"FBC" (space) message & send to 7575

حساب

حیرت سے لوگوں نے دیکھا کہ 80 سے 90 سال کی عمر کے وہ بوڑھے دوست، موت کے خوف نے جنہیں مرنے سے پہلے ہی مار دیا تھا، پہلی بار پرسکون بیٹھے تھے۔ وہ کیک کاٹ رہے تھے ، خوشیاں منا رہے تھے۔ بچوں کی طرح تالیاں پیٹ رہے تھے۔ 
70 سال کا عرصہ کم نہیں ہوتا۔ وہ سکول کے زمانے سے دوست تھے۔ ایک ساتھ تعلیم حاصل کی۔ اکٹھے کھیلے کودے۔ نوکریاں کیں۔ اپنے اپنے شعبے میں اچھی کار کردگی کا مظاہرہ کیا۔ پھر ایک دوسرے کے سامنے ان کی شادیاں ہوئیں ۔ بچّے پیدا کیے۔ پچیس تیس برس بعد پھر بچّوں کی شادیاں کیں۔ پوتوں ، نواسوں سے کھیلنے لگے۔ آخر وہ وقت آیا کہ ایک ایک کرکے وہ سب ناکارہ ہونے لگے۔ کسی کی ٹانگیں جواب دے گئیں، کوئی بلند فشارِ خون کا مریض بن گیا۔ ایک کی آنکھیں ختم ہو گئیں۔ دنیا میں جو کچھ انہیں کرنا تھا ، کر لیا۔ پانچوں دوست اب موت کا انتظار کر رہے تھے۔ جوانی میں جب اکٹھے ہو کر ہنسی کھیل کرتے تو زمانہ رشک کرتا۔ اب شام کو اکٹھے ہو کر گرتے پڑتے جب وہ پارک میں پہنچتے تو عبرت کا نظارہ ہوتے۔ اگلی دنیا میں ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا، یہ سوال ان کے اعصاب پہ ہتھوڑوں کی طرح برستا۔ اس بچّے کی طرح ، جس نے چھٹیاں ضائع کر دی ہوں۔ اب سکول کھلنے والا ہو اور کام ادھورا۔
مل بیٹھ کر وہ سوچتے، ایک دوسرے کو تسلیاں دیتے ۔ سچّی بات تو یہ تھی کہ بنیادی طور پر وہ شریفانہ مزاج رکھتے تھے ۔ قتل ، چوری وغیرہ سے دور ہی رہے ۔ کبھی دنیاوی کاموں میں مصروف رہتے ۔ خدا کو یاد بھی کرتے لیکن عبادتیں بہت کم تھیں، نامکمل اور نقائص سے بھرپور۔ خدا کی رحمت کا تذکرہ ہوتا تو وہ پرسکون ہو جاتے ۔ جب وہ سزا اور عذاب کی آیات سنتے تو کانپ اٹھتے ۔ ہاں، ان میں سے ایک مختلف تھا۔ ہر وقت وہ ایک گہری سوچ میں ڈوبا رہتا ۔ پھر کاغذ پر کچھ لکھنے لگتا۔ لڑکپن اور جوانی سے وہ گہرے غور و فکر کا عادی تھا ۔ ایک روز انہوں نے اس سے پوچھا : خدا بخش کیا تجھے موت کا خوف نہیں ہے ۔ کس چیز نے تجھے اطمینان دلایا ہے ؟
خدا بخش نے یہ کہا : فرض کرو ایک بہت بڑا بادشاہ کسی شخص کو کچھ ذمہ داریاں سونپ کر ایک جاگیر میں بھیجتا ہے اور یہ کہتا ہے کہ ایک سال بعد وہ حساب لے گا کہ اس نے ٹھیک کام کیا یا نہیں۔ بادشاہ ایسا کہ بخشنے پر آئے تو ہر چیز بخش دے اور حساب لینے پر آئے تو کسی کو بچ نکلنے کا راستہ نہ ملے ۔ ایسا باخبر کہ اس شخص کی ایک ایک حرکت ، اس کا ایک ایک سانس اس کے علم میں ہو ۔ اب سال کے بعد وہ اسے بلاتا ہے ۔ اسے کہتا ہے کہ تو نے دو کام ٹھیک کیے، چار کام غلط کیے ۔ اب تجھے سزا ملے گی ۔ یہی وہ صورتِ حال ہے نا ، ہم جس سے دوچار ہیں ؟ سب نے سر ہلایا ۔
خدا بخش نے کہا : یہاں تک تو سب سمجھ آتا ہے لیکن اب فرض کرو کہ وہ بادشاہ اپنے سب سے بڑے وزیر کو بلاتا ہے، جس کی کوئی بات بھی وہ ٹالتا نہیں۔ اپنے اس وزیر سے اسے شدید محبت ہے ۔ یہ وزیر سب سے بڑا سچ بولنے والا ہے۔ اب وہ اپنے اس محبوب وزیر کو کہتا ہے کہ وہ اس مجرم کا وکیل بن جائے اور اس کی جاں بخشی کی درخواست کرے ۔ وزیر بھی ایسا کہ اس کا دل مجرم کے لیے محبت سے لبریز ہو اور جب تک وہ اسے معافی دلوا نہیں دیتا ، تب تک وہ سفارش کرنا نہ چھوڑے اگر ایسا ہو تو پھر تم کیا کہتے ہو ؟ 
وہ چاروں کہنے لگے کہ اگر بادشاہ اپنے سب سے قریبی وزیر کو بلا کر اسے ملزم کی جاں بخشی کی درخواست کرنے کا کہے تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ بادشاہ اصل میں سزا نہیں دینا چاہتا بلکہ وہ ملزم کو معاف کرنا چاہتا ہے ۔ خدا بخش نے کہا: ہم ہیں وہ ملزم، جس نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں۔ اللہ وہ بادشاہ ہے۔ وہ حساب لیتا ہے ، یہاں تک تو بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اب اس نے رحمۃ اللعالمینؐ کو تخلیق کیا۔ ان سے محبت کی اور پھر انہیں ہماری شفاعت کا فرض سونپ دیا۔ رحمۃ اللعالمینؐ ایسے کہ ایک ایک امّتی کے لیے اگر زمانوں سفارش کرنی پڑے تو کرتے رہیں۔ اس صورتِ حال میں مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ چکر کوئی اور ہے۔ 
وہ چاروں حیرت سے پوچھنے لگے کہ کیا چکر ہو سکتا ہے۔ خدا بخش نے کہا: میرے دوستو! ہم ساری عمر بھی عبادت میں مشغول رہتے تو کتنی عبادت کر لیتے ۔ ہمارے کمزور جسم، بھوک ان سے برداشت نہیں، بیماری ان سے برداشت نہیں ۔ اپنی زندگی کا ایک چوتھائی تو ہم نے سو کر گزار دیا ۔ دن میں آٹھ آٹھ گھنٹے ہم دفتروں میں کام کرتے رہے۔ ادھر اوپر عبادت کرنے والے دیکھو ، جو نور کے بنے ہیں ۔ وہ تھکتے ہیں اور نہ سوتے ہیں۔ ہر وقت عبادت میں مشغول رہتے ہیں۔ پھر ہماری خواہشات ، عورت کی خواہش، دولت کی خواہش ، اولاد کی خواہش ...
ان میں سے ایک کہنے لگا : تو پھر اس زندگی کا مقصد کیا تھا ؟ خدا بخش نے کہا 
گو میں رہا رہینِ ستم ہائے روزگار 
لیکن ترے خیال سے غافل نہیں رہا
دماغ استعمال کرنا، جو کائنات کی سب سے نفیس مشین ہے۔ خدا کی نشانیاں دیکھنا، اس کی تعریف بیان کرنا۔ اسے یاد کرتے رہنا۔ یہ مقصود تھا۔ اگر خدا یہ کہتا کہ جائو دنیا میں عیاشی کرو۔ تم سے آخر میں کوئی باز پرس نہیں ہو گی تو کائنات کی تخلیق کا مقصد ہی ختم ہو جاتا۔ مقصد تھا، خواہشات اور مشکل صورتِ حال (situations) میں پھنسے ہوئے انسان کی طرف سے نیکی کی کوشش۔ اگر غور کرو تو اللہ نے اشاروں میں ساری بات ہمیں سمجھا دی ہے ۔ وہ کہتاہے کہ نزع کا عالم طاری ہونے سے پہلے، 70 برس کے گناہ میں ایک توبہ سے مٹا دوں گا۔ کبھی فرماتا ہے کہ میں گناہوں کو نیکیوں سے بدل دوں گا۔ پھر کہتا ہے کہ توبہ کرنے والوں سے میں محبت کرتا ہوں۔ دنیا بھر میں غلطی ماننے والے کو اگر سزا نہ دی جائے تو زیادہ سے زیادہ معاف کر دیا جاتا ہے ۔ یہ تو کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی غلطی کرکے معافی مانگنے والے سے محبت کر رہا ہو۔ رہا عذاب تو وہ ان کے لیے ہے ، جو گناہ کرتے ہیں ، پھر اس پہ ڈٹ جاتے ہیں ۔ اپنے گناہوں پر فخر کرتے ہیں ۔ ایسوں کے لیے کوئی معافی نہیں۔ ابلیس کا حال ہمارے سامنے ہے۔
بوڑھوں کے سر سے جیسے بوجھ اتر گیا۔ بہت طویل عرصے بعد انہیں بھوک محسوس ہوئی ۔ انہوں نے کیک منگوایا اور خوشی منانے لگے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں