"FBC" (space) message & send to 7575

جائے فرار

یہ سات برس پہلے کی بات ہے ۔ دنیا کے سب سے معروف طبیعات دان اور ماہرِ فلکیات سٹیون ہاکنگ کے انتباہ نے جب سنسنی پھیلادی تھی۔ Phys.org سمیت تمام سائنسی دنیا میں اس کا یہ تجزیہ جلی حروف میں شائع ہوا۔ اس نے کہا : ایک صدی کے اندر انسان نے خلا میں محفوظ ٹھکانے دریافت نہ کیے تو وہ ہمیشہ کے لیے فنا ہو جائے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ (بے انتہا خطرناک دفاعی ٹیکنالوجی کی مدد سے ہونے والی ) جنگوں ، وسائل کی کمی اور آبادی میں شدید اضافے کی صورت میں حالات اب اتنے خطرناک ہوچکے کہ پہلے کبھی نہ تھے۔ ''ایک ہزار یا ایک لاکھ سال تو دور کی بات، اگلے سو برس میں بھی (عالمی )تباہی سے بچنا مشکل نظر آتاہے‘‘۔ '' پچھلے سو سال میں انسان نے تیزی سے ترقی کی لیکن اگر ہم اگلے سو برس کے بعد بھی باقی رہنا چاہتے ہیں تو ہما را مستقبل خلا میں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایسی خلا ئی پروازوں کے حق میں ہوں ، جن میں انسان سوار ہو (نہ کہ صرف روبوٹ ، مشینیں اور آلات۔‘‘ اس کے ساتھ اس کا یہ بھی کہنا تھا کہ خلا میں ہمارا سفر خطرات سے خالی نہیں ہوگا ۔ اس سے پہلے وہ انتباہ کر چکا تھا کہ دور کہیں کسی سیارے پر انسان سے زیادہ ذہین مخلوق آباد ہوئی تو اس سے ہمارا رابطہ بے انتہا خطرناک ثابت ہوسکتاہے ۔ یہ ایسا ہی ہے ، جیسا کہ یورپی باشندے جب امریکی ساحلوں پر اترے تو ریڈ انڈینز کی بد بختی کا سورج طلوع ہوا ۔ ساتھ ہی وہ یہ کہتاہے کہ اگر ہم انسان ہی اپنی کہکشاں کی واحد ذہین مخلوق ہیں اور اگر ہم اپنے آپ کو برباد نہیں کرتے تو پھر ہم محفوظ ہیں ۔
انسان اسی زمین پہ رہنے کے لیے بنا ہے ، یا وہ دوسرے سیاروں پہ زندگی گزار سکتاہے ؟ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے ۔ نئے ماحول سے مطابقت ، بقا کی خاطر آخری حد تک لڑنا ہر جاندار کی فطرت ہے ۔ خلا میں جانے والوں کی صحت پر برے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ ان کے جسم میں گوشت کی بافتوں (Muscles)اور ہڈیوں کو نقصان پہنچتا ہے ۔ جہاں تک کرئہ ارض کا تعلق ہے ، یہاں اس تابکاری سے حفاظت کے لیے زیرِ زمین پگھلے ہوئے لوہے سے پیدا ہونے والے خصوصی مقناطیسی میدان موجود ہیں اور اوزون بھی۔ یہاں مختلف چیزیں ایک چکر (Cycle)کی صورت میں جانداروں کے استعمال میں آتی رہتی ہیں ۔ 
پہلے جو پانچ عالمگیر ہلاکت خیز ادوار کرّئہ ارض پہ گزرے ہیں ، تب انسان نے ابھی ہوش بھی نہ سنبھالا تھا۔ ان میں سے آخری ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے رونما ہوا تھا۔ جب ڈائنا سار ہلاک ہوئے ۔ وہی نہیں ، کرئہ ارض پہ جانداروں کی آدھی سے زیادہ اقسام ختم ہو گئیں ۔ عالمگیر ہلاکتوں کی سو فیصد درست وجوہ بیان کرنا تو ممکن نہیں لیکن کسی حد تک ان بڑے حادثات کا جائزہ لیا جا چکا ہے ۔ اس نتیجے پر ہم پہنچے ہیں کہ خلا سے آنے والی دس کلومیٹر قطر کا ایک پتھر یا بڑے پیمانے پر آتش فشانی کرّئہ ارض کی فضا کو طویل عرصے تک راکھ سے ڈھک سکتی ہے ۔ نتیجے میں نہ صرف سورج کی روشنی سے محرومی کے بعد پودے اور جانور بڑے پیمانے پر مریں گے بلکہ درجہ ء حرارت میں شدید اضافے سے بھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج آدمی ایسی ہر چٹان پہ نظر رکھتا ہے ،جس کا ہمارے قریب سے گزرنے کا خدشہ ہو ۔عالمی سطح پر آج درجہ ء حرارت میں تیز رفتار اضافے کے علاوہ ایک بڑی ایٹمی جنگ کا خدشہ بھی موجود ہے ۔2015ء میں جب ترکی نے اپنی فضا میں در آنے والا روس کا جنگی طیارہ گرایا او ر تین ہفتے قبل جب امریکہ نے شام پر میزائل حملے کیے تو ایک بڑی جنگ چند قدم کے فاصلے پر دکھائی دیتی تھی ۔ یہی صورتِ حال تین برس قبل یوکرین میں روسی مداخلت او رپھر یورپ کی فضائوں میں نیٹو اور روسی طیاروں کے ایک دوسرے کے سامنے سے گزرنے پر پیدا ہوئی ۔اس بارے میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں کہ کرّئہ ارض پہ انسانی زندگی شدید خطرے سے دوچار ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ کسی تباہی سے بچنے کے لیے انسان جائے گا کہاں ؟ 
اسی موضوع پر بات کرتے ہوئے ،یونیورسٹی آف مشی گن سے تعلق رکھنے والی طبیعات دان اور ماہرِ فلکیات کیتھرائن فریسے کہتی ہے کہ زمین سے قریب ترین دوسرے ستارے کا سفر موجودہ راکٹ سائنس کی استعداد کے مطابق 50ہزار سال کا ہے ۔یہاں یہ بات پوری طرح واضح ہو جاتی ہے کہ ہم اپنی زمین کی حدود سے بھاگ سکتے ہیں ،سورج سے نہیں ۔ عطارد ، زہرہ اور مریخ جیسے ،ٹھوس سطح رکھنے والے چند سیارے ہی آخری جائے فرار ہو سکتے ہیں لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر واقعی خدا حاضر و موجود ہے ۔ اگر اسی نے انسان کو وہ عقل دی ہے ، جس سے وہ ایجادات کر رہا ہے ۔ اگر وہ اپنی شریعت نازل کر کے اس پر مہر لگا چکا ۔اگر وہ زندگی کی بساط اب لپیٹنا چاہے تو کیا وہ انسان کو اپنی ہی عطا کی ہوئی عقل کی مدد سے کسی اور زمین پر جا بسنے کا موقع دے گا ؟14صدیاں پہلے جو ایسی خبریں ہمیں سناتا ہے کہ زمین و آسمان یکجا تھے اور اس نے انہیں پھاڑ کر جدا کیا ۔ جو یہ کہتا ہے کہ پہاڑ ساکت نہیں بلکہ بادلوں کی طرح اڑ رہے ہیں ۔لوہے، کوئلے، اناج، پانی کی صورت جو کچھ بھی زمین پر موجود ہے ، وہ یہ کہتاہے کہ میں نے دو دن صرف کیے زمین پر اسبابِ زندگی رکھنے کے لیے ۔ جب وہ اختتام کی بات کرتا ہے تو صرف یہ نہیں کہتا کہ سورج اور چاند یکجا کر دئیے جائیں گے بلکہ یہ بھی کہ ستارے جھڑ جائیں گے ۔
یہاں پہنچ کر سب شکوک ختم ہو جاتے ہیں ۔ انسان اسی زمین پر زندگی گزارنے کے لیے پیدا ہوا ہے اور یہیں وہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں