"FBC" (space) message & send to 7575

خود فریبی اور تلخ حقائق

اخبار پہ سرسری نظر ڈالی۔اسحق ڈار نے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کو منا لیا ۔ سینیٹ میں وزرا کی حاضری بہتر بنانے کی یقین دہانی ۔ فوجی عدالتوں میں توسیع ، پاکستان بار کونسل بھی 23ویں آئینی ترمیم چیلنج کرے گی ۔ اس پر ایک بار پھر رضا ربانی کے آنسو یاد آئے۔ 7جنوری 2015ء کو فوجی عدالتوں کو ووٹ دیتے ہوئے وہ آبدیدہ ہو ئے اور یہ کہا : ووٹ پارٹی کی امانت تھا ، دے دیا لیکن ساتھ ہی یہ فرمایاکہ سینیٹ میں جو 12برس گزرے ، ان میں کبھی اس قدر شرمندگی نہیں ہوئی (جتنی کہ فوجی عدالتوں کو ووٹ دے کر اور سول پر فوجی بالادستی قائم کرنے پر آج ہو رہی ہے )۔ دو برس قبل اس پہ میں نے یہ لکھا تھا : سینیٹ میں جو بارہ سال رضا ربانی نے گزارے ، ان میں 5برس پیپلزپارٹی برسرِ اقتدار رہی ۔ اس دوران بے نظیر قتل کیس کی صرف دس فیصد سماعت ہی ہوسکی ۔ اہم گواہ، حتیٰ کہ ایک وکیل بھی قتل کر دیا گیا۔ اپنی نوعیت کا یہ واحد مقدمہ نہیں ۔ کراچی میں ولی بابر قتل کیس کے سارے گواہ قتل کر دئیے گئے تھے ۔ 
آٹھ برس قبل رضا ربانی ہی نے یہ خوشخبری قوم کو سنائی تھی کہ ان کے پرزور اصرار پر زرداری صاحب صدر بننے پر تیار ہو گئے ہیں ۔ زرداری صاحب کے دورِ اقتدار میں یوسف رضا گیلانی اور ان کے خاندان ، راجہ پرویز اشرف ، مخدوم امین فہیم مرحوم اور مخدوم شہاب الدین سمیت پیپلزپارٹی کے وزرائِ اعظم اور مرکزی لیڈروں پر بڑی کرپشن کے مقدمے قائم ہوئے ۔ ایفی ڈرین کیس،کرائے کے بجلی گھر وغیرہ وغیرہ۔ میمو سکینڈل پیش آیا، جس میں حسین حقانی نے اپنا موبائل عدالت میں پیش کرنے سے انکار کر دیا ۔ ملکی قرض میں 8ہزار ارب روپے کا اضافہ ہوا ۔ دہشت گردی کے مقدمات میں ججوں کو دھمکیاں دی جاتیں ۔ کچھ گواہ منحرف ، کچھ قتل ہو جاتے ۔ اوّل تو دہشت گرد صاف بچ نکلتے ۔ پھر اگر کسی کو سزا ہو بھی جاتی تو زرداری صاحب کے حکم پر سزائے موت روک دی گئی تھی کہ یورپ سے تمغہ ء انسانیت وصول کیا جا سکے ۔ اپریل 2012ء کو بنّوں جیل توڑ کر چار سو مجرم رہا کرا لیے گئے ۔ پیپلزپارٹی کے دورِ اقتدار میں سندھ پولیس مکمل طور پر تباہ کر دی گئی ۔ اس دوران پانچ ہزار افراد کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہو ئے ۔ لوڈ شیڈنگ میں کمی نہ آسکی ۔ الیکشن قریب آئے تو ایران کے ساتھ گیس فراہمی کے معاہدے پر دستخط کر دئیے ؛حالانکہ عالمی پابندیوں کے تناظر میں گیس درآمد ممکن ہی نہ تھی ۔ گیس اور بجلی کے کارخانے بند ہو تے گئے ۔ لاکھوں محنت کش فاقوں مرنے لگے ۔ رحمٰن ملک کی وزارتِ داخلہ نے سرخ پاسپورٹ ریوڑیوں کی طرح بانٹے ۔ مگر رضا ربانی نے کسی قسم کا کوئی احتجاج نہ کیا۔نتیجہ یہ نکلا معاملات فوج کے ہاتھ میں چلے گئے ۔ فوجی عدالتوں کا قانون پیش ہوا تو انہوں نے رونا شروع کر دیا۔ 
سینیٹ میں وزرا کی غیر حاضری پر اب انہوں نے بھرپور احتجاج کیا ۔ نتیجہ یہ کہ سارے ملک کوایک بار پھر ان کی موجودگی کا احساس ہوا۔ وزیرِ اعظم کی ہدایت پر اب وزرا سینیٹ میں موجود رہا کریں گے ۔ رضا ربانی کے سوالات پر جواب دیں گے اور انہیں وہ فائلوں میں لکھا کریں گے ۔ ہوگا مگر کچھ نہیں ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ نون لیگ شریف خاندان کی مٹھی میں ہے ۔ دانیال عزیز، طلال چوہدری، مریم اورنگزیب سمیت سارے وزرا اور مشیر شریف خاندان کے دفاع پر مامور ہیں ۔ پیپلزپارٹی زرداری صاحب کی مٹھی میں ہے ۔ ایان علی ، ڈاکٹر عاصم حسین اور انور مجید سمیت ہر معاملے پر اسے زرداری صاحب کے مفادات کا دفاع کرنا ہے ۔ زرداری شریف مفاہمت کے اس کباب میں اگر کوئی ہڈی ہے تو وہ عمران خان ہے ۔ فوج بھی اکثر مزا کرکرا کرتی پائی گئی ہے ۔ اکثر فیصلے وہی کر رہی ہے ۔ اسے سرحدوں کی حفاظت توکرنا ہی ہے لیکن راجن پور میں چھوٹو گینگ سے بھی نمٹنا ہے ۔ بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی کمر اس نے توڑی ۔ کراچی میں پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کے ٹارگٹ کلرز سمیت ، جرائم پیشہ افراد کو اس نے نمٹایا۔ ملک بھر میں وہ کومبنگ آپریشن کر رہی ہے ، جسے آپریشن ردّ الفساد کا نام دیا گیا ۔اور تو اور، عزیر بلوچ کو اس نے پکڑ رکھا ہے ، طویل عرصہ پیپلزپارٹی جس کی سرپرستی فرماتی رہی۔ 
رضا ربانی سینیٹ کی اس کمیٹی کے سربراہ تھے، جس نے اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت صدر سے اختیارات لے کر وزیرِ اعظم کو واپس کیے ۔یہ ترمیم انہوں نے اپنے ہاتھ سے تحریرفرمائی تھی ۔ وہ قائدِ اعظمؒ کی معاونت کرنے والے ایک عظیم باپ کے فرزند ہیں ۔ اقوامِ متحدہ سمیت اعلیٰ ترین عالمی فورمز پر پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں ۔لگتا ایسا ہے کہ ان اعزازات کے نتیجے میں خواب و خیال کی ایک دنیا انہوں نے اپنے ذہن میں آباد کر لی ہے ۔ وہ دنیا ،جہاں فوج پر سول کی بالادستی سختی سے قائم ہے ۔ جہاں سارے قومی معاملات پارلیمنٹ میں طے ہوتے ہیں لیکن پھر تلخ زمینی حقائق مداخلت کرتے ہیں تو وہ بلبلا اٹھتے ہیں ۔ رضا ربانی کو عظیم سیاسی رہنما صرف اس صورت میں تسلیم کیا جا سکتا تھاکہ زرداری صاحب کی طرف سے ریاست اور خود پیپلزپارٹی کے انہدام کو وہ دوسرے رہنمائوں کے ساتھ مل کر روک دیتے ۔ 
خود فریبی کی ایسی ہی دنیا میں سپریم کورٹ بار ایسو سی ایشن اور دوسری وکلا تنظیمیں جی رہی ہیں ۔ فوجی عدالتوں کے خلاف انہوں نے سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے کہ آئین سے یہ متصادم ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ 2008ء سے 2015ء کے سات برسوں میں جب بے نظیر قتل کیس کی صرف 10فیصد سماعت ہی ممکن ہو سکی تو کتنے وکلا رہنمائوں نے اس پر احتجاج کیا ۔تلخ زمینی حقیقت یہ ہے کہ سول اداروں کی مکمل ناکامی کے نتیجے میں فوج سے مدد مانگنا پڑی ۔مکمل طور پر انسدادِ دہشت گردی کا ٹھیکا فوج کو دے دیا گیا ہے اور تاریخ میں ایسا تو کبھی نہیں ہوا کہ مدد مانگنے والے نے اپنی شرائط منوائی ہوں ۔ بھکاری کو حقِ انتخاب کون دیتاہے ؟ وزیرِ خزانہ نے ایک دفعہ کہا تھا کہ آئی ایم ایف کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر معاملات طے کریں گے،اپنی شرائط پر قرض لیں گے ۔ بعد میں کس نے کس کی شرائط تسلیم کیں ، یہ سب جانتے ہیں ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں