"FBC" (space) message & send to 7575

عطائیوں سے علاج مت کرائیے

آپ کاجسم آپ کی دولت ہے ۔ دوستوں سے ہمیشہ میں یہ کہتا ہوں : اگر آپ کا دل جسم کو خون مہیا کر رہا ہے ۔ گردے خون کی صفائی کر رہے ہیں ۔ معدہ خوراک ہضم کر رہا ہے ۔اگر آ پ کی آنتیں فاضل مادوں کو باہر نکال پھینکتی ہیں ۔ اگر آ پ دو ٹانگوں پر توازن کے ساتھ سیدھے کھڑے ہو سکتے ہیں ۔اگر آپ اپنے سامنے کا منظر دیکھ سکتے ہیں اور اگر آ پ کے دماغ میں سیکھنے کی صلاحیت موجود ہے تو آپ اور سب کچھ ہو سکتے ہیں، بد نصیب اور مفلس نہیں ۔ مفلس وہ شخص ہے ، جو خود کو مفلس سمجھتا ہے ۔ جو خود کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے ۔ ہر انسان کی زندگی آزمائشوں (Tests)اور مواقع (Opportunities)کا ایک منفرد (Unique)مجموعہ ہوتی ہے ۔اکثر بچے اپنے والد کا پیشہ اختیار کرتے ہیں کہ انہیں گھر ہی میں ایک استاد میسر ہوتا ہے ۔ ہر شخص ایک مختلف ماحول میں پیدا ہوتا اور پروان چڑھتا ہے ۔ زندگی میں جو تکالیف آپ کے سامنے آتی ہیں ، یہ وہ آزمائشیں ہیں، جو خدا نے آپ کے لیے لکھی ہیں ۔ یہ بد ل سکتی ہیں ، موت سے قبل ختم نہیں ہو سکتیں ۔ 
چھوٹے چھوٹے مسائل پہ انسان روتا رہتاہے ۔ اکثریت گریہ زاری پہ یقین رکھتی ہے ، بجائے عقل سے راستہ بنانے اور جدوجہد سے اسے طے کر نے کے ۔ صحت سے متعلق کوئی بڑا مسئلہ درپیش ہو تو ہوش ٹھکانے لگ جاتے ہیں ۔ انسان پر یہ انکشاف ہوتاہے کہ جس صحت ، جس آنکھ، کان ، زبان ، دل ، جگر ، گردے، ٹانگ، بازو اور دماغ کی کارکردگی سے دن رات وہ مفت میں مستفید ہو رہا تھا، وہ کس قدر قیمتی نعمتیں تھی، جو کہ اس سے چھن گئیں۔ ریڑ ھ کی ہڈی کے ایک مہرے کا کھسک جاناآ پ کو بستر پہ لٹا سکتا ، ہمیشہ کی اذیت میں مبتلا کر سکتاہے ۔ ان اعضا کو ہم روز استعمال کرتے ہیں ، شکر ادا نہیں کرتے ۔میں دو ایسے لوگوں کو جانتا ہوں ، جنہوں نے جگر یا گردہ ٹرانسپلانٹ کرایا۔ ان لوگوں کی زندگی جیسے ختم ہو کر رہ جاتی ہے ۔ ہر جسم کے اندر ایسا ایک نظام موجود ہے ، جو باہر سے آنے والے ایک جراثیم یا ایک خلیے کے خلاف بھی فوراً مستعد ہو جاتاہے ۔ جب ایک ناکارہ عضو کی جگہ کسی دوسرے جسم سے لیا گیا تندرست عضو لگایا جاتاہے تو مریض کا جسم اس عضو کو مسترد کرنے کی بھرپور کوشش کرتاہے ۔ ڈاکٹر مریض کے مدافعاتی نظام کو کمزور کرنے کی ادویات دیتے ہیں تاکہ اس کا جسم نئے عضو کو قبول کر لے۔مدافعاتی نظام کمزور ہونے کے بعد ان کا جسم مختلف بیماریوں کی سیر گاہ بن جاتاہے ۔ انہیں انتہائی احتیاط کرنا ہوتی ہے کہ مختلف بیماریوں کے جراثیم اب کمزور مدافعاتی نظام پر غلبہ پاسکتے ہیں ۔ جن دو افراد کا میں نے ذکر کیا، ہمیشہ کسی نہ کسی بیماری تلے وہ دبے رہتے ہیں ۔ ان کا نزلہ زکام بھی مہینوں جاری رہتاہے ۔ دو نوں کو طویل عرصے تک ٹی بی لاحق رہی ۔ 
صحت سے متعلق جس قسم کاکا روبار پاکستان میں جاری ہے، ایسا پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک ہی میں ممکن ہے ۔ بڑے بڑے میڈیکل سٹورز پر ایسے کیمیکل دستیاب ہیں ، باڈی بلڈر حضرات اپنے جسم کو مصنوعی طور ر پھلانے کے لیے جنہیں ٹافیوں کی طرح کھاتے ہیں ۔ وزن گھٹانے کے مشروبات ہر کہیں دستیاب ہیں۔ بس ایک چھوٹا سا مسئلہ یہ ہے کہ کچھ برس بعد انہیں استعمال کرنے والے ہائی بلڈ پریشر کے مریض بن جاتے ہیں ، بعد ازاں جو دل پر حملہ آور ہوتاہے ۔ ان مشروبات میں ایفی ڈرین استعمال ہوتی ہے ۔ یہ خلیات کی حرکت یعنی Metabolism بڑھاتی ہے لیکن بھوک کم کرتی ہے ۔ یہ اس کا قلیل مدتی فائدہ ہے ۔امریکہ میں کئی کھلاڑی اس کے استعمال سے بیمار اور ہلاک ہوئے ۔ ایسے ہی ایک کھلاڑی کا پوسٹ مارٹم ہوا تو اس کے جسم سے ایفی ڈرین ملا یہ کیمیکل دریافت ہو ا، جو وزن گھٹانے کے لیے استعمال ہوتاہے ۔ وہ دن اور آج کا دن ، امریکہ میں تمام میڈیکل سٹور ز سے وزن گھٹانے والے یہ مشروبات ہٹا دئیے گئے ہیں ۔ ان کی خرید و فروخت جرم ہے ۔ 
فیصل آباد کے گائوں نور پور کی گلیوں میں پھرتے ہوئے ، میں نے ایک مطب دیکھا۔ باہر بورڈ پر '' ٹھنڈک کیسول‘‘ ــکی قیمت اور خوبیاں درج تھیں ۔ میرے دوست ناصر حسین نے بتایا : میرے 38سالہ کزن ظاہر شاہ نے حکیمی ادویات استعمال کیں ۔ اس کے گردے ناکارہ ہو گئے ۔ اب اگلے ہفتے اسے گردہ ٹرانسپلانٹ کرانا ہے ۔ اس پر بیس لاکھ روے خرچ اٹھے گا۔ وہ 14ویں گریڈ کا سرکاری ملازم ہے ۔ 
ہمارے جسم، ہمارے اعضا ہماری نعمت ہیں ۔ ان کا خیال رکھنا ہوتاہے ۔ دو برس سے میرے معدے نے مجھے تنگ کر رکھا ہے ۔ کھانا اکثر معدے سے خوراک کی نالی میں واپس آجاتاہے ۔ خوراک کی نالی صرف اور صرف اس لیے تخلیق کی گئی ہے کہ یہ کھانے کو معدے میں ڈالتی رہے ۔ یہ اس لیے ہرگز نہیں بنی کہ معدے کا تیزاب اور کھانا اس میں واپس آئے۔ یوں اس کے خلیات کو نقصان پہنچ سکتاہے ۔ جب یہ تیزاب گلے میں لگتاہے تو یہ ٹانسلز کو بھی خراب کردیتا ہے اور بالآخر انہیں نکلوالا ہی پڑتا ہے ۔ پہلے پہل میں جن ڈاکٹر صاحب کے پاس جاتا رہا ، انہوں نے مجھے صرف اور صرف تیزابیت کم کرنے کی ادویات دیں ۔ان کے پاس وقت کی کمی تھی۔نوجوان ڈاکٹرو ں کے جلو میں وہ چند سیکنڈ ہی کے لیے مریض کے سامنے جلوہ فروز ہوا کرتے ۔ بعد ازاں جب میں راولپنڈی میڈیکل کالج اور الائیڈ ہاسپٹلز کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمد عمر کے پاس گیا تو انہوں نے کئی قسم کے پیچیدہ ٹیسٹ کیے ، جن میں سے ایک آغا خان کے سوا اور کہیں دستیاب نہیں ۔ ایک رپورٹ میں لکھا ہے: H.pylori associated chronic mild antral gastritis۔ایک ٹیسٹ manometry ابھی باقی ہے ، جس میں خوراک کی نالی میں سنسر ڈال کر اس نالی کی قوت کا جائزہ لیا جائے گا۔ یہ تو ہے سائنٹیفک انداز اور اگر میں حکیموں ، یونانی دوا خانوں وغیرہ سے علاج کرا رہا ہوتا تو اس وقت معدے کے ساتھ ساتھ گردے کا علاج بھی شروع کرانا پڑتا ۔ آ پ کا جسم ، آپ کے اعضا آ پ کی قوت ہیں ۔ ان کی حفاظت کیجیے ۔ ان کا علاج ڈاکٹر سے کرائیے ، عطائیوں سے نہیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں