افغان جنگ اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے ۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پاکستان پر الزامات اس فلم کا آخری شو ہیں ۔پندرہ سال پہ محیط اس جنگ کے نتائج انتہائی حیران کن اور ناقابلِ یقین ہیں۔امریکہ ہار چکا ہے ، افغانستان (ہمیشہ کی طرح )عدم استحکام کا شکار ہے ، جب کہ پاکستان جو کہ 2009ء میں بڑی تباہی کا شکار ہونے جا رہا تھا، اب استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے ۔ امریکہ نے افغانستان میں القاعدہ کو تقریباً ختم کر دیا ہے لیکن مقامی طالبان کے ہاتھوں اسے شکست ہوئی ہے ۔افغانستان میں سوویت جنگ کی طرح ، جب سوویت یونین ایک طرف اور امریکہ سمیت دنیا کے بیشتر ممالک دوسری طرف کھڑے تھے، پاکستان ایک بار پھر بچ نکلا ہے ۔افغانستان میں تعینات امریکی فوجیوں کی اکثریت واپس جا چکی ہے ۔ بلوچستان کی افغانستا ن سے جڑی 1100کلومیٹر طویل سرحد پر خندق کھو ددی گئی ہے ۔ پختون خوا اور قبائلی سرحدوں پر نگرانی بہتر بنائی جا رہی ہے ۔ ملک بھر میں خودکش حملوں کی تعداد میں ناقابلِ یقین حد تک کمی واقع ہوئی ہے ۔سوات، جنوبی اور شمالی وزیرستان سمیت ، جہاں کہیں دہشت گردوں نے اپنی متوازی حکومت قائم کی ، اسے فوجی آپریشن کے ذریعے ختم کر دیا گیا۔ جب کہ افغانستان اور عراق سمیت ، دہشت گردی کے شکار دیگر ملکوں میں بڑے شہروں پر دہشت گردوں کی حکومتیں قائم ہیں ۔ بلوچستان ، جہاں ایک عشرہ قبل علیحدگی کی تحریکیں سر اٹھا رہی تھیں ، وہاں اب حالات بڑی حد تک پرسکون ہیں ۔ ایم آئی سکس اور ''را‘‘ کی مدد سے لسانی بنیادوں پر ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی میں جاری عشروں کی بد امنی ختم ہو چکی ہے ۔
کوئی شک نہیں کہ جنگ کے اختتام پر امریکہ کی طرف سے پاکستان میں حملوں کی دھمکی پاکستان کے لیے ایک نازک اور خطرناک صورتِ حال کو جنم دے رہی ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکی قیادت انتہائی کنفیوژ ہے ۔ افغانستان میں امریکی فوج کے کمانڈر جنرل جان نکلسن کا بیان پڑھیے۔ ایک ہی سانس میں وہ پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانوں ، کوئٹہ اور پشاور شوریٰ کی موجودگی کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اسی سانس میں وہ یہ کہتے ہیں'' پاکستانی سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کے خلاف جنگ بہت بہادری اور حوصلے سے لڑی ۔‘‘ جنرل جان نکلسن ہی نہیں ، ہر امریکی جنگی کمانڈر اورہر امریکی سیاسی و حکومتی عہدیدار اسی قسم کے دو رخی بیانات جاری کر رہا ہے ۔ ایک میں پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف، اس کے فوجیوں کی بہادری کا اعتراف اور دوسری طرف پاکستان کی طرف سے دہشت گرد گروہوں ، بالخصوص حقانی نیٹ ورک کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ پاک امریکہ تعلقات تاریخ کے نازک ترین موڑ پر پہنچ چکے ہیں ۔ موجودہ صورتِ حال میں ساری سنگینی کے باوجود وہ نومبر2011ء جتنے خطرناک نہیں ۔ اس وقت ، جب امریکی فوج نے حملہ کر کے سلالہ میں دو درجن پاکستانی فوجیوں کو شہید کر دیا تھا ۔ اس کے نتیجے میں امریکی فوج سے شمسی ائیربیس خالی کرایا گیا اور نیٹو سپلائی آٹھ ماہ تک مکمل طور پر بند رہی ۔یہ وہ دور تھا، جب ہلیری کلنٹن ، رچرڈ ہالبروک اور جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سمیت چار بڑے امریکی عہدیداروں سے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مسلسل تلخ کلامی ہوتی رہی ۔ بالآخر وہ انہیں باور کرانے میں کامیاب ہوئے کہ پاکستان افغانستان میں امریکی شکست کا ذمہ دار نہیں بلکہ افغانستان میں امریکی جنگی و سیاسی پالیسی مکمل طور پر ناقص تھی ۔ جولائی 2012ء میں بالاخر ہلیری کلنٹن نے پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر معذرت کر لی تھی ۔
آج صورتِ حال نسبتاً کم خطرناک ہے ۔اس لیے بھی کہ امریکہ کا سب سے بڑا مطالبہ شمالی وزیرستان آپریشن تھا۔ جون 2014ء سے شروع ہونے والے اس آپریشن کے نتیجے میں شمالی وزیرستان پر امریکی ڈرون حملے تقریباً مکمل طور پر ختم ہو چکے ہیں ۔ یاد رہے کہ شمالی وزیرستان ہی 95فیصد امریکی ڈرون حملوں کا ہدف ہوا کرتا تھا۔
یقیناً پاکستان اپنی سرحدوں کو مکمل طور پر سیل نہیں کر سکا ۔ دہشت گرد آج بھی سرحد کے دونوں اطراف کارروائیاں کرتے ہیں ۔2006ء میں جنرل پرویز مشرف نے ایک منصوبہ پیش کیا تھا۔ اس کے تحت پاک افغان سرحد کو باڑ اور بارودی سرنگو ںکے ذریعے مکمل طور پر بند کیا جانا تھا۔ افغان صدر حامد کرزئی نے اس کی شدید مخالفت کی اور بالآخر امریکہ نے اس منصوبے کو ختم کر دیا ۔ بلوچ افغان سرحد پر گیارہ سو کلو میٹر خندق اس کے بعد کھودی گئی ۔
2009ء کی نسبت آج اگر پا ک امریکہ تعلقات کو زیادہ نازک کہا جا سکتاہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ پر ذہنی طور پر عدم استحکام کا شکار ایک شخص حکمران ہے ، جو کسی بھی وقت کچھ بھی کر سکتا ہے ۔ اس صورتِ حال میں سی آئی اے اور پینٹا گان دنیا بھر میں اپنے ان اہداف کو حاصل کرنے کا ہدف رکھتی ہیں ، جنہیں صدر اوباما یا کسی بھی معقول حکمران کی موجودگی میں حاصل نہ کیا جا سکتا ۔ کوئی بھی انتہائی قدم اٹھایا جا سکتاہے ۔ امریکی طیارے پاکستان کے اندر کارروائی کر سکتے ہیں لیکن اس کے نتائج انتہائی خطرناک ہوں گے ۔ پاکستان بھر میں امریکہ مخالف مظاہرے شروع ہو جائیں گے ۔ نیٹو سپلائی بحال رکھنے کی کوئی صورت باقی نہ رہ جائے گی ۔نیٹو سپلائی کی ضرورت آج بھی اسی طرح برقرار ہے ۔پاکستان مجبور ہے ، امریکہ اس سے زیادہ مجبور ۔
پاکستان کو جس سب سے بڑے دفاع (defence)کو اختیار کرنا چاہیے ، وہ یہ ہے کہ بھارت نے پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی صلاحیت کو بری طرح متاثر کیا ہے ۔ کم و بیش آدھی پاکستانی فوج ہر وقت بھارتی سرحد کی طرف تعینات ہوتی ہے ۔ جون 2014ء میں شمالی وزیرستان آپریشن شروع ہونے کے بعد ایک سال تک مشرقی سرحدوں پر شدید گولہ باری جاری رہی ۔ بلوچستان اور کراچی میں تعیناتی کے بعد پاکستان کے پاس اتنی سپاہ باقی نہیں رہتی کہ پاک افغان سرحد کو بند کیا جا سکے ۔ افغان آرمی پر سالانہ 11.6ارب ڈالر ضائع کیے جا رہے ہیں ۔ دنیا اگر پاکستانی سپاہ کی تعداد میں دو لاکھ نفوس کے اضافے اور اس کے بجٹ میں تین ارب ڈالر سالانہ اضافے پر کام کرتی تو پاک افغان سرحد پر ایک چیونٹی بھی سرحد پار نہ کر سکتی لیکن اس صورت میں خطے میں امریکی چوکیدار بھارت کی ماں نہ مر جاتی ؟ یہ امر بھی حیران کن ہے کہ 600ارب ڈالر سالانہ کا دفاعی بجٹ رکھنے والا امریکہ بہادر 8ارب ڈالر بجٹ رکھنے والی پاکستانی فوج سے ناراض ہے کہ وہ دہشت گردوں کی آمدرفت نہیں روک سکا۔ دوسری طرف افغانستان میں صورتِ حال یہ ہے کہ ریاست کے صرف نصف حصے پر افغان فورسز کا حکم نافذ ہوتا ہے ۔
امریکی ناراضی کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ پاکستان اس جنگ میں مکمل بربادی سے بچ نکلا ہے ۔ اس کی فوج انتہائی سخت تربیت سے گزر کر کندن ہو گئی ہے ۔ چینی معیشت کے فروغ میں سی پیک کے ذریعے وہ اضافہ کرنے جا رہا ہے ، بلومبرگ کے مطابق جو 2026ء تک امریکہ سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے ۔ خود پاکستان کا امریکہ پر انحصار ختم ہونے جا رہا ہے ۔ پاکستان اور امریکہ، دونوں کی قیادت جانتی ہے کہ الزام کچھ اور ہے ، ناراضی کی اصل وجہ کچھ اور ۔ دونوں شف شف بولنے پر مجبور ہیں ، شفتالو نہیں کہہ سکتے ۔