"FBC" (space) message & send to 7575

قبرستان

آج جب میں قبر میں ٹانگیں لٹکائے بیٹھا ہوں تواس خوف سے بہرحال آزاد ہوں کہ بدکاروں کے قبرستان میں نہ دفنا دیا جائوں ۔ مائی سچّی واقعی سچّی تھی ۔
بڑے بوڑھے بتاتے ہیں کہ 70 برس پہلے دور دراز کے تمام دیہات میں کوثر بی بی( بعد ازاں جو مائی سچّی کے نام سے مشہور ہوئی ) جیسی خوبصورت لڑکی کوئی نہیں تھی ۔جس روز اس کی بارات آئی ، معمولی بات پہ کوئی جھگڑا ہوا ، آخر جس میں گولی چلی ۔ دولہا عین اس کی دہلیز پر مرا ؛حالانکہ وہ اس جھگڑے کا مرکزی کردار بھی نہیں تھا۔کوثر بی بی کے باپ کو دل کو دورہ پڑا اور وہ بھی چل بسا۔ ماں برسوں پہلے مر چکی تھی ۔
ایک بڑی جائیداد کی مالک ،17برس کی ایک حسین لڑکی، جس کے آگے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ تاکنے والے کم نہیں تھے ۔ ایسے میں اس نے تنہا رہنے کا فیصلہ کیا۔وہ بچّوں کو قرآن پڑھانے لگی ۔ ایک لمبی چادر اس نے اوڑھ لی تھی ۔پہلے حد درجہ وہ شوخ تھی ، اب بے حد سنجیدہ ہو گئی۔ موروثی زمین کا کرایہ اس کے لیے بہت کافی تھا ۔ بہت سا روپیہ وہ محتاجوں کو دے دیتی ۔اس کے باپ نے گھر میں تین کتّے پال رکھے تھے ۔ کوثر بی بی نے ان کی تعداد 6کر دی ۔ یہ وہ غیر معمولی حالات تھے، عام طو رپر کسی لڑکی کو جن سے نہیں گزرناپڑتا ۔ بہت برسوں تک شرطیں لگتی رہیں کہ کس خوش نصیب سے وہ بیاہ رچائے گی ۔ وہ انتظار کرتے رہ گئے ۔ 
دس سال گزرے، بیس اور تیس ، حتیٰ کہ وہ پچاس برس کی ہو گئی ۔ بال سفید ہوئے ، پہلی جھری نمودار ہوئی ۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب دلوں میں اس کی محبت پیدا ہوئی ۔ ایک پوری نسل اس سے قرآن پڑھ چکی تھی ۔ بے شمار ناداروں کی اس نے مدد کی تھی ۔ ہمیشہ اسے سچ بولتے سناگیا ۔ اس وقت غالباً وہ60برس کی تھی ، جب اسے مائی سچّی پکارا جانے لگا۔ یہی وہ وقت تھا، جب اسے بڑوں کی شوریٰ میں شامل کر لیا گیا۔ یہ 17مقامی دیہات(مشترکہ طور پر جنہیں موہن پورہ پکارا جاتا) سے تعلق رکھنے والے بااثر بڑوں کی مشترکہ اوربا اثر کونسل تھی ۔ یہی عوامی بہبود کے فیصلوں کی مجاز تھی ۔ 
صدیوں سے موہن پورہ کی روایات اور ضوابط طے شدہ تھے ، سختی سے جن پر عمل کیا جاتا ۔ یہاں نیک لوگوں اور بدکاروں کے قبرستان الگ الگ تھے ۔ میت کس قبرستان میں لے جائی جائے گی ، اس کا فیصلہ بڑوں کی شوریٰ کر تی تھی ۔ شراب پینے والے کو علاقہ بدر کیا جا تا تھا۔ مائی سچی ان گنے چنے خوش نصیبوں میں سے ایک تھی ،ایک متفقہ فیصلے کے ذریعے جن کے لیے نیکی والوں کے قبرستان میں ایک نہایت اعلیٰ جگہ منتخب کر دی گئی تھی ۔یہ وہ اعلیٰ ترین سماجی مرتبہ تھا ، موہن پورہ میں کسی شخص کو جو دیا جا سکتا تھا۔ اپنی زندگی کا مشکل وقت وہ پہلے ہی گزار چکی تھی ، اب ایک باوقار بڑھاپے سے گزر کر اسے اپنے خدا کے پاس لوٹ جانا تھا ۔ خرابی تب پید اہوئی ، جب بڑوں کی شوریٰ کا رکن بننے کے بعد سالانہ اجلاس میں پہلی بار اسے اظہارِ خیال کا موقع ملا ۔ اس نے کہا کہ پرہیزگاری کا فیصلہ خدا تعالیٰ ہی کو سزاوار ہے ۔ اسی کو ہمیں حساب دینا ہے ۔ اس نے یہ تجویز پیش کی کہ دونوں قبرستانوں کو ایک بڑے قبرستان میں ضم کر دیا جائے ۔ 
وہ سیخ پا ہوئے ۔ انہوں نے یہ کہا کہ صدیوں سے جو اصول ہمارے آبائو اجداد نے طے کر دئیے ہیں ، اس بچپنے کے ساتھ ان پر اظہارِ خیال مائی سچّی جیسی شخصیت کو زیب نہیں دیتا۔اس دن سے جس کشیدگی نے جنم لیا ، وہ 27برس تک قائم رہی ۔ اس لیے کہ ہر سالانہ اجلاس میں وہ یہ مطالبہ دہراتی تھی ۔کسی نا معلوم خوف کی بنا پر وہ اسے کونسل سے خارج کرنے سے قاصر تھے ۔ وہ اس کے خلاف اول فول بکتے رہتے ، وہ خاموش رہتی ۔ اس خاموشی نے انہیں زچ کر کے رکھ دیا تھا۔ 
27ویں سالانہ اجلاس کے موقع پر ، اس کی عمر 87برس ہو چکی تھی۔اس وقت ، جب اپنی خمیدہ کمر کے ساتھ بڑی مشکل سے لاٹھی کے سہارے وہ کھڑی ہوئی ، ان کی نگاہوں میں استہزا تھی۔ 27برس ان کی جدی پشتی رسم کے خلاف واویلا کرنے والی بڑھیا بالاخر اپنی موت کے قریب تھی ۔ اس روز اس نے یہ کہا : میں اگلے برس تک جینے کی امید نہیں رکھتی ؛لہٰذا آخری بار یہ مطالبہ کرتی ہوں کہ بدکاروں کا الگ قبرستان ختم کیا جائے ۔ وہ ہنس پڑے ۔ 
ایک ذاتی خادم کی حیثیت سے 24گھنٹے میں مائی کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ اس شام اس نے مجھے ایک رقعہ دیا اورخیر بخش نامی اس بوڑھے کے پاس بھیجا ، جسے شراب نوشی کے جرم میں کبھی علاقہ بدر کیا گیا تھا۔ خیر بخش نے کالے کاغذ میں لپٹی ہوئی جو چیز میرے حوالے کی، وہ میں نے مائی سچّی کو دے دی۔ اس وقت میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں تھا کہ وہ شراب تھی ۔مائی سچّی بازار گئی ۔ سب کے سامنے آدھی بوتل اس نے پی لی اور باقی آدھی بڑوں کی شوریٰ کو بھجوا دی ۔ 
چند گھنٹے بعد جب وہ اسے علاقہ بدر کرنے آئے تو اس وقت سینکڑوں لوگ اس کے گھر کے باہر موجود تھے۔ ایک بڑے مشتعل ہجوم نے انہیں بھگا دیا۔ وہ گئے اور زیادہ نفری کے ساتھ واپس آئے۔ موہن پورہ کے گلی کوچوں میں 6دن تک جھڑپیں جاری رہیں۔ ساتویں روز مائی سچّی فوت ہو گئی ۔اس روز ہجوم کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کر گئی تھی۔گھنٹوں مذاکرات ہوتے رہے ۔ آخر یہ طے ہوا کہ مائی سچّی کو دونوں قبرستانوں کے درمیان دفنا دیا جائے ۔ 
ان چھ دنوں میں ، مائی سچّی نے مجھ سے بہت سی باتیں کی تھیں ۔ اس نے مجھے بتایا کہ نیکوں اور بدکاروں کے الگ قبرستانوں کی آڑ میں منافقت اور ریا کاری کا کاروبار جڑ پکڑ چکا ہے ۔ جب میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے شراب کیوںپی تو اس کا کہنا یہ تھا کہ شراب نہیں ، وہ زہر کا ایک پیالہ تھا ۔یہ بھی کہ اگر وہ یہ زہر نہ پیتی تو آنے والی نسل کے ہر فرد کو پینا پڑتا۔ 
پھر ہوا یہ کہ مائی سچّی کی قبر کے گرد قبریں کھمبیوں کی طرح اگنے لگیں ۔ پہلے پہل صرف دائیں جانب لیکن پھر بائیں طرف بھی۔ ایک نیا قبرستان بننے لگا ، پھیلتے پھیلتے جو پہلے دو نوں قبرستانوں کے ساتھ مل گیا۔ یوں ایک مشترکہ ، بڑا قبرستان وجود میں آیا۔مائی کی موت کے پچاس برس بعد آج میں خود بوڑھا ہو چکا ۔ یہ خوف بہرحال مجھے لاحق نہیں کہ کس قبرستان میں دفنایا جائوں گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں