"FBC" (space) message & send to 7575

قسمت بتانے والا

اجنبی مالدار دکھائی دیتا تھا۔ اس کے پاس قیمتی گاڑی تھی۔ ریستوران میں اتنے کا وہ کھانا نہیں کھاتا تھا، جتنی ٹپ دے دیا کرتا۔ اس کے بعد جو ماجرا شروع ہوا، اس نے سب قصبے والوں کے ہوش اڑا دئیے۔ اجنبی مستقبل کے بارے میں بہت کچھ جانتا تھا۔ جوناتھن سے اس نے کہا کہ ایک حادثہ اس کا انتظار کر رہا ہے۔ اگلے روز وہ سیڑھیوں سے گرا اور اس کی ٹانگ بری طرح مجروح ہو گئی۔ اس کے پاس اچھی خبریں بھی تھیں۔ سالہا سال سے خوشخبری کی منتظر ماریہ کو اس نے اولاد کی نوید دی۔ صرف تین دن بعد وہ امید سے ہو گئی۔ یہ وہ حالات تھے، جن میں پورے قصبے کے لیے وہ ایک سلیبرٹی بن گیا تھا۔ ہر شخص مستقبل کا حال جاننے کے لیے اس کے پاس دوڑا چلا جا رہا تھا۔ 
اس کے بعد جو کچھ ہوا، وہ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ مائیکل سے اس نے کہا کہ اپنا ہاتھ اپنی دونوں آنکھوں پر رکھے۔ پھر اس نے کہا کہ آنکھیں کھول کر دیکھو: مائیکل نے دیکھا کہ وہ فلک شگاف عمارتوں کے دامن میں کھڑا ہے۔ حیرت سے وہ ششدر رہ گیا۔ اجنبی نے ہنس کر کہا، نیو یارک کا سفر مبارک ہو۔ چند ہی دن بعد مائیکل کو ایک کمپنی کی طرف سے ملازمت کی خوشخبری ملی، جہاں کئی سال پہلے اس نے اپنے کاغذات جمع کرائے تھے۔ 
اندازہ ہی کیا جا سکتا ہے کہ نیم خواندہ قصبے کے باسی اب کس طرح اجنبی پر ٹوٹ پڑے ہوں گے۔ حیرت انگیز طور پر زیادہ تر لوگوں کو وہ خوشخبریاں ہی دے رہا تھا۔ ہر کوئی ان خوشخبریوں میں اپنا حصہ وصول کرنے اس کی طرف دوڑا چلا جا رہا تھا۔ اگر کوئی رہ گیا تھا تو وہ ایڈم تھا۔ ایڈم اپنے حال میں مست رہنے والا شخص تھا۔ بیوی اس کی مر چکی تھی۔ ڈیڑھ سال کا بیٹا اس کی کل کائنات تھا۔ مزاجاً وہ ایک درویش صفت انسان تھا۔ دو کمروں کے ایک چھوٹے سے مکان میں وہ رہتا تھا، جو اسے ورثے میں ملا تھا۔ اخراجات اس کے نہ ہونے کے برابر تھے۔ صبح سویرے وہ اپنے بیٹے کو کندھے پر اٹھائے آبادی سے دور نکل جاتا۔ فطرت کے نظاروں سے محظوظ ہوتا رہتا۔ واپسی پر خشک لکڑیوں کا ایک ڈھیر اس کی پشت پر ہوتا۔ ایڈم قسمت بتانے والے اور خوشخبریاں دینے والے کے پاس نہیں گیا۔ حیرتوں کی حیرت یہ کہ ایک دن قسمت بتانے والا خود اس کی تلاش میں نکل گیا۔ قصبے والوں سے اس نے پوچھا کہ کیا کوئی رہ گیا ہے، جس نے اپنی قسمت کا حال نہ پوچھا ہو۔ سب نے ایڈم کا نام لیا۔ اگلی صبح اجنبی اسے ڈھونڈتا ہوا وہاں پہنچا، جب ایڈم آبادی کے آخری سرے پر تھا۔ اجنبی نے اسے سلام کہا۔ اس سے پوچھا کہ کیا وہ اپنی قسمت کا حال نہیں جاننا چاہتا؟ 
ایڈم ہنس پڑا۔ اس نے کہا: یہ میرے کندھوں پر سوار بچہ اور لکڑیوں کا ایک ڈھیر میری کل کائنات ہے۔ یہی میری قسمت ہے۔ اس میں کسی تبدیلی کا امکان مجھے نظر نہیں آتا۔ اجنبی نے کہا، اس سے بھی سادہ زندگی رکھنے والوں کی قسمتیں میں نے بدلتے دیکھی ہیں۔ ایڈم بھی اپنا ہاتھ اپنی آنکھوں پر رکھے اور مستقبل کے مناظر دیکھے۔ پھر اس نے خود ایڈم کا ہاتھ پکڑ کر اُس کی آنکھوں پر رکھ دیا۔ ایڈم دیکھنے لگا۔ اس نے دیکھا کہ وہ اپنے مکان کے سامنے کھڑا ہے۔ سنہری بالوں والا ایک نوجوان کلہاڑے کا ایک بھرپور وار اس کے سر پہ کرتا ہے اور بے جان ہو کر وہ نیچے گر جاتا ہے۔ ایڈم نے آنکھیں کھولیں۔ اس کے چہرے پر خوف تھا۔ اس نے پوچھا، وہ نوجوان کون ہے؟ اجنبی نے کہا: یہی، جسے تم اپنے کندھوں پہ لادے پھرتے ہو۔ 
ایڈم نے بے یقینی سے اپنے بیٹے کے سنہرے بالوں کو دیکھا۔ صدمے کی شدت سے اس کا رنگ سیاہ پڑ گیا تھا۔ اجنبی نے کہا، ایڈم اس کو قتل کر دے، اس سے پہلے کہ یہ تجھے قتل کرے۔ میں تیرا دوست ہوں، میں تیرا بہی خواہ ہوں۔ ایڈم کی ٹانگیں اس کا بوجھ اٹھانے سے قاصر تھیں۔ وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ اس کا پورا وجود لرز رہا تھا۔ 
چوبیس گھنٹے بعد، اگلے دن، اجنبی پھر وہیں گھات لگائے بیٹھا تھا۔ پھر اس نے ایڈم کو آتے دیکھا۔ یہ دیکھ کر اجنبی حیرت سے سن ہو گیا کہ اس کا بیٹا اسی طرح اس کے کندھوں پر سوار تھا۔ ایڈم کی آنکھیں سرخ تھیں لیکن وہ اپنے بیٹے کا منہ چوم رہا تھا۔ اس کے ساتھ لاڈ کر رہا تھا۔ اجنبی آگے بڑھا۔ اس نے کہا: ایڈم کیا تو اپنے قاتل کو اپنے کندھوں پر اٹھائے پھرتا ہے۔ ایڈم نے کہا: میرا بیٹا مجھے قتل کر دے گا، یہ بات بہت تکلیف دہ ہے لیکن میں اسے قتل کر دوں، یہ اس سے لاکھوں گنا زیادہ تکلیف دہ ہے۔ اس کے بدن سے مجھے خوشبو آتی ہے۔ میں اسے اپنے کندھوں پر اٹھائے رکھوں گا۔ میں اسے چومتا رہوں گا۔ اس کی ضروریات پوری کرتا رہوں گا؛ حتیٰ کہ وہ سیاہ دن آ جائے، جب یہ مجھے قتل کرے گا۔ 
حیرت اور بے یقینی کی شدت میں اجنبی کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ اس کا علم تو یہ کہتا تھا کہ کوئی مخلوق اپنی جان کے خوف سے آزاد نہیں ہو سکتی۔ کوئی مخلوق اپنے ہونے والے قاتل کو کھلا نہیں چھوڑ سکتی؛ کجا یہ کہ وہ اسے کندھوں پر اٹھائے پھرتی رہے۔ اس نے دیکھا کہ ایڈم کو مکمل طور پر یقین تھا کہ اس کا بیٹا اسے قتل کر دے گا۔ اس کے باوجود وہ کسی صورت اپنے بیٹے کو قتل کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ 
اجنبی نے ایک بار پھر کہا: اسے قتل کر دے ایڈم، نہیں تو یہ تجھے قتل کر دے گا۔ اس کے بعد بستی والوں نے دیکھا کہ ایڈم کلہاڑا اٹھائے اجنبی کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ بمشکل تمام وہ اپنی جان بچانے میں کامیاب ہوا۔ ایڈم اس قدر طاقتور تھا کہ کوئی اسے روکنے کی جرات نہ کر سکا۔ بستی میں یہ بات پھیل چکی تھی کہ ایڈم کا بیٹا ایک روز اسے قتل کرے گا۔ ایڈم ایک اونچی جگہ کھڑا ہوا۔ اس نے کہا: جس نے میرے بیٹے کی طرف میلی آنکھ سے دیکھا یا جو شخص میرے پاس میرے متوقع قتل پر افسوس کرنے آیا، میں اس کے دو ٹکڑے کر دوں گا۔ 
بستی والوں کے سامنے ایڈم اپنے بیٹے کو سینے سے لگائے زندگی بسر کرتا رہا۔ اس کا بیٹا بچپن سے لڑکپن اور لڑکپن سے جوانی کو پہنچا۔ پھر وہ افسوسناک دن آیا۔ بستی والوں کو اطلاع ملی کہ ایڈم کو قتل کر دیا گیا ہے۔ قاتل موقع ہی سے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ وہ سنہرے والوں والا ایک نوجوان تھا، جو میڈم ماریہ کے گھر سے چوری کرکے باہر نکلا تھا کہ ایڈم نے اسے دیکھ لیا۔ بڑھتی عمر کے باعث ایڈم کمزور ہو چکا تھا لیکن اس نے نوجوان کا پیچھا کیا۔ نوجوان کسی صورت گرفتار ہونے پر آمادہ نہیں تھا۔ اس نے کلہاڑے کے وار کرکے ایڈم کو مار دیا۔ 
بستی والوں نے دیکھا، وہ سنہرے بالوں والا نوجوان ایڈم کا بیٹا نہیں تھا۔ ایڈم کا بیٹا تو اپنے باپ کی لاش سے لپٹ کر رو رہا تھا۔ اس روز بستی والوں کو علم ہوا کہ قسمت بتانے والا اجنبی کون تھا۔ وہ شیطان تھا۔ وہ جھوٹا تھا اور ایک باپ کے ہاتھ سے اس کا بیٹا قتل کرانے آیا تھا۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں