"FBC" (space) message & send to 7575

غمِ روزگار

اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے لیے کمانے کی فکر مرد کو کھا جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آبادی بے تحاشا تیز رفتاری سے بڑھی ہے۔ اس کے مقابلے میں سرکاری ادارے اور نجی کاروبار اس قدر ملازمتیں پیدا کرنے سے قاصر ہیں کہ سب افراد ان میں کھپ سکیں۔ ان حالات میں سرکاری اور نجی تعلیمی ادارے ہر سال بے روزگاروں کی فوجیں مارکیٹ میں داخل کرتے ہیں۔ جب یونیورسٹی سے فارغ ہو کر آپ نوکری کے لیے کہیں ٹیسٹ یا انٹرویو دینے جائیں ، تب ہی آپ کو صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک ہو سکتا ہے ۔ ایک ایک ملازمت کے لیے ہزاروں افراد میدان میں موجود ہوتے ہیں ۔ بہت سارے کیسز میں، وہ سیٹ پہلے ہی کسی کو دی جا چکی ہوتی ہے ۔ ٹیسٹ اور انٹرویو صرف خانہ پری کے لیے منعقد کیے جاتے ہیں ۔ اس خطرناک صورتِ حال میں ایک عام نوجوان کیا کرے؟ 
تصویر کا ایک دوسرا رخ یہ ہے کہ خدا نے جب زمین پر جاندار پیدا کرنے کا ارادہ کیا تو ان کے رزق کا بندوبست کیا۔ فرمایا: زمین پر کوئی جاندار ایسا نہیں ، جس کا رزق ہمارے ذمے نہ ہو اور ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں سے گزرے گا اور کہاں ٹھہرے گا/ مقیم ہو گا۔ ان میں بہت بڑے جاندار بھی تھے، جن میں سے ایک ایک کی خوراک ہزاروں انسانوں کے برابر تھی۔ ڈائنوسار ان میں سرِ فہرست تھے۔ یہ انتہائی بڑے جانور کم و بیش سترہ کروڑ سال تک زمین پر مقیم رہے ۔ یہ کھاتے پیتے رہے اور اپنی نسل بخوبی آگے بڑھاتے رہے ۔ کہا جاتا ہے کہ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے زمین پر گرنے والے ایک دم دار ستارے سے شروع ہونے والے زلزلوں، آتش فشانی، سونامیوں اور موسم کی تبدیلیوں نے انہیں ناپید کر دیا۔ بہرحال فاسلز کا ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ کم و بیش سترہ کروڑ سال تک یہ بخوبی اپنی ضروریات پوری کرتے رہے ۔ اسی طرح نیلی وہیل آج بھی زندہ ہے۔ سو فٹ لمبی نیلی وہیل ایک دن میں چار کروڑ جھینگے کھا جاتی ہے۔ زمین پر مختلف جاندار ایک دوسرے پر منحصر تھے۔ شیر سبزی خور جانوروں کو کھاتے ہیں ۔ سبزی خوروں کے لیے ہر طرف جھاڑیاں موجود ہیں؛ حتیٰ کہ جب کوئی ہاتھی مرتا ہے تو اس کے جسم کو بیکٹیریا کھا جاتے ہیں ۔ زمین کے اوپر اور اس کے نیچے پانی کے ذخائر موجود ہیں ۔ یوں ایسے دائرے (Circle) وجود میں آئے ہیں ، جن میں موت سے پہلے ہر جاندار کی ضرورت پوری ہوتی رہتی ہے ۔ وہ کروڑوں سالوں تک اپنی نسل آگے بڑھاتے رہتے ہیں ۔ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ انسان اپنی عقل اور صلاحیت سے کام لے کر اپنی خوراک کا بندوبست کرتا ہے۔ اس کے برعکس جب آپ گلی میں نکلتے ہیں تو سامنے ایک کتیا بھی اپنے پانچ چھ پلّوں کے ساتھ موجود ہوتی ہے۔ جانور کھاتے پیتے ہیں ، جوان ہوتے ہیں ، نسل بڑھاتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔ ایک بہت بڑے دماغ نے یہ کہا تھا کہ اگر انسان اپنی عقلمندی سے رزق کما رہا ہوتا تو بے وقوفوں اور جانوروں کی نسلیں ختم ہو جاتیں لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا نہیں ہوتا۔ 
انسان بھوک سے نہیں مرتا لیکن بھوک سے مر جانے کا خوف اسے مار ڈالتا ہے ۔ کل کیا ہو گا، یہ ہم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا ۔ جس ادارے میں ہم کام کر رہے ہیں، وہ باقی رہے گا؟ کہیں اور اچھی نوکری مل سکے گی ؟ پھر جب آپ بال بچے دار ہو جاتے ہیں تو آپ کی اولاد میں سے ایک ذہین فطین اور دوسرا ہونق ہوتا ہے۔ اب آپ سوچنے لگتے ہیں کہ جو کم عقل بیٹا ہے ، اس کا کیا ہو گا؟ چھ سال قبل یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد میں نے روزگار کی تلاش میں مختلف سمتوں میں کافی کوششیں کیں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بہت سے لوگ اس طرح سے کوشش بھی نہیں کرتے ، جیسے کہ کرنی چاہیے۔ نوکریوں کے حوالے سے صورتِ حال اگر سنگین ہے تو کیا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جانے سے اس کا حل نکل سکتا ہے؟ آپ اپنی سمت تبدیل کر کے کچھ ہاتھ پائوں تو ماریے، شاید کوئی حل نکل آئے۔ آپ کوئی معاشی سرگرمی کرنے کی کوشش تو کریں۔ جب آپ کوئی کام کرنے کی کوشش کریں گے تو آپ سے جو لوگ منسلک ہیں، وہ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کوئی نہ کوئی مشورہ آپ کو دیں گے۔ آپ غور کرتے رہیں اور جو آپ کو سمجھ آتا ہے، اس کے مطابق کوشش کرتے رہیں ۔ حالات خود بخود آپ کو سکھاتے چلے جائیں گے کہ اب کیا کرنا ہے ۔ آپ کوئی بھی کام کریں ۔ بکرے پالیں، ٹیکسی چلا کر دیکھیں۔ شرمائیں مت اور کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش کریں۔
مجھے ایک شخص یاد آتا ہے ۔ اس کی بیوی گھروں میں کام کرتی تھی اور خود وہ مرگی کا مریض تھا۔ میں اسے ڈاکٹر ملک حسین مبشر کے پاس لے گیا۔ انہوں نے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو۔ اس نے کہا کہ میں بیمار ہوں ، جب صحت مند ہو جائوں گا تو کام کروں گا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ایسے بھی لوگ موجود ہیں، جنہیں روز دورہ پڑتا ہے ، پھر بھی وہ کام کرتے ہیں۔ بہرحال، انہوں نے اسے دوا تجویز کی۔ اسے دورے پڑنے رک گئے ۔ اب میں نے اسے کہا کہ تم بکرے ذبح کرکے کاٹنا سیکھو، ہم یہاں گوشت کی دکان کھولتے ہیں۔ دو تین مہینے کے بعد وہ مجھے نظر آیا ۔ میں نے پوچھا کہ کچھ سیکھا۔ کہنے لگا، میں نے بہت غور کیا ہے۔ اس کام میں نقصان ہو جائے گا ۔ بکرا ملے گا مہنگا اور گوشت کم نکل آئے گا۔ میں نے اسے کہا کہ نقصان ہو گا تو میرا ہو گا، تمہیں کیا مسئلہ ہے۔ تم نے تو مجھ سے تنخواہ لینی ہے۔ وہ آئیں بائیں شائیں کرتا رہا۔ مجھے اندازہ ہوا کہ کام کرنے کی اس کی نیت ہی نہیں ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ دوسروں پر منحصر ہو جاتے ہیں اور پھر کام کرنے کے قابل ہی نہیں رہتے ۔ یہ بہت افسوسناک صورتِ حال ہے۔ 
زندگی میں جو مسائل ہمیں درپیش ہوتے ہیں، چاہے وہ صحت کے حوالے سے ہوں، روزگار کے حوالے سے، بیوی بچّوں کی طرف سے ، آپ کی کمر میں درد رہتا ہو، آنکھیں کمزور ہوں، گردے خون کی ٹھیک صفائی نہ کرتے ہوں ، ایسی ہر صورتِ حال کے خلاف بھرپور جدوجہد کرنا آپ ہی کا کام ہے۔ بہت سے لوگ میں نے دیکھے ہیں کہ شدید ترین مسائل کے خلاف وہ ایک بہت صحت مند جدوجہد والی زندگی گزارتے ہیں۔ منیبہ مزاری کی مثال سب کے سامنے ہے۔ بے شک آپ کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اور ٹانگیں حرکت نہیں کر سکتیں لیکن دماغ تو کام کر رہا ہے۔ ایسے حالات میں بندہ جب محنت کرتا ہے تو بہت سے لوگ اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس کے برعکس ایسے لوگ بھی ہیں ، جنہیں معمولی مسائل درپیش ہوتے ہیں اور وہ ہر وقت روتے ہی رہتے ہیں۔ رونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ آپ اپنے سب دوستوں اور رشتے داروں کو دیکھیے کہ وہ کیا کام کر رہے ہیں ۔ پھر ان کے کام میں ہاتھ بٹانے کی پیشکش کریں ۔ آپ ٹائپنگ سیکھ سکتے ہیں ، ڈرائیور کی ذمے داریاں سنبھال سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو فائدہ مند (useful) ثابت کریں۔ سوچتے رہیں کہ کون سا کام ذاتی طور پر آپ شروع کر سکتے ہیں۔ پھر اسے شروع کرنے کی کوشش کریں۔ کچھ نہ کچھ کریں بلکہ کچھ تو کریں! اور کچھ نہیں کر سکتے تو چینی زبان سیکھ لیں اور اپنے ملک آنے والے چینیوں کو اپنی خدمات پیش کریں۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں