"FBC" (space) message & send to 7575

فاطمہ ہی کیوں ؟

فاطمہ معظم تین برس کی تھی، جب ایک دن اچانک اس نے چلنے سے انکار کر دیا۔ وہ پائوں زمین پہ رکھنے سے ہی انکاری تھی ۔ ان دنوں ہر دل خدشات سے بھرا ہوا تھا مگر زبان اظہار سے قاصر ۔ مختلف معالجوں کے پاس اسے لے جایا گیا۔ ہمت کر کے سفاری ہسپتال کے ڈاکٹر کاشف سے میں نے پوچھا :کہیں یہ پولیو تو نہیں ۔ ''اللہ نہ کرے اسے پولیو ہو ‘‘ ڈاکٹر کاشف نے کہا۔ ''ٹانگوں میں طاقت موجود ہے ۔ بچی ٹانگ ہلا رہی ہے لیکن اس پر وزن ڈالنے سے قاصر ہے ۔‘‘ فاطمہ سے کہا گیا کہ اگر وہ کھڑی ہو جائے تو اسے سامنے دکان سے کھلونے لے کر دئیے جائیں گے ۔ اس نے بہت کوشش کی لیکن پھر گر گئی ۔ اندازہ کیا جا سکتاہے کہ ماں باپ کے دل پہ کیا گزری ہوگی، جن کے صحت مند بچّے نے اچانک چلنے سے انکار کر دیا ہو ۔آخر ڈاکٹر کاشف ہی نے بتایا کہ بچّے پر GBS نامی بیماری کا حملہ ہوا ہے ، ممکنہ طور پر ایک وائرس جس کا سبب بنتا ہے ۔ فوری طور پر اسے ہسپتال داخل کرا کے ڈرپ کے ذریعے وہ تمام ادویات دی جائیں ، جو دی جانی چاہئیں ۔
وہ ہسپتال میں تھی ، جب میں بہت سے کھلونے لے کر وہاں پہنچا۔ اسے ڈرپ پہ ڈرپ لگ رہی تھی لیکن وہ بیٹھی ہوئی تھی ۔ کچھ دیر وہ کھیلتی رہی ، پھر ان کھلونوں کو بیگ میں ڈالنے لگی۔ وہ گھر جانا چاہتی تھی ۔ ڈاکٹر نے بتایا کہ معجزاتی طور پر بیماری ٹانگوں ہی میں رک گئی ۔ اگر یہ اوپر چلی جاتی تو پھر دل اور پھیپھڑوں کو بھی نقصان پہنچاتی ۔ سانس لینے میں مسئلہ ہوتا اور بچّے کا پورا جسم مفلوج ہو سکتا تھا۔ یاد آیا کہ فاطمہ کے دادا جان کو جیسے ہی علم ہوا ، انہوں نے فوری طورپر صدقہ دیا تھا اور صدقہ بلا کو ٹالتا ہے ۔ جی بی ایس میں ہوتا یہ ہے کہ جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام ، جس کا کام جراثیم سے لڑنا ہے ، غلطی سے جسم کی اپنی ہی Nervesپر حملہ کر دیتاہے ۔ Nervesباریک تاروں کی طرح ہوتی ہے اور پورے جسم کی دماغ کے ساتھ خط و کتابت کا کام انہی نے کرنا ہوتاہے ۔ انہی کے ذریعے جسم کو لمس کا احساس ہوتا ہے اور انہی کے ذریعے دماغ جسم کو حرکت میں لاتا ہے ۔ 
کئی روز کے بعد معالجوں نے بتایا کہ جو ادویات دی جانی چاہئیں تھی ، وہ دی جا چکیں۔ اب آپ گھر چلے جائیں ۔امید ہے کہ آہستہ آہستہ وہ خود ہی چلنا شروع کر دے گی ۔ ہم گھر آگئے۔ فاطمہ اب چار ہاتھ پائوں پر چلتی تھی ، جیسا کہ آٹھ نو ماہ کا بچّہ چلتاہے ۔ ایک بار اس نے اپنی بہنوں کو چلتے ہوئے دیکھا تو یہ کہا '' پہلے میں بھی چلتی تھی ‘‘۔ دو تین ہفتے گزرے کہ آہستہ آہستہ اس نے کھڑے ہونے کی کوشش کی ۔ پھر وہ دوبارہ سے چلنے لگی لیکن اب وہ سیدھے پائوں رکھنے کی بجائے ٹیڑھے میڑھے انداز میں رکھتی ہے ۔ پائوں اور ٹانگوں میں طاقت کم ہے ۔ 
ایک روز میں نے دیکھا کہ وہ سنڈریلا جیسا بہت بھاری بھرکم فراک پہلے کھڑی ہے ،جو اس سے سنبھالا نہیں جا رہا۔ ''چاچو!یہ عیشا (بڑی بہن ) کا فراک ہے ‘‘ اس نے مجھے بتایا'' عیشا نے مجھے پکا پکا دے دیا ہے ۔ ‘ ‘ پائوں میں بھی اس نے اپنے پسندیدہ لانگ شوز پہن رکھے تھے ۔بڑی بہنیں عیشا اور عائلہ گھر کے سامنے پڑے بجری کے ڈھیر پر چڑھ رہی تھیں ۔ وہ اس طرف جانا چاہتی تھی لیکن فراک اور جوتے اس سے سنبھالے نہیں جا رہے تھے ۔ میں اسے اٹھا کر لے گیا ۔ پھر وہاں بیٹھا رہا ۔ جب وہ کھیل چکی تو پھر اسے اٹھا کر واپس لے آیا۔ 
اللہ کہتاہے : کسی جان پر میں اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا۔ میں سوچتا رہا کہ فاطمہ کے ساتھ ایسا کیوں ہوا ۔ کسی بچّے کے ساتھ جو مصیبت پیش آتی ہے ، وہ اس سے بڑھ کر والدین کے لیے ہوتی ہے ۔ بچّے کو تو اکثر اس کا احساس ہی نہیں ہوتا لیکن ہم جب فاطمہ کو چلتا ہوا دیکھتے ہیں تو ہمارے دل پگھل جاتے ہیں ۔ آہستہ آہستہ میں نے نوٹ کیا کہ فاطمہ کی کچھ منفرد خصوصیات ہیں ۔ تینوں بہنوں کو جتنی بار بھی میں کھلونوں کی دکان میں لے کر گیا ، ہمیشہ اس نے اپنا کھلونا جلدی سے منتخب کیا ۔ اس کے بعد دوسرے بچّوں کے برعکس وہ ذرا سا بھی کنفیوژ نہیں ہوئی ۔ کبھی اس نے ایک کھلونا رکھ کر دوسرا نہیں اٹھایا۔ گاڑی میں ہمیشہ وہ اگلی سیٹ پر بیٹھتی ہے ۔وہ جھگڑالو نہیں لیکن بڑی بہنوں کو آخر کار اس نے پچھلی سیٹ پر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے ۔ اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ فیصلہ سازی میں طاق ہے ۔ ایک بہت عمدہ Decision makerدماغ رکھتی ہے ۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ زیادہ تر لوگ جس سے محروم ہوتے ہیں ۔ زیادہ تر لوگ زندگی بھر کنفیوژن کا شکار رہتے ہیں ۔ 
دوسری بات یہ کہ وہ بہت نفیس طبیعت کی مالک ہے ۔ اس کے کپڑوں پر پانی کا ایک قطرہ بھی گر جائے تو وہ انہیں بدلنے پر اصرار کرتی ہے ۔دن میں کئی باراس کے کپڑے تبدیل کرنا پڑتے ہیں ۔ ایک روز میں چھت پر گیا ۔ وہاں دوسرے چار بچّے اینٹوں سے کھیلنے میں مصروف تھے ۔ ایک جگہ سے اٹھا کر انہیں دوسری جگہ رکھ رہے تھے ۔ میں نے دیکھا کہ فاطمہ نے ایک پلیٹ میں سٹرابیری اور کیلے رکھے ہوئے ہیں اور انہیں کھا رہی ہے ۔غالباً انہیں کھا لینے کے بعد وہ دوسرے بچّوں کے ساتھ کھیلتی ۔ ایک روز تینوں بہنوں کو میرے ساتھ گاڑی میں کہیں جانا تھا۔ اس نے دھوپ میں کھڑی گاڑی دیکھی اور یہ کہا ''چاچو میں آپ کی گودی میں بیٹھ جائوں ؟ سیٹ گرم ہے۔‘‘پھر یہ فاطمہ ہی تھی ، جس نے پلاسٹک کا ایک گڈا پالا۔ اس کا نام مَنُو رکھا ۔ اب جب اس نے کچھ کھانا ہوتا تو کہتی : ماما منّو کو بھوک لگی ہے ...
جب میں اسے چلتے ہوئے دیکھتا ہوں تو غمزدہ ہو جاتا ہوں لیکن پھر میں اس کا دماغ دیکھتا ہوں اور مجھے تسلی ہوتی ہے ۔ اس آزمائش سے انشاء اللہ وہ گزر جائے گی ۔ 
ڈیک:جی بی ایس میں ہوتا یہ ہے کہ جسم کا قدرتی مدافعاتی نظام ، جس کا کام جراثیم سے لڑنا ہے ، غلطی سے جسم کی اپنی ہی Nervesپر حملہ کر دیتاہے ۔ Nervesباریک تاروں کی طرح ہوتی ہے اور پورے جسم کی دماغ کے ساتھ خط و کتابت کا کام انہی نے کرنا ہوتاہے ۔ انہی کے ذریعے جسم کو لمس کا احساس ہوتا ہے اور انہی کے ذریعے دماغ جسم کو حرکت میں لاتا ہے ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں