"FBC" (space) message & send to 7575

کوئی توعقل کی بات کرے

ایک بہت بڑے دانشور نے یہ کہا تھا: صرف اسی وقت منہ کھولنا ، جب تمہیں یقین ہو کہ تمہارے الفاظ خاموشی سے زیادہ خوبصورت ہیں ۔ خاموشی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ جاہل کا بھرم ہے ۔عمدہ پوشاک پہنے، ایک خوبصورت آدمی، سقراط کے پاس اٹھلاتا ہوا آیا۔ دانشور نے کہا : کچھ بولیے حضور!تاکہ آپ کی قابلیت معلوم ہو ۔شیخ سعدی نے کہا تھا: مجھے ان الفاظ پر کئی دفعہ ندامت ہوئی، جو میرے منہ سے ادا ہوئے لیکن مجھے اپنی خاموشی پر کبھی ندامت نہیں ہوئی ۔خاموشی ندامت کا باعث بن ہی نہیں سکتی۔ سچ یہ ہے کہ انسان کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ اور اس کے ہاتھ سے ہونے والا ہر اقدام اس کے لیے نتائج کا باعث بنتا ہے ۔ مجھ جیسے لوگوں کے بارے میں کسی نے یہ کہا تھا: کچھ لوگوں کو پڑھنا چاہیے لیکن وہ لکھ رہے ہیں ۔ بہت سے ایسے مضمون پڑھنے کو ملتے ہیں کہ بندہ کام کی بات ڈھونڈتا ہی رہ جاتا ہے ۔ آخر سمجھ یہ آتا ہے کہ مقصد اِدھر اُدھر کی ہانک کے ، کسی نہ کسی طرح کاغذ کا منہ کالا کرنا مقصود تھا۔ چلیں ، اس کی پھر بھی کوئی تُک ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو بات کرنے کا معاوضہ ملتا ہے ۔ کچھ ہستیاں ایسی بھی ہیں، جو بلا معاوضہ اپنی ان خدمات سے عوام الناس کو محظوظ فرما رہی ہیں ۔
یہ ایک عجیب عہد ہے ، جس میں ہم زندگی بسر کر رہے ہیں ۔ ہزاروں سالہ انسانی تاریخ میں ، اہم جگہوں پر، جرگوں اوربیٹھکوں میں ، وہ لوگ کلام کیا کرتے ، جنہوں نے اس زندگی کو بہت گہرائی میں اتر کر جانچا ہوتا ۔ جنہوں نے در در کی خاک چھانی ہوتی، ہر گھاٹ کا پانی پیا ہوتا یا پھر وہ،جن کی observationبہت گہری ہوتی ۔ سوشل میڈیا کی وجہ سے اب ہر شخص بولنے کے لیے آزاد ہے ۔وہ لوگ ، جو باقاعدہ طور پر اخبار بھی نہیں پڑھتے، جنہیں انگریزی اصطلاحات سے بھرپور ڈیٹا فراہم کر دیا جائے تو وہ تصدیق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ؛البتہ اسے آگے پھیلانے کی ضرور کوشش کرتے ہیں۔ جو انسانی جبلتوں ، جذبات اور عقل کی بنیادی حرکیات (Mechanics) کو نہیں سمجھتے ۔ جنہیں کبھی کوئی اچھا استاد نہیں ملا ۔ جو غلط حقائق کو درست سے الگ نہیں کر سکتے ۔ میں ان کی بات نہیں کر رہا ، جو کسی ریاست کے خلاف disinformation پھیلانے والوں سے نبرد آزما ہیں ۔ 
سوشل میڈیا نے دو چیزوں میں بہت برکت عطا کی ہے ۔ ایک دکھاوا اور دوسری یاوہ گوئی۔ کبھی شادی بیاہ کے مواقع پر امرا میں یہ جنگ ہوا کرتی تھی کہ کون کتنا سرمایہ لٹا سکتاہے ۔ آج ہم دیکھ سکتے ہیں کہ دس سال پہلے کی نسبت تہواروں پر ضرورت سے زیادہ سرمایہ لٹایا جاتا اور لٹاتے ہوئے دکھایا جاتا ہے ۔ حج عمرہ ہو ، قربانی یا زندگی کا کوئی بھی موقع ، سیلفیوں کے بغیر نامکمل ہے ۔ اب کسی بھی تقریب سے لطف اٹھانے کی بجائے اسے captureکرنے کی فکر زیادہ لاحق ہوتی ہے تاکہ لوگوں کو دکھایا جا سکے ؛حالانکہ لوگوں کو ہماری خوشیوں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں ہوتی ۔ خوبصورت لمحات کو موبائل میں قید کرنے کی اس فکر نے ہمیں ان لمحات سے اس وقت لطف اندوز ہونا بھلا دیا ہے ، جب وہ رونما ہو رہے ہوتے ہیں ۔ ایک تصویر یاد آتی ہے ۔ لوگوں کا ایک ہجوم اپنے اپنے موبائل اٹھائے کسی ہیرو کی تصویر بنانے میں مصروف ہے ۔ صر ف ایک بوڑھی خاتون ہے ، جس کے پاس موبائل نہیں اور وہ مسکراتے ہوئے ،اپنی آنکھوں سے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کو دیکھ رہی ہے ۔
چلیے ، سوشل میڈیا کے بارے میں کہا جا سکتاہے کہ اس میںاکثریت کم عمر لڑکے لڑکیوں کی ہے ۔ مین سٹریم میڈیا کیا کر رہا ہے ؟ کبھی پی ٹی وی کے ڈراموں میں ایک زبردست کہانی،خوبصورت اداکاری اورمکالمے نظر آتے تھے ۔ آج بھارت کی نقالی میں ایسے سیریل، جن میں عورتیں ناگن اور مرد نیولے کا روپ دھارتے نظر آتے ہیں ۔ ایک پوری قسط گزر جاتی ہے ، مجال ہے کہانی ایک قدم بھی آگے بڑھ سکے ۔ دو تین روز قبل ایک قومی چینل کھولا۔ مجھے اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا۔ ناچنے کا مقابلہ منعقد کیا گیا تھااور ناچ کون رہا تھا ؟ متوسط طبقے کے نوجوان بلکہ نوجوان بھی نہیں۔ تیرہ چودہ سالہ لڑکے لڑکیاں ۔ ابھی وہ لڑکپن میں تھے ۔ کئیوں کے چہروں پر الجھن تھی ۔ انہیں غالباً سمجھ بھی نہیں آرہاتھا کہ وہ کیوں ناچ رہے ہیں ۔ پہلی سے دسویں جماعت تک اسلامیات کے جو سبق پڑھے تھے، وہ ابھی تازہ تھے لیکن ناچنا بھی ضروری تھا۔ اس سے انعام ملتا ہے ۔ یوں وہ بیچارے اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق تھوڑی بہت اچھل کود کر رہے تھے ۔ 
دو تین سال پہلے ایک پروگرام شروع کیا گیا تھا ۔ ملک بھر سے لڑکے لڑکیوں کو مدعو کیا گیا تھا ۔ انہیں یہ چیلنج دیا گیا تھا کہ وہ کچھ جرأت مندانہ چیز کر کے دکھائیں ۔ جو دوسرے نہ کر سکیں ۔ سترہ اٹھارہ برس کے لڑکے اور لڑکیاں جرأت مندی کا مظاہرہ کرنے کی کوشش میں وہ الٹی سیدھی حرکتیں کر رہے تھے کہ بندہ اپنے اہل و عیال کے سامنے شرم سے پانی پانی ہو جائے ۔آپ جسمانی قوت کا مظاہرہ کرا تے ہیں ۔ اس چیز کا مقابلہ کیوں نہیں کرتے کہ کون زیادہ بڑی عقل کی بات کرتا ہے۔ آپ ایجادات کا مقابلہ کیوں نہیں کراتے ۔ یہ کیسا مقابلہ ہے کہ کون زیادہ لچک کے دکھائے گا ۔ بھارت کی نقالی میں احساسِ کمتری کے مارے ہوئے فکری بونوں کا بس نہیں چل رہا کہ اپنے کپڑے نوچ پھینکیں۔ وہ لباس ، جسے خدا نے ہماری زینت بنایا تھا ، اسے وہ قینچی سے کترنے میں مصروف ہیں ۔ خواتین کی مخصوص اشیا بیچنے والے بھی کسی سے پیچھے نہیں ۔
مارننگ شوز میں جن نکالنے والی ایک ہستی یاد آتی ہے ۔ ایک کے بعد دوسرے اور دوسرے کے بعد تیسرے چینل اور پروگرام میں وہ صاحب تشریف لاتے اور لوگوں کے جن نکالتے ۔ ان لوگوں کے، جنہیں دورے پڑتے اور جو عجیب و غریب آوازیں نکالتے۔ آخر ان صاحب کو ایک ٹی وی پروگرام میں بلایا گیا۔ ان کی خفیہ ریکارڈنگز بنائی گئیں ، جن میں وہ پروگرام کے میزبان سے درخواست کرتے نظر آتے ہیں کہ ان سے تعاون کیا جائے ۔ جس لڑکے کو جنات کے قابو میں دکھانا تھا، اسے وہ بتاتے ہیں کہ کس طرح کی چیخیں اور کس طرح کی حرکات اسے کرنا ہوں گی ۔ بعد ازاں یہ سب ریکارڈنگز چلا دی گئیں ۔ ساری دنیا نے دیکھا کہ جن نکالنے سمیت جو جو کارنامے وہ حضرت انجام دیتے تھے ، وہ سب جھوٹ تھا۔ اس سے بھی خوفناک بات یہ تھی کہ بہت سے چینلز ان کے ساتھ مل کر یہ جھوٹ عوام الناس کو دکھاتے رہے ۔ لوگوں کو یہ یقین دلاتے رہے کہ ان پر جادو ہو چکا ہے اور انہیں کسی عامل سے رابطہ کرنا چاہیے ۔ایک چینل نے تو حد ہی کردی ۔ اپنی عدالت لگا لی۔ ایک گھنٹے کے پروگرام میں کسی بھی تنازعے میں دونوں طرف کے دلائل سن کر ایک جج کے طور پر باقاعدہ فیصلہ صادر فرماتے ۔ ایک چینل پر تشہیر ہوتی ہے : ڈاکٹر صاحب میرے پاس پیسے نہیں اور میں دل کا آپریشن نہیں کرا سکتا۔ ڈاکٹر کہتا ہے : کوئی بات نہیں ، آپ اسلامی نسخہ ء قلب استعمال کر لیں ۔ آپ کی ساری شریانیں کھل جائیں گی ۔ 
کوئی تو عقل کی بات کرے ۔ someone should cry halt۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں