"FBC" (space) message & send to 7575

نفس کی دنیا

اپنے اندر اترنا آسان نہیں ہوتا۔ دنیا میں ہر شے کے ماہرین پائے جاتے ہیں ۔ کوئی بھی شخص ایک وقت میں زیادہ شعبوں کا ماہر نہیں بن سکتا۔ گاڑیوں کا کام کرنے والا انجن کی آواز سن کر بتا دیتاہے کہ اس میں کیا خرابی ہے ۔ وہ صاف ستھری، چمکتی ہوئی گاڑی پر ہاتھ لگا کر بتا سکتاہے کہ کبھی اس ا یکسیڈنٹ ہوا تھا ۔ گوشت کا کام کرنے والا بکرا دیکھ کر ہی بتا دیتاہے کہ وزن کتنا ہے ۔ ہر شے کے ماہرین دنیا میں پائے جاتے ہیں ، بس نہیں ملتے تو نفس کے ماہر۔انسان کی خود سے محبت اور ساری انسانی خواہشات کا مجموعہ نفس کہلاتا ہے۔کہیں اور نہیں ، یہ دماغ کے اندر ہی پایا جاتاہے ۔جب آپ اپنی کسی خواہش کی تکمیل کرتے ہیں تو دماغ میں مخصوص کیمیکل خارج ہوتے اور تسکین کا احساس دلاتے ہیں ۔ دنیا میں موجود ہر شخص مضطرب ہے ۔ سوائے حضرت علی بن عثما ن ہجویری ؒ جیسے صوفیا کے ، خدا سے جنہوںنے دوستی اور نفس کا مطالعہ کیا۔ 
ہر قسم کے انسانی روّیوں ، تمام جذبات کی بنیاد صرف اور صرف اس بات پہ رکھی ہے کہ نفس کو اپنے آپ سے محبت ہوتی ہے ۔ دیگر تمام جذبات و احساسات اس میں سے پھوٹتے ہیں ۔ گنجے پن، چھوٹے قد ، گہرے رنگ ، بد صورت شکل اور دیگر جتنے بھی کمتری کے احساسات ہیں ، ان کا سبب یہ ہے کہ نفس کی خود سے محبت اتنی شدید ہوتی ہے کہ اپنے اندر کوئی چھوٹی سے چھوٹی خامی بھی اسے گوارا نہیں ہوتی۔ کسی شخص کا مذاق اڑا کر دیکھ لیجیے۔ وہ بات دل میں رکھ لے گا اور آپ کو نیچا دکھانے کی کوشش کرتا رہے گا۔ اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ نفس کی خود سے محبت کی بنا پر اپنی توہین اسے گوارا نہیں ہوتی ۔ مزید یہ کہ جتنے زیادہ لوگ اس پر ہنسنے والے ہوں گے ، اتنا ہی نفس کا جوابی ردّعمل شدید ہوگا۔ علاج اس کا یہ ہے کہ انسان خود پر ہنسنا شروع کردے ۔ اپنا مذاق اڑانا شروع کر دے تو غصہ آنا بند ہو جائے گا۔کوئی آپ کو نقصان پہنچا دے تو آپ بدلہ لیے بغیر نہیں ٹلتے ۔ اکثر اوقات انتقام کا یہ کھیل بہت لمبا ہو جاتا ہے ۔ اتنی اس میں لاشیں گر جاتی ہیں اور اتنا مالی نقصان اٹھانا پڑتا ہے کہ انسان سوچتا ہے کہ ابتدا میں جو نقصان پہنچا تھا، اس پہ صبر کر لیتے تو کیا تھا۔ وجہ بہرحال یہی ہوتی ہے کہ نفس کو اپنا آپ بہت عزیز ہے اور خود کو نقصان پہنچانے والے کو وہ معاف نہیں کر سکتا۔ اکثر اوقات دوسری جبلتیں بھی اس کے ساتھ مل جاتی ہیں۔ مثلاً اگر میری شہرت علاقے میں یہ ہے کہ بلال بہت طاقتور ، دشمن دار، چالاک اور ہوشیار بند ہ ہے تو پھر تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ میں بدلہ نہ لوں ۔ اس لیے کہ پھر علاقے کے لوگوں پر اپنی بڑائی سے متعلقہ حبِ جاہ اور غلبے کی جبلت بھی اس میں شامل ہوجاتی ہے ۔پھر میں نے بدلہ لینے کے بعد لوگوں کو اپنی داستان بھی سنانا ہوگی اور واہ واہ سمیٹنا ہوگی۔ اس کا علاج یہ ہے کہ جھوٹی انا اور عزت کے فریب میں مت آئیے ۔ 
نفس میں شدید ترین خوف پایا جاتا ہے ۔ اکثر تنازعات کی وجہ یہی خوف ہوتاہے ۔ ایک انچ زمین پر لاشیں گرنے کی وجہ یہی ہوتی ہے کہ آج اگر ایک انچ پر قبضہ ہوتا ہے تو کل کو ایکڑوں کے ایکڑ جائیں گے ۔ یہ بھی کہ اگر آج ایک انچ ہم نے چھوڑ دیا تولوگ ہمیں کمزور اور بے وقوف سمجھیں گے اور یہ ایک مستقل سلسلے کی صورت اختیار کر لے گا۔ محفل میں آپ پر اگر ایک جملہ کسا جاتاہے اور لوگ ہنستے ہیں تو نفس فوراً ہوشیار باش ہوتا ہے ۔ اپنی بقا کا یہ خوف اس میں عود کر آتا ہے کہ کہیں مستقل اس کی ذلت کا یہ سلسلہ شروع نہ ہو جائے ۔وہ پلٹ کر حملہ کرتا ہے ۔ پھر دونوں اطراف سے جملے بازی کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ آہستہ آہستہ یہ مستقل اور گہرے عناد میں ڈھل سکتاہے ۔ ایک دوسرے کی تضحیک کے اس کاروبار میں ،جو ہارے گا، اس دل میں کینہ رہے گا۔ جیتنے والے میں غلبے کی جبلت کو سرشاری ملے گی ۔ خطرہ اس میں یہ ہوتاہے کہ بار بار ، ہر جگہ وہ یہی کام کرنے کوشش کرتاہے ؛حتیٰ کہ اونٹ پہاڑ کے نیچے آجاتاہے ۔ 
بقا کے خوف، غلبے کی خواہش اور بے انتہا تجسس پر مشتمل نفس کی خواہشات ہی وہ محرکات ہیں ، جنہوں نے کرئہ ارض پہ انسانی علم کو آخری حدوں تک پھیلنے میں مدد دی ۔ غلبے کی جبلت میں بہت بڑی تسکین چھپی ہوتی ہے ۔ ہمیشہ آپ کی بات پر سب لوگ ہنسیں ۔ زمانہ ء طالب علمی میں، کلاس روم میں عموماًہم سب اس سے گزرتے ہیں ۔ مخالف جنس کی کشش، حبِ جاہ اور غلبے کی جبلت، یہ سب آپس میں تعامل کر لیتی ہیں ۔ اس کے بعد انسان اپنی حدوں سے باہر نکلتا ہے ۔ اکثر اسے ذلت اٹھانا پڑتی ہے ۔ افراد جب مل کر بیٹھتے ہیں تو بات چیت کے ایک عمل کے ذریعے انفرادی جبلتیں اجتماعی جبلتوں میں بدلتی ہیں ۔ ایک قبیلہ دوسرے کو فتح کرنے کا فیصلہ کرتاہے ۔ ایک ملک دوسرے پہ چڑھ دوڑتا ہے ۔ ایک سپرپاور دوسرے کے ساتھ جنگ لڑتی ہے۔عالمی جنگیں لڑی جاتی ہیں ۔ دنیا راکھ کا ڈھیر بن جاتی ہے ۔ اکثر اوقات غلبے کی یہ جبلت مکمل تباہی پہ منتج ہوتی ہے ۔ نفس کی یہ خواہشات انسانی فیصلہ سازی پہ بری طرح سے اثر انداز ہوتی ہیں۔ غصے اور انتقام کے جذبات میں ، وہ فیصلہ ہمیشہ عقل کے خلاف کرتاہے ۔ ایسے افراد کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے ، جو وقتی جذبات کی بجائے ناپ تول کر عقل کی مدد سے اپنا ردّعمل ترتیب دیتے ہوں ۔ نفس ہر حال میں اپنی تعریف چاہتاہے ۔ آپ ایک ڈرائیور کو صرف اتنا کہہ دیجئے کہ آج تک کسی کو اتنی اچھی ڈرائیونگ کرتے نہیں دیکھا، جتنی کہ تمہیں ۔ بس اسے چوڑا ہونے میں ایک سیکنڈ بھی نہیں لگے گا؛حالانکہ ڈرائیورنگ میں کوئی کون سے چاند ستارے ٹانک سکتاہے ۔نفس کی خود سے محبت ہی کی وجہ سے انسان میں خوشامد سے فوری متاثر ہونے کا رجحان پایا جاتاہے ۔ تجربے کے طور پرآپ دوست احباب اپنے میں سے کسی کی مونچھوں یا بالوں کی دو تین بار تعریف کر دیجیے۔ اس کے بعد آپ ہمیشہ اسے مونچھیں اور بال سنوارتے ہی دیکھیں گے ۔ آسانی سے وہ اس فریب میں آجائے گا کہ اس کی مونچھیں شاندار ہیں ۔ 
ڈیل کارنیگی اور دوسرے ماہرینِ نفسیات نے اچھے روّیے کے ذریعے دلوں میں جگہ بنانے پر جو کتابیں لکھی ہیں ، وہ سب بھی نفس کی خود سے محبت کے اصول پر ہی کام کرتی ہیں ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں