"FBC" (space) message & send to 7575

بے یقینی

ملزم قربان علی کٹہرے میں کھڑا تھا ۔اس کی خود اعتمادی کا عالم یہ تھا کہ کوئی وکیل منتخب کرنے کی ضرورت اس نے محسوس نہ کی ۔ عدالت کی طرف سے اجازت ملنے پر اس نے بولنا شروع کیا۔ اس نے کہا ''می لارڈ ، مجرم میں نہیں ، یہ معاشرہ ہے ۔ میں فقط اسے آئینہ دکھانے کا مرتکب ہوا ہوں ۔ کرسیوں پر بیٹھے یہ لوگ ، میرا گلا گھونٹ کے درحقیقت اپنے ضمیر کو قتل کرنا چاہتے ہیں ۔میں دھوکہ دہی کا مجرم نہیں ۔ میں نے کسی کی جائیداد نہیں ہتھیائی۔ کوئی قتل نہیں کیا ۔ میں صرف سچ بولنے کا مجرم ہوں ۔ ان لوگوں کے اندر کی منافقت میں نے آشکار کر دی ہے ۔ اب وہ سب مجھے پھانسی کے پھندے پر لٹکتا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ ‘‘ 
عدالت میں سنّاٹا طاری تھا۔ اس کی وجہ اس مقدمے کی منفرد نوعیت تھی ۔ کئی شہروں میں قربان علی کے خلاف مظاہرے ہوئے تھے۔ میڈیا اس مقدمے کو غیر معمولی اہمیت دے رہا تھا ۔ قربان علی بولتا رہا۔ اس نے کہا ''میں، قربان علی ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ۔ کم سنی میں میرے والدین ایک ٹرین حادثے میں جاں بحق ہوئے ۔ غربت اور اس پر یتیمی۔لڑکپن ٹھوکروں میں گزرا ۔ چھوٹی موٹی ملازمت کر کے اپنا پیٹ پالتا رہا ۔ اٹھارہ برس کا ہوا تو کچھ رشتے داروں نے ترس کھا کر لیبر ویزے پر مجھے متحدہ عرب امارات بھجوا دیا ۔ غربت اور یتیمی کے بعد اب غریب الوطنی میرا مقدر تھی ۔ بس ایک خواب تھا کہ شاید کبھی ایک سفید پوش زندگی نصیب ہو ۔ یہ خواب دیکھتے دیکھتے میں چالیس کے پیٹے میں پہنچ گیا ۔ ‘‘ قربان علی نے کہا '' یہ پسِ منظر سمجھنا عدالت کے لیے ازحد ضروری ہے ۔‘‘ اس نے کہا ''صحرا کے بیچوں بیچ میری رہائش تھی ۔ دوردراز سے آنے والے قافلوں کو خوراک مہیا کرنا اور پانی پلانا میری ذمہ داری تھی ۔ راستہ بھٹک جانے والوں کو میں نقشہ اور سمت نما مہیا کرتا۔ ایک دوپہر ایک ایسے عرب شیخ سے میرا سامنا ہوا، جسے اچانک دل کی تکلیف ہوئی تھی ۔ کروڑوں روپے کی اس کی گاڑی بیکار تھی کہ وہ خوداسے چلانے کے قابل نہیں تھا اور مجھے ڈرائیونگ آتی نہ تھی۔ پیدل سفر کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا ۔ تین گھنٹے اسے اپنی کمر پر لاد کر میں چلتا رہا؛حتیٰ کہ آبادی آ گئی ۔ وہاں اسے طبی امداد میسر آئی ۔ میں وہاں سے چلا آیا اور اسے بھول گیا ۔ اس نے مجھے یاد رکھا ۔ دو ماہ بعد کچھ لوگ مجھے لینے آئے۔ مجھے اس عرب شیخ کے پاس لے جایا گیا ۔ اس نے مجھے گلے سے لگایا ۔اس نے کہا کہ میں نہ ہوتا تو صحرا میں وہ مر جاتا۔ اپنی جائیداد کا چالیسواں حصہ اس نے میرے نام کر دیا ۔یہ چالیسواں حصہ اتنا تھا کہ اپنے وطن کے حساب سے میں ارب پتی ہو چکا تھا ۔ ‘‘
اس نے کہا ''اب میں وطن واپس آیا۔ ایک کے بعد دوسرا کاروبار شروع کیا۔ میری دولت بڑھنے لگی ۔سب لوگ مجھے جاننے لگے ۔ معاشرے کی فلاح کے لیے ، میں کوئی انوکھا کام کرنا چاہتا تھا ۔ میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا۔ میں نے اعلان کیا کہ مجھے10لوگوں کی تلاش ہے ، جو قسمت آزمانا چاہیں ۔ ان 10لوگوں کو میں پانچ سال تک شدید سختیوں سے گزاروں گا۔ ان سے خوب کام لوں گا۔ جلتی ہوئی ریت پر انہیں ننگے پائوں چلوائوں گا۔ان سے وزن اٹھوائوں گا۔ سردی میں ان سے برفیلے پانی میں تیراکی کروائوں گا ۔ دن میں بیس بیس گھنٹے انہیں کام کرنا ہوگا ۔ انہیں اپنے اہلِ خانہ سے ملنے کی اجازت نہیں ہوگی۔جو اس آزمائش میں کامیاب رہا، اسے میں ایک عالیشان محل تعمیر کرکے دوں گا۔ بہترین گاڑیاں ، اناج کے گودام ، پھلوں کے باغات ،دنیا بھر میں سفر اور سیاحت کے مواقع ، اس کی اور اس کے اہلِ خانہ کی زندگی بھر کی ضروریات ، ہر اعلیٰ سے اعلیٰ سہولت کا وعدہ لیکن آزمائش اور تکلیف کے یہ پانچ سال بہت سخت ہوں گے ۔ بس دیکھنا کیا تھا ، لوگ شہد کی مکھیوں کی طرح میری طرف جھپٹے۔ ہر ایک چاہتا تھا کہ اسے آزمائش کے لیے منتخب کیا جائے ۔ لوگ جلوس نکالنے لگے ۔ انہوں نے اپنے گریبان پھاڑ لیے ۔ ہر ایک آزمائش کے لیے بے چین تھا۔ سب کو معلوم تھا کہ میں ایک معزز کاروباری شخص ہونے کے ناتے اپنا وعدہ ایفا کروں گا۔ پانچ سال کے لیے ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لیے وہ تیار تھے ۔بڑھتے بڑھتے امیدواروں کی تعداد ہزاروں سے بڑھ کر لاکھوں اور پھر دسیوں لاکھ تک پہنچ گئی ۔ میرے گھر کے باہر انہوں نے خیمے گاڑ لیے اور کہنے لگے ،ہمیں آزمائو ، ہمیں آزمائش سے گزارو۔ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے لیے ایک اعلیٰ زندگی کے لیے وہ ہر قسم کی تکلیف برداشت کرنے کے لیے تیار تھے۔ ایک شخص نے تو مجھے یہ کہا کہ میں اسے پانچ کی بجائے دس سال کے لیے آزمائوں۔ اسے دو گنا تکلیف سے گزاروں اور دو گنا انعام دوں ‘‘۔ 
قربان علی نے کہا ''ان سب کو میں نے اکھٹا کیا اور ان سے یہ کہا کہ ایک معمولی انسان کے اس وعدے پر کہ پانچ سال کی تکلیف کے بعد تمہیں آسائشوں سے نواز دیا جائے گا، تمہاری سب تکلیفیں ختم ہو جائیں گی، تم اپنا آپ قربان کرنے کو تیار ہو ۔ کیا یہی وعدہ خدا نے نہیں کیا کہ تمہیں 70، 80سال تکلیف دہ زندگی گزارنا ہوگی ۔ اس کے بعد تمہیں ہر قسم کی آسائش ملے گی۔ پھل خودبخود تمہاری گود میں گریں گے ۔ تمہیں مکمل صحت، سکون، ہمیشہ کی زندگی ،ہمیشہ کی جوانی ، نیک اور خوبصورت شریکِ حیات ، ہر شے تمہیں ملے گی۔ تمہاری جائیداد (جنت) اتنی بڑی ہوگی کہ یہ زمین و آسمان اس کے اندرسما جائیں گے ۔ میں ایک غریب پسِ منظر کا شخص ہوں ، جسے کوئی جانتا بھی نہ تھا ۔ آج دولت اور شہرت مجھے نصیب ہوئی تو سب لوگ میرے وعدے پر یقین کرنے لگے ۔ اُس خدا کے وعدے پر تم اپنا آپ قربان کرنے پر کیوں تیار نہیں؟خدا نے جو آزمائش تمہارے لیے منتخب کی، اس پر واویلا کیوں کرتے ہو؟ جس حال میں خدا تمہیں رکھتا ہے ، اس پر شکر کیوں ادا نہیں کرتے ؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ تمہیں خدا کے وجود کایقین ہی نہیں ۔ مجھے ایسا ہی لگتاہے کہ ہم سب کو اس کے وجود کا یقین نہیں ۔ اگر یقین ہوتا تو ہم کہتے کہ ہمارے رب ہمیں جیسے چاہے آزما ۔اگر تمہیں اس کے وجود پر یقین ہوتا تو تم ایک دوسرے کی گردن نہ کاٹتے ۔ ادنیٰ مفادات کے لیے ایک دوسرے کا خون نہ بہاتے ۔ بس اتنی سی بات تھی ۔ اس پر یہ لوگ اپنی غلطی ماننے کی بجائے میرے خلاف عدالت میں چلے آئے کہ میں ان کے ساتھ دھوکہ دہی کا مرتکب ہوا ہوں ۔ میں نے کسی کی جائیدا د نہیں ہتھیائی ، نہ کوئی قتل کیا۔ میں نے تو انہیں عقل کی بات بتائی ہے ۔ ‘‘
جج حیران تھے کہ فیصلہ کس کے خلاف کریں ۔ اس شخص کے خلاف ، جس نے ایک جھوٹا وعدہ کر کے ، ایک بہت بڑی سچائی سے انہیں روشناس کرایا تھا یا ان کے خلاف جو خدا کے سچے وعدے پر یقین کرنے کو تیار نہ تھے ۔انہوں نے بہتر یہی سمجھا کہ مقدمے کی سماعت غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیں ۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں