"FBC" (space) message & send to 7575

ڈارون کا نظریہ ء ارتقا.... (2)

ارتقا کا نظریہ کچھ زیادہ پیچیدہ نہیں ۔ کرئہ ارض پہ زندگی ایک خاص ماحول میں پیدا ہوئی ۔ اس کے بعد آہستہ آہستہ یہ پیچیدہ ہوتی چلی گئی ۔ زمین کی آب و ہوااور مختلف جانداروں کے لیے خوراک کی دستیابی وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی رہی ۔ بدلتی ہوئی صورتِ حال میں، جن جانداروں نے خود کو بروقت بدلا ، نئے حقائق سے جو خودکو ہم آہنگ کرنے میں کامیاب رہے ،ان کی نسل آگے بڑھتی رہی۔ باقی ختم ہوگئے ۔ ایک اندازے کے مطابق کرّہ ء ارض کی تاریخ میں جن پانچ ارب جاندار اقسام نے اس پر آنکھ کھولی، ان میں سے 99فیصد ہمیشہ کے لیے ختم ہو چکیں ۔ خدانخواستہ اگر شیر کرّئہ ارض سے ختم ہو جائیں تو ان 99فیصد ختم ہونے والی انواع میں صرف 1کا اضافہ ہوگا ۔ ڈائنا سار بھی انہی میں سے ایک ہیں ۔ یہ ختم ہونے والی اقسام صرف بھوک اور سردی سے ختم نہیں ہوئیں بلکہ بڑے حادثات بھی ان کا سبب بنے ۔ جیسا کہ بہت بڑے دم دار ستارے کا زمین سے ٹکرا جانا ، عالمگیر آتش فشانی وغیرہ ۔ 
ڈارون کا نظریہ ء ارتقا مکمل طور پر فاسلز پہ انحصار کرتاہے ۔فاسل لاکھوں کروڑوں برس پہلے مر جانے والے جاندار کی باقیات کو کہتے ہیں ، جو چٹانوں او رمٹی میں محفوظ ہو جائیں ۔ جو جاندار زمین سے مٹ چکے ، ان کے مطالعے کے لیے انسانوں کے پاس دو سائنسز ہیں ۔ ایک تو ان کی باقیات کا مشاہدہ ، جنہیں فاسلز کہا جاتاہے ۔ مختلف مراحل سے گزار کر ان کی عمر اور مختلف تفصیلات معلوم کی جاتی ہیں ۔ دوسری سائنس جینز کا مطالعہ ہے ۔ اس میں مردہ اشیا کے خلیات کے اندر کی تفصیل معلوم کی جاتی ہے ۔ ان خلیات کے اندر ڈی این اے میں اس جاندار کے بارے میں معلومات درج ہوتی ہیں ۔
ڈارون نے بڑے پیمانے پر فاسلز کا مشاہدہ کیا۔ اس نے بتایا کہ بدلتے ہوئے ماحول میں جانداروں کے اندر اہم جسمانی تبدیلیاں رونما ہوتی رہیں ۔مسئلہ یہ تھا کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ کرئہ ارض کی ابتدا کے ماحول میں ، جب موسم بے حد شدید ، آسمانی بجلیاں ہر وقت کڑکتی رہتیں ، ایک زندہ خلیہ اس زمین پر وجود میں آیا ۔ بعد میں اس واحد خلیے نے مرنے سے پہلے اپنے جیسے مزید جانداروں کو جنم دیا۔ بڑھتے بڑھتے، ان یک خلوی جانداروں سے کثیر خلوی جانداروں نے جنم لیا ۔ آہستہ آہستہ وہ پیچیدہ ہوتے چلے گئے ؛حتیٰ کہ مچھلی اور رینگنے والے جاندار وجود میں آئے ۔ بعد میں اربوں خلیات والے میمل بنے ؛حتیٰ کہ پرندے اور پودے بنے ؛حتیٰ کہ انسان اور دوسرے پرائیمیٹس (بندر ، چمپینزی وغیرہ ) بنے ۔ یہ سب اگر مان لیا جائے تو مذہبی طبقات نے پوچھا کہ پھر آدم ؑ کی جنت میں پیدائش ، ان کا زمین پر اترنا، وہ سب کہاں گیا ۔ صرف مسلمان ہی نہیں دیگرمذہبی طبقات کو بھی اس پر شدید اعتراضات تھے ۔ آپ کو یاد ہوگا کہ گیلیلی گیلی لیو نے جب یہ بتایا کہ اس نے دوربین سے دیکھا ہے کہ مشتری اور اس کے چاند کرّہ ء ارض کے گرد نہیں گھوم رہے بلکہ مشتری کے چاند مشتری ہی کے گرد گھوم رہے ہیں تو اسے نظر بند کر دیا گیا تھا۔مغرب میں اس وقت مذہبی طبقات (چرچ) کی حکومت تھی ۔ ارسطو اور بطلیموس کے ان نظریات کو انہوں نے مذہبی تحفظ دے رکھاتھا کہ کرّہء ارض کے گرد تمام فلکیاتی اجسام گردش کرتے ہیں ۔ گیلی لیو دورانِ نظر بندی ہی مر گیا تھا لیکن آج جب خلا میں بے شمار سیٹیلائٹس گردش کر رہے ہیں ، بچّہ بچّہ یہ بات جانتاہے کہ گیلی لیو نے درست کہا تھا۔ 
چارلس ڈارون نے سازش نہیں کی ۔ لمبی سفید داڑھی اور صفا چٹ سر والی اس کی تصاویر دیکھیں تو پنجاب کے کسی گائوں میں بابا اللہ رکھا سے مشابہہ وہ نظر آتاہے ۔ وہ وہی بتا رہا تھا، جووہ دیکھ رہا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ مذہبی طبقات نے زمین پر زندگی کی ابتدا کے بارے میں غور کیا تھا ۔انہوں نے قرآنی آیات کو بھی غور سے نہ پڑھا تھا ۔ اس کے علاوہ فاسلز اور ڈی این اے کی سائنسز کا مطالعہ بھی انہوں نے نہیں کیا ۔ یہی وجہ تھی کہ جب مغرب کے سائنسدانوں نے ہمیں ڈائنا سار کے بارے میں بتایا تو ہم نے بخوشی مان لیا۔ جب انہوں نے یہ بتایا کہ موجودہ انسان سے ملتے جلتے انسان پہلے بھی گزرے ہیں تو فوراً ہم نے انکار کر دیا۔ جو لوگ علم رکھتے تھے، ان کا رویہ کسی بھی چیز کو بغیر جانچے پرکھے رد کر نے کاہر گز نہیں تھا۔ حضرت داتا گنج بخش ؒ نے فرما تھا کہ ہر علم میں سے اتنا حاصل کرو ، جتنا خدا کی شناخت کے لیے ضروری ہے ، یعنی ہر علم کی بنیادی چیزیں ۔ ماہر تو خیر انسان ایک یا دو علوم ہی میں ہو سکتاہے ۔ آپ قرآن اٹھا کر دیکھیں ۔ خدا کہتاہے کہ زمین میں گھومو پھرو، جو لوگ تم سے پہلے ختم ہو چکے ، انہیں دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔ خدا کہتا ہے کہ بے شک وہ لوگ جو زمین وآسمان کی تخلیق میں غور کرتے ہیں ۔بار بار وہ اپنی نشانیوں پر غور کرنے کا حکم دیتاہے ۔ دن اور رات کے بدلنے کو بھی نشانی قرار دیتاہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ وہ آپ کو دماغ بند رکھنے، غور و فکر سے اجتناب کا حکم کبھی کسی صورت میں نہیں دے گا۔ ہاں ، البتہ مذہبی طبقات آپ کو اس کا حکم ضرور دیں گے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ وہ خود جن باتوں کا علم نہیں رکھتے ، ان سے خوفزدہ رہتے ہیں ۔ اگران چیزوں پر ان سے سوال کیا جائے تو وہ ان کے بارے میں کوئی جواب نہیں رکھتے ؛لہٰذ ا وہ انہیں سازش کہہ کر ٹال دیتے ہیں ۔ 
سورۃ دہر کی پہلی آیت میں اللہ کہتاہے : بے شک انسان پر زمانے میں ایک طویل وقت وہ بھی گزرا کہ جب وہ کوئی قابلِ ذکر شے نہ تھا ۔ جہاں وہ یہ کہتاہے کہ میں نے انسان کو مٹی سے پید اکیا، وہیں وہ یہ بھی کہتاہے کہ ہر زندہ شے کو میں نے پانی سے بنایا۔ آدمؑ کی مٹی کرّہ ء ارض سے گئی ۔ ایک جانور میں ، شیر میں جس طرح سے دل، گردے، جگر، پھیپھڑے کام کرتے ہیں ، انسان میں انہی اصولوں پر کام کرتے ہیں ۔ پہلے بھی میں نے کہا تھا کہ ایک عظیم خالق اگر ایک سیارے پر زندگی پیدا کرنا چاہے تو کیا وہ اسے اسی سیارے پر پیدا کرے گا یا آسمانوں میں پید اکر کے زمین پہ نازل کرے گا؟ 
آپ نی اینڈرتھل انسان کا جائزہ لیں ۔ میکس پلانک انسٹی ٹیوٹ آف ایو و لوشنری انتھروپالوجی نے اس کے ڈی این اے کی تفصیل شائع کی ہے ۔ میکس پلانک سوسائٹی میں دنیا بھر سے دس ہزار سائنسدان کام کرتے ہیں ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا تھا ، چین کا سائنسدان امریکہ کے سائنسدان کے ساتھ مل کر عالمِ انسانیت کو پاگل بنانے کی سازش ہرگز نہیں کرے گا۔امریکہ کے راز افشا کرنے والے شہری ایڈورڈ سنوڈن کو روس نے پناہ دے رکھی ہے ۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ایک دوسرے کے لیے ان کے کیا جذبات ہیں ۔ ان سب چیزوں کو آپ کھلے دل و دماغ کے ساتھ پڑھیں تو حقیقت آپ پہ خود ہی آشکار ہو جائے گی ۔ خدا نے زمین پر زندگی کا آغاز زمین پر ہی کیا تھا اور اسے آگے بڑھایا ۔ مختلف جاندار پیدا کیے اور پھر ان میں سے ایک کو آزمائش کے لیے چن لیا۔ اس کا نام انسان ہے ۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں