"FBC" (space) message & send to 7575

قدر

سچ یہ تھا کہ فضیل بن عیاضؒ جیسا واقعہ محمد بن عبد الحمید پہ گزر گیا تھا۔ اسی قبیلے کا وہ حصہ ہو گیا تھا۔ رہی یہ بات کہ عشق میں ناکامی نے اسے بدل ڈالا تو اس سے بڑا جھوٹ ہو ہی نہیں سکتا۔
1960ء کی دہائی میں ،جب یہ واقعہ پیش آیا ، پورے علاقے میں یہ فقرہ زبانِ زدِ عام ہوا کرتا تھا ''زبیدہ نے محمد بن عبد الحمید کی قدر ہی نہیں کی‘‘۔ عبد الحمید بلوچ سردارزادہ تھا ۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا، جن کی خوبیاں بے شمارمگر عیب ڈھونڈنا مشکل ہوتا ہے ۔جو لوگ اس خطے سے واقف ہیں ، وہ جانتے ہیں کہ سردار زادہ ہونے کا مطلب کیا ہے ۔ وہی سردار ، شاعرِ مشرق نے جسے'' دہ خدایا‘‘کہہ کر پکارا ۔پھر یہ کہ اس کا باپ اس خطے کا سب سے بڑا سردار تھا ۔ یوں حسب نسب میں پورے علاقے میں محمد بن عبدالحمید ہی برتر تھا۔ دوسرا یہ کہ اپنے بہن بھائیوں میں وہ بڑا ہی نہیں ، بلکہ اکلوتا فرزند تھا۔برابری کا کوئی امیدوار تھا ہی نہیں ۔ 
وہ ان بچوں میں سے تھا، جو اپنی شناخت خود بناتے ہیں ۔بہت سے سردار زادے غبی ہوتے ہیں ، سردارزادے ہی کیا، سردار بھی۔ وہ بے انتہا ذہین تھا۔ ابھی اس کی مسیں بھی پوری طرح بھیگی نہ تھیں کہ مشرق و مغرب کے بڑے ادیبوں اور دانشوروں کو اس نے پڑھ لیا تھا ۔ وہ کلام کرتا تو بڑے بوڑھے ششدہ رہ جاتے ۔کسی معاملے میں جب تمام حقائق کا مطالعہ کرکے وہ کوئی پیشین گوئی کرتا تو شاذ ہی وہ غلط نکلتی ۔ دوردراز کے دیہات سے لوگ جائیداد کے پیچیدہ مسائل حل کرانے اس کے پاس آتے ۔ 
اس جیسا کوئی گھڑ سوار تھا اور نہ کبڈی کھیلنے والا۔ جسم ، قدو قامت میں وہ سب پہ حاوی تھا۔ہر کھیل اور ہر قسم کی زور آزمائی میں ، اسے کبھی کوئی نہ پچھاڑ سکا۔ وہ دیومالائی ہرکولیس جیسا دِکھتا تھا۔ قوت ہی نہیں ، شکل و صورت میں بھی وہ برتر تھا۔شکل و صورت ، سمجھ بوجھ ،جسمانی قوت اور حسب نسب پہ اس کی خوبیاں تمام نہ ہوجاتیں ۔ وہ نرم خو تھا اور ہردلعزیز ۔ سردار کے حکم پر گردن کٹوانا اس خطے میں ایک روایت تھی ، جس سے روگردانی کو بزدلی سمجھا جاتا۔ محمد بن عبد الحمید مستقبل کے ان سرداروں میں سے تھا، جن کا قبیلہ ان سے محبت اور فخر کیا کرتا ہے ۔ وہ سردار ،رعایا جن کے خوف نہیں بلکہ محبت میں اپنے گلے کاٹ دیتی ہے ۔یہ ایک الگ بات کہ اسے کبھی اس کی ضرورت پیش نہ آئی ۔ 
محمد بن عبدالحمید ہمیشہ ہر مسئلے اور ہر پیچیدگی میں سچ ڈھونڈتا رہتا۔ جب وہ اسے پا لیتا توخوشی سے کھل اٹھتا ۔ سچائی کی اس تلاش نے اس کے تعصبات کو روند ڈالا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کے علم و دانش کی دھاک بیٹھ چکی تھی ۔ 
محمد بن عبد الحمید زبیدہ کو پسند کرتا تھا۔ یہ محبت ہوشمند ی کی حدود میں تھی ۔ وہ سردار زادی نہیں تھی ؛البتہ حسب نسب اچھا تھا ۔ کئی نسلوں سے دونوں خاندانوں کی دوستی رشتے داری میں بدلنے جا رہی تھی ۔ابتدا میں زبیدہ بھی اسے پسند کرتی تھی ۔1968ء کے موسمِ سرما میں ، جب اس شادی میں صرف چند ماہ باقی تھے ، یہ افسوسناک خبر سامنے آئی۔ زبیدہ نے شادی سے انکار کر دیا۔اس نے کہا کہ اس کا دل پلٹ چکا ہے ۔ کسی اور کو وہ پسند کرنے لگی ہے ۔ اس نے کہا کہ ایسے میں یہ شادی مجبوری کا سودا ہوگی ۔یہی نہیں ، اس نے اس نوجوان کا نام بھی بتایا ، جسے وہ پسند کرتی تھی ۔ حیرت انگیز طور پر شکل و صورت، قد کاٹھ، دانائی ، حسب و نسب ،جسمانی قوت اور مالی اعتبار سے وہ لڑکا بے حد معمولی تھا۔ محمد بن عبد الحمید کا عشرِ عشیر بھی نہیں ۔اس پر مستزاد یہ کہ وہ بدکردارتھا ۔
صر ف یہ نہیں کہ دونوں خاندان سر پیٹنے لگے ، علاقے کے ہر گھر میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ یہی وہ دن تھے، اس پورے خطے میں یہ فقرہ زبانِ زدِ عام ہو ا ۔ ہر شخص دن میں کئی بار یہ بات کہا کرتا ''زبیدہ نے محمد بن عبد الحمید کی قدر نہ کی ‘‘ وہ بے وقوفی کا استعارا بن گئی ۔ محمد بن عبد الحمید تو ایک ہی تھا، زبیدائیں ہر کہیں ۔ اس نے سب سے پہلا کام تو یہ کیا کہ قتل و غارت کے خوف سے کانپتے زبیدہ کے خاندان کو امان دی ۔ جیسا کہ پہلے کہا، وہ زبیدہ کو پسند ضرور کرتا تھا لیکن یہ محبت عقل کی قید میں تھی ۔ یہ بات اسے خوب معلوم تھی کہ کسی بھی زبیدہ سے وہ شادی کر سکتاہے ۔بات صرف یہ تھی کہ ٹھکرائے جانے پر سرتاپا وہ حیرت میں ڈوب چکا تھا۔چھوٹے موٹے ندی نالے نہیں ، حیرت کے سمندر میں ۔ ادھر دوسری طرف مخلوق کی زبان پر بھی یہ فقرہ جیسے جم سا گیا تھا۔ ''زبیدہ نے محمد بن عبد الحمید کی قدر نہ کی‘‘ ہر روز سینکڑوں دفعہ وہ یہ فقرہ سنتا ۔ زبانیں اگر خاموش ہوتیں تو ہر آنکھ اسی کا ورد کر رہی ہوتی ۔ ہر اگلے دن اس حیرت میں اضافہ ہو تا چلا جا رہا تھاکہ اس جیسے اعلیٰ شخص کو چھوڑ کر دو ٹکے کے ایک شخص کو زبیدہ نے چن لیا تھا ۔ ایک بار اس نے مجھے یہ کہا تھا کہ ہر واقعے، حادثے اور تنازعے میں سے ہمیشہ وہ سچ ڈھونڈ نکالتا تھالیکن اس بار ناکام رہا۔اب بھی اس کا لاشعور زبیدہ کی بے قدری میں چھپی سچائی کھوجتا رہتا تھا۔
محمد بن عبد الحمید کی دادی رات گئے تک قرآنی آیات پڑھتی رہتی تھی ۔ اس روز جب محمد بن عبد الحمید وہاں سے گزر نے لگا تو وہ یہ پڑھ رہی تھی ''وَمَا قَدَرُوا اللَّہَ حَقَّ قَدْرِہِ‘‘ اور انہوں نے اللہ کی قدر ہی نہ کی، جیسا کہ اس کی قدر کرنے کا حق تھا ۔ یہ آیت یہود کے بارے میں تھی لیکن محمد بن عبدالحمید پر وہ بجلی بن کے گری ۔خدا یہ کہتا ہے کہ انہوں نے میری قدر ہی نہ کی ۔ سچائی کی تلاش میں سرگرداں ، اس کا لاشعور اس آیت کی طرف یوں لپکا ، تین دن کا بھوکا روٹی کو۔ اپنے آپ سے اس نے سوال کیا :سردار زادے، خدا کا وجود اگر حقیقت ہے ۔تمام علوم، تمام تخلیقات کا سرچشمہ اگر حقیقت ہے تو زبیدہ کی بے قدری پہ تو حیران کیوں ہے۔ زبیدہ سے بڑا بے قدرا تو تُو خود ہے جو اپنی ان جسمانی و ذہنی خوبیوں پر نازاں ہے ، چند عشروں میں جنہیں زوال پذیر ہو جانا ہے ۔ ازلی سچائی سے بے خبر اور عارضی برتری کی بنا پر متکبر۔ اپنے اس بچپنے پر وہ ہنس پڑا۔وہ خدا کو کھوجنے لگا تواس کے باطن کی آنکھ کھل گئی ۔ اس پہ نور برسنے لگا۔ 
یہی برق تھی ، جو محمد بن عبد الحمید پہ آگری ۔ چند گھنٹوں میں اس کی عمر ہزاروں برس بڑھ گئی تھی ۔ ان لوگوں کا اب کیا کیجیے ، جو یہ سمجھتے ہیں کہ زبیدہ کی بے وفائی نے محمد بن عبد الحمید کو بدل ڈالا۔

 

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں