ہے ۔ ادھر خیر بخش کے ذہن میں صرف یہ تھا کہ وہ ایک انسانی جان بچانے کی کوشش کر رہا ہے اور ایک انسان کی جان بچانا
پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے ۔
اگلی صبح خیر بخش آیاتو حیرا ن رہ گیا۔ نور دین کی جون ہی بدلی ہوئی تھی ۔ اس کی آنکھوں میں زندہ رہنے کی آرزو تھی ۔ خیر بخش نے غور سے دیکھا۔ شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں تھی ۔ نور دین کو عشق ہو چکا تھا۔
نور دین کو عشق راس آگیا ۔ وہ بھلا چنگا ہو گیا۔ وہ خوش رہنے لگا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک تھا لیکن پھر ایک دن وہ خیر بخش کے پاس آیا اور اس نے کہا کہ وہ خدا کو تحفہ دینا چاہتا ہے۔ خیر بخش چکرا کے رہ گیا۔ اس نے پرانی کتابیں کھولیں ۔ اس نے پڑھا کہ پرانے زمانوں میں قربانی کو قبولیت یوں بخشی جاتی کہ آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا دیتی لیکن وہ سلسلہ تو اب موقوف ہو چکا تھا۔وہ یہ چاہتا تھا کہ نور دین جیتا رہے ۔ اس نے ایک ترکیب سوچی ۔ اس نے کہا کہ وہ کچھ بھنا ہواعمدہ گوشت لائے اور اسے خدا کے حضور پیش کردے۔اس نے بتایا کہ خدا ان ضرورتوں سے بے نیاز ہے لیکن پچھلے زمانوں میں سندِ قبولیت کے طور پر آسمان سے آگ وہ بھیجتا رہا ہے ۔ خیر بخش کے گھر میں ایک کمرا فالتو پڑا تھا۔ اسے سجایا گیا۔ نور دین گوشت لایا کرتا۔ آگ تو خیر کہاں سے آتی کہ وہ سلسلہ خدا کی طرف سے کب کا موقوف ہو چکا تھا۔ خیر بخش بعد میں وہ بھوکوں کو کھلا دیا کرتا۔
یہ سلسلہ 29برس تک چلتا رہا۔ نور دین کو یہ محبت راس آگئی تھی۔ وہ خدا کا نام لے کر اٹھتا، اس کا نام لے کر بیٹھا کرتا۔ یہ محبت اس کی متاعِ حیات تھی ۔ اس کے چہرے پر ایک نور سابہنے لگا۔ لوگوں کا کہنا یہ تھا کہ نور دین کی دعائیں قبول ہوتی ہیں ۔ دور دراز سے لوگ اس سے ملنے آتے ۔پیشے کے لحاظ سے وہ کمہار تھا۔ مٹی کے برتن بناتا رہتا۔ کسی سے کچھ نہ کہتا۔ ہفتے کے اختتام پر کچھ گوشت خریدتا۔ بڑے چائو سے اسے ہلکی آگ پر بھونتا اور رات گئے خیر بخش کے گھر اسے بطور تحفہ رکھ آتا۔
یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا لیکن ہوا یہ کہ ایک شب خیر بخش خاموشی سے مر گیا۔ نوردین پر جیسے بجلی گر گئی ۔ اس کا محرمِ راز مر گیا تھا ۔ اس پر مستزاد یہ کہ جب وہ خیر بخش کے بیٹے سے ملا تو وہ یہ سلسلہ جاری رکھنے پر راضی نہ ہو سکا۔ صاف صاف اس نے کہا کہ خیر بخش نے صرف اسے امید دلانے کی خاطر یہ بندوبست کیا تھا اور یہ مزید جاری نہیں رہ سکتا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ بوسیدہ دیواریں گرا کر وہ نئے سرے سے گھر کو تعمیر کرنا چاہتا ہے ۔
نوردین سر پیٹتا رہ گیا۔ وہ ایک ایک کے پاس گیا اور اسے اپنی بپتا سنائی ۔ جس راز کو اس نے اپنے سینے میں چھپا کر رکھا تھا، وہ بات اب عام ہو گئی ۔ گائوں کے بڑے حیران تھے کہ اس عجیب تنازعے میں وہ کیا کر دار اداکریں ۔ نور دین نیک نام تھا لیکن خیر بخش کے بعد اب گھر اس کے بیٹے کی ملکیت تھا۔ کھانا خدا کی طرف سے قبول کیا جا رہا ہے ، اس پر کسی کو بھی یقین نہیں تھا۔ جہاں تک خیر بخش کے بیٹے کا تعلق تھا،اس نے ان گنت دفعہ خیر بخش کو کھانا لے جا کر بھوکوں میں تقسیم کرتے دیکھا تھا؛حتیٰ کہ کھانا کھانے والے بھی اس بات کی گواہی دیتے تھے ۔ ادھر نور دین کا کہنا یہ تھا کہ اس کا تحفہ خالص خدا کے لیے ہوتا تھا اور وہی اسے قبول کیا کرتا۔ اس نے کہا کہ وہ سب کے سامنے یہ تحفہ خدا کو پیش کرے گا اور اگر وہ اسے قبول نہ کرے تو بھرے مجمعے میں اس کی گردن اتار دی جائے ۔ خیر بخش کا بیٹا بھی اس بات پر راضی ہوگیا۔ بڑے بوڑھوں نے نور دین کو بہت سمجھایا لیکن وہ تو جیسے آپے سے باہر تھا۔ اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ اس نے کہا کہ 29برس اس نے خدا سے محبت کی ہے اور خدا نے اس کی محبت کو شرفِ قبولیت بخشا ہے ۔ اگر ایسا نہ ہو تو اس کی گردن اتار دی جائے ۔ جو لوگ خیر بخش او رنور دین کو جانتے تھے ، انہیں معلوم تھا کہ خدا ہی کی محبت نے نوردین کو نئی زندگی عطا کی تھی مگر انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ اسے زندگی کی طرف واپس لانے کی ایک کوشش ہی توتھی۔
بھنا ہو اگوشت نور دین نے مقررہ جگہ پہ رکھ دیااور باوضو باہر جا بیٹھا۔ بڑے بوڑھے بطور گواہ بیٹھے۔ رات گزرتی رہی ؛حتیٰ کہ سپیدئہ سحر طلوع ہونے لگا۔ پھر ہو ایہ کہ جب گواہوں کی موجودگی میں دروازہ کھلا تو گوشت کا نام و نشان تک نہ تھااور برتن کالے ہو چکے تھے ، جیسے تیز آگ نے انہیں جھلسا دیا ہو۔
نوردین خوشی سے پھول کر کپّا ہو گیا ۔خدا نے اس کی لاج رکھ لی تھی ۔