"FBC" (space) message & send to 7575

امریکہ پاکستان سے کیا چاہتا ہے ؟

افغان جنگ میں امریکی حکمتِ عملی اورا س کے نتائج پر غور کیجیے تو اکثر مجھے اپنا دوست قمر داد یاد آجاتا ہے ۔ قمر داد کے سر پہ بھی جب تک ڈنڈا پڑ نہیں جاتا تھا، تب تک اسے اندازہ نہیں ہو تا تھا کہ جھگڑا شروع ہو چکا ہے ۔افغانستا ن میں امریکی پالیسی اور پاکستان کے ساتھ اس کے روّیے میں اس قدر تضادات ہیں کہ اوسط سمجھ بوجھ کا کوئی بھی شخص حیران رہ جائے ۔ پھر عالمی طاقت اس ضمن میں پاکستان پر دبائو بڑھاتی کیوں چلی جارہی ہے ؟ سازشی تھیوریز پر یقین نہ رکھنے کے باوجود میں اب سنجیدگی سے یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ افغان جنگ کا اصل ہدف طالبان کی جنگی شکست نہیں بلکہ کچھ اور ہے ۔پاکستان ، افغانستان ، بھارت اوردوسرے فریقین کے لیے اب یہ ایک کھلا راز ہے ۔ایسا راز ، کھل کے کوئی بھی جس کااظہار نہیں کر سکتا ۔
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے افغانستان میں غلطیاں کیں اور ان کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں ، ان کی خدمت میں کچھ سوالات : 
پاکستان کا کیا قصور تھا 1۔ اگر سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی ۔ 2۔امریکہ نے اگر القاعدہ بنائی ۔ 3۔اگر سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد اچانک امریکہ القاعدہ جنگجوئوں کو ان کے حال پر چھوڑ کر فرار ہو گیا ۔4۔ نائن الیون میں پاکستان کا قصور کیا تھا؟ 5۔ ملا عمر نے اگر اسامہ بن لادن کو امریکہ کے حوالے نہیں کیا ۔6۔ امریکہ نے افغانستان پر چڑھ دوڑنے کا ارادہ کیا ۔ پاکستان تو حالات کے دھارے میں بہتا چلا جا رہاتھا۔ ان حالات میں آج اگر پاکستان قائم و دائم ہے تو یہی سب سے بڑی کامیابی ہے ۔ 
نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکی جنگی پالیسی مکمل طور پر ناقص تھی ۔ اس قدر ناقص کہ سات سو ار ب ڈالر اور ہزاروں جانیں لٹانے کے باوجود اب تک ٹھینگا ہی امریکہ کے ہاتھ آیا ہے ۔سوویت یونین کے خلاف ایک عشرے تک افغان سرزمین پر عالمی جنگجوئوں کی اس نے سرپرستی کی تھی ۔ القاعدہ نے اسی دور میں افغانستان میں اپنے قدم جمائے ۔ امریکہ اس بات سے بخوبی واقف تھا کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اڑھائی ہزار کلومیٹر طویل پاک افغان سرحد کے دونوں اطراف کچھ قبائل برسرِ جنگ رہیں اور کچھ لا تعلقی اختیار کریں ۔ امریکہ کو بخوبی علم تھاکہ اگر وہ افغانستان میں اپنی کٹھ پتلی حکومت تشکیل دے گا تو لازمی طور پر پاکستانی قبائلی علاقے میں اس کے خلاف ردّعمل ہوگا۔امریکی بیانات سے ظاہر ہے کہ جو سات سو ارب ڈالر امریکہ نے افغان جنگ میں ضائع کیے ، ان میں سے صرف وہ بیس پچیس ارب ڈالرہی امریکہ کو عزیز تھے، جو گزشتہ پندرہ سالوں میں پاکستان کو جنگی اخراجات اور معاشی امداد کی مد میں دئیے گئے ۔ اس لیے کہ افغان حکومت اور افغان آرمی کو دئیے گئے سرمایے سمیت ، باقی پونے سات سو ارب ڈالر کا غم اس نے کبھی نہیں منایا۔ امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ جو دہشت گرد افغانستان میں امریکی فوجیوں کو قتل کرتے ہیں، پاکستان میں ان کے لیے محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں ۔اس کے علاوہ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ بہادر کو صرف ان فوجیوں کے مارے جانے پر افسوس ہوتا ہے، جنہیں پاکستان سے جانے والے دہشت گرد نے قتل کر ڈالا ہو۔ سب سے زیادہ غیر ملکی فوجی باغی افغان فوجیوں کی اچانک فائرنگ سے مارے جاتے ہیں لیکن اس پر کبھی کوئی خاص شور شرابا سننے میں نہیں آیا۔17جولائی 2017ء میں ایسے ہی ایک افغان فوجی نے فائرنگ کر کے سات امریکی فوجیوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس سے ایک ہفتہ قبل تین امریکی فوجیوں کو ایک دوسرے افغان فوجی نے کابل میں قتل کر دیا تھا۔ ان واقعات کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتاہے کہ 5اگست2014ء کوافغان نیشنل آرمی کے ایک جوان نے اچانک فائرنگ کر کے امریکی جنرل ہیرولڈ جوزف گرین کو قتل کر دیا تھا ۔ اس کے باوجود امریکہ نے کبھی ان واقعات پر سیاپا نہیں کیا۔ 
ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی یہ ہے کہ افغانستان میں مزید جھک ماری جائے۔ اپنی شکست کی اصل وجوہات تک وہ پہنچ نہیں سکے۔ سطحی انداز میں ایک خام سا جائزہ انہوں نے لیا ہے ۔اب ایک بار پھر حماقت اور مہم جوئی کی اس راہ پر چلنے جا رہے ہیں ، پچھلے پندرہ برس سے جس پہ وہ بگٹٹ ہیں ۔جس کا نقصان امریکہ، افغانستان ، پاکستان اور خطے کے سب کھلاڑیوں کو ہورہا ہے اور ہوتا رہے گا؛اگرچہ سب سے زیادہ خسارہ امریکہ اور افغانستان ہی کے حصے میں آئے گا ۔ نئی امریکی پالیسی صرف ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے ۔ یہ کہ پاکستان پر دبائو آخری حد تک بڑھا دیا جائے ۔ ضرورت پڑنے پر پاکستانی سرزمین پر فضائی حملے کیے جائیں ۔ اس کے علاوہ اس میں کوئی نئی بات نظر نہیں آتی ۔ 
امریکہ اس بات کو بخوبی جانتا تھا کہ پاکستان کی آدھی فوج بھارتی سرحد پر تعینات ہے ۔ کچھ قبائلی علاقے ، سوات، وزیرستان ، کچھ کراچی اور بلوچستان میں ۔ کبھی اسے الیکشن میں اپنے دستے تعینات کرنا ہوتے ہیں اور کبھی سیلاب میں ۔ پاکستان کے پاس اس قدر نفری ہرگز نہیں تھی کہ پاک افغان سرحد کو مکمل طور پر محفوظ بنایا جاسکتاہے ۔ اس کے لیے دو اڑھائی لاکھ جوان اور سالانہ کم از کم دو اڑھائی ار ب ڈالر اضافی درکار تھے ۔ اس کے برعکس آپ یہ دیکھیے کہ جب 2006ء میں جنرل مشرف نے پاک افغان سرحد پر امریکی سرمائے سے باڑ اور بارودی سرنگیں لگانے کا منصوبہ پیش کیا تو حامد کرزئی نے تو انتہائی واویلا کیا ہی، امریکیوں نے بھی پر اسرار خاموشی اختیار کیے رکھی ۔ بعد ازاں امریکہ نے یہ منصوبہ ختم کر دیا۔ اس کے بعد پاکستانی فوج نے ایک دیر پا منصوبہ بنا کر پاک افغان سرحد پر خندق ، باڑ اور گیٹ لگانا شروع کیے ۔ اس پر بھی افغان فورسز کی طر ف سے شدید ردّعمل سامنے آیا ۔ 
آج امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ افغانستان میں امریکیوں کو قتل کرنے والوں کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں حاصل ہیں ۔ وہاں پاکستان نے طنزیہ انداز میں یہ کہا ہے کہ حضور افغانستان کے 40فیصد رقبے پر اس وقت جنگجو قابض ہیں۔ اگر امریکی و عالمی اتحادیوں کی مدد سے امریکہ کی تشکیل کردہ افغان فوج شہروں او ر دیہات پر اپنا قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتی تو پاکستان کو دوش دینے کا کوئی جواز نہیں ۔ 
ان سب تضادات کو اگر آپ دیکھیے اور پھر اس بات کو کہ افغانستان میں بھارت کو ایک بڑا کردار امریکہ کی طرف سے دیا جا رہا ہے تو یہ یقین آنے لگتا ہے کہ امریکہ کا ہدف طالبان کو ختم کرنا نہیں ۔ اس کا ہدف پاکستان کو ختم کرنا ہے ۔2009ء میں ایک لحاظ سے پاکستان ختم ہو ہی چکا تھا لیکن پھرپاکستانی فوج نے fight backکر لیا۔ وہ مضبوط قدموں کے ساتھ کھڑی ہوگئی ۔ فوجی جوان اور افسر شہید ہوتے رہے ، کوئی پیٹھ موڑ کر نہیں بھاگا ۔ کوئی بغاوت نہیں ہوئی ۔ امریکی و برطانوی فوجوں کے برعکس کوئی خودکشی نہیں ہوئی ۔ اگر آپ یہ کہتے ہیں کہ یہ ایک سازشی تھیوری ہے کہ امریکہ پاکستا ن کو تباہ کر نا چاہتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ عراق ، شام اور لیبیا میں کیا امریکہ نے وہ کردار ادا نہیں کیا، جس سے یہ ممالک مکمل تباہی کی طر ف بڑھ گئے ۔ کیا ایٹمی ہتھیاروں ، جدید ترین میزائل پروگرام اور بھرپور لڑاکا فوج کے حامل پاکستان کی تباہی ہی اصل امریکی ہدف ہے ؟ میرا خیال ہے کہ ہاں !

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں