"FBC" (space) message & send to 7575

بڑوں کے فیصلے

ہمارے ہاں سب سے کم توجہ جس چیز پر دی جاتی ہے ، وہ بچّوں کا رجحان ہے۔ عقلمند والدین اولاد پر اپنی مرضی مسلّط نہیں کرتے ۔ وہ انہیں اپنے فطری رجحانات ظاہر کرنے کا موقع دیتے ہیں ۔ مختلف شعبوں کو ہم نے مختلف مقدار میں عزت الاٹ کر رکھی ہے ۔ پائلٹ ، فوجی ، ڈاکٹر اور انجینئر عزت والے شعبے ہیں ۔ اس سے نیچے بات نہیں ہو سکتی ۔ ہو سکتاہے کہ آپ کی اولاد میں تعمیرات کے شعبے میں کچھ انوکھا کر دکھانے کی صلاحیت ہو۔ اگر وہ اپنا شوق ظاہر کر بھی دے تو والدین یہ کہتے ہیں کہ بیٹا ٹھیکیدار بن کے کیا کرنا ہے ۔ حالات کی ستم ظریفی اگر اسے بیرونِ ملک لے جائے تو وہاں اس کے برتن دھونے پر بھی انہیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔
ایک خاتون یاد آئیں ۔ کہتی ہیں کہ میرے شوہر کی گندم کٹائی (یا صفائی ) کی مشین ہے ۔ مختلف لوگ ان سے کرائے پر مشین لیتے ہیں اور ٹھیک ٹھاک آمدن ہو جاتی ہے لیکن میرا دل مطمئن نہیں ۔ جب وہ واپس آتے ہیں تو ان کا لباس گرد آلود ہوتا ہے ۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ وہ پینٹ کوٹ پہن کر ، ٹائی لگا کر جایا کریں ۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔ میں نے کہا کہ اپنے اچھے خاصے آزاد شوہر کو آپ کسی کا غلام بنانا چاہتی ہیں ۔ بظاہر انسان پینٹ کوٹ اور ٹائی میں بہت اچھا لگتا ہے لیکن اس ٹائی کا دوسرا سرا اکثر اس کے باس کے ہاتھ میں ہوتا ہے ۔ وہ جہاں چاہے اسے لے جا تا ہے ۔ میں نے ایک جگہ چند ماہ نوکری کی تھی ۔ مجھے یاد آتا ہے کہ اچھا خاصا افسر، جو ہم ریکروٹوں کے لیے بہت بلا چیز ہوتا ،اس کاسینئر اسے ہم جونیئرز کے سامنے جب چاہے بے عزت کر کے رکھ دیتا ۔ اللہ کا شکر ہے کہ زندگی میں اپنے سارے فیصلے میں نے خود کیے ۔ چاہے وہ سی اے میں داخلہ تھا یا بعد ازاں ایم بی اے کا۔لکھنے کا شعبہ تھا یا بکروں اور کنسٹرکشن کا کاروبار کرنے کی کوشش، کبھی والدین نے اپنی مرضی ہم پر مسلط نہیں کی۔ 
میں بیس سال کا تھا، جب میں نے حفظ کرنے کا فیصلہ کیا ۔ مدرسے میں اور اردگرد کے لوگوں نے تو عمر زیادہ ہونے کا اعتراض کیا لیکن گھر سے کسی دبائو کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں نے اٹھارہ سیپارے حفظ کر لیے ۔ میں سب والدین سے یہ درخواست کرتا ہوں کہ جب آپ کے بچّے کسی کام میں دلچسپی لے رہے ہوں ، کچھ کرنے کی کوشش کر رہے ہوں ، آپ رکاوٹ نہ بنیں ۔ ہر بچّے میں منفرد صلاحیتیں ہوتی ہیں۔ یہ صلاحیتیں اسی وقت نکھرتی ہیں ، جب اسے ان کے استعمال کا موقع ملے ۔ اگر آپ دبائو ڈال کر اسے اپنی مرضی کے راستے پر چلائیں گے تو وہ بیچارہ آپ سے لڑ تو نہیں سکتا لیکن وہ زبردستی کے اُس شعبے میں کسی خاص کارکردگی کا مظاہرہ بھی نہیں کر سکے گا۔ ایک عزیزہ کا رجحان فائن آرٹس کی طرف تھا۔ پینٹنگز، کیلی گرافی کی طرف ۔ اچھی خاصی پینٹنگز وہ بناتی رہتی ہے لیکن اسے دھکا لگا کر ، motivateکر کے فاطمہ جناح یونیورسٹی میں سیاست پڑھنے پر لگا دیا گیا۔ ایک سال زور لگانے کے بعد وہ بیچاری پڑھائی ادھوری چھوڑ کے گھر آگئی ۔ گھر والوں کا خیال یہ ہے کہ ہاتھ میں ''برشی‘‘ پکڑنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ جب ایک شخص کے اندر ایک صلاحیت بھی ہو لیکن اسے زور لگا کر اس کے شعبے میں جانے سے روکاجا رہا ہو تو یہ دیکھ کر افسوس ہوتاہے ۔ 
بچّوں کے رجحان جانچنا کوئی بہت پیچیدہ کام نہیں ۔ مجھے چھ بچّوں سے واسطہ پڑا۔ رانیا اڑھائی تین سال کی تھی ، جب وہ پاکستان سے چلی گئی ۔ وہ پینٹنگ اور فائن آرٹس کا رجحان رکھتی ہے ۔ دماغ تیز ہے ۔ ایشامعظم حساس طبیعت رکھتی ہے ۔ وہ decentہے ۔ اسے بھی تصاویر بنانے کا شوق ہے ، پرنٹر والے سفید کاغذ جمع کرنے کا ، ڈائری بنانے کا ۔ عائلہ انتہائی غیر حساس طبیعت رکھتی ہے ۔ وہ جان بوجھ کر ایسے کام کرتی ہے ، جو دیکھنے والوں کو irritateکریں ۔ اس کی خاص بات یہ ہے کہ وہ انتہائی سخت جان ہے ۔اسے بیماری میں کبھی روتے دھوتے نہیں دیکھا گیا ؛حالانکہ دوسرے بچّے رو رو کے خود کو ہلکان کر لیتے ہیں ۔ فاطمہ انتہائی حساس ہے ۔ ذرا سی بات پر رونے لگتی ہے یا روٹھ جاتی ہے ۔ اس کی خاص بات یہ ہے ، جو اسے دوسرے سب بچوں سے منفرد کرتی ہے ، وہ یہ کہ فاطمہ بہت عمدہ فیصلہ ساز (Decision maker)دماغ رکھتی ہے ۔اسے کوئی بھی فیصلہ کرنے میں چند سیکنڈ سے زیادہ نہیں لگتے ۔ وہ کبھی کنفیوژ نہیں ہوتی۔
میکائیل رشید جارحانہ طبیعت رکھتاہے ۔ وہ اپنے سے بڑے بچّوں سے بھی لڑتا رہتاہے ۔ وہ رسک لینے میں ذرا سی بھی تاخیر نہیں کرتا لیکن اپنے اس جارحانہ مزاج کی وجہ سے نقصان اٹھاتا ہے ۔ فرید الدین احمد انتہائی مہذب طبیعت کا مالک ہے ۔ وہ دو سال کا تھا، جب اسے بتایا گیا کہ قالین پر جوتے لے کر نہیں آنا۔ اس نے کبھی اس کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہ کمزور دل رکھتاہے ۔ رسک نہیں لیتا لیکن وہ دماغ استعمال کرنے کا عادی ہے ۔ دماغ استعمال کرنے کی صلاحیت کی وجہ سے ہرچیز وہ جلدی سیکھتا ہے ۔ اپنی عمر سے زیادہ سمجھدار ہے ۔ عقل استعمال کرنے کی وجہ سے وہ نقصان سے بچا رہتاہے اور یہ ایک بہت بڑی خاصیت ہے ۔ 
میں نے ان سب بچّوں کو فٹ بال کھیلنے کا موقع دیا۔ جلد ہی یہ بات واضح ہو گئی کہ فریدالدین احمد پوری سنجیدگی سے فٹ بال کھیلنا چاہتا تھا۔ اب میں ایک گھنٹہ پیدل چلنے کی بجائے اس کے ساتھ فٹ بال کھیل لیتا ہوں ۔ تیز دوڑنا ، دل کی دھڑکن تیز ہونا ، یہ صحت کے لیے ایک ایسی نعمت ہے ، جو دنیا کی کسی اور چیز میں نہیں مل سکتی ۔ یہ انسانی صحت کے لیے انتہائی مفید ہے۔ زمین پر دوڑنے کا کوئی نعم البدل نہیں ؛حتیٰ کہ مہنگے ترین جم بھی کوئی متبادل پیش نہیں کر سکتے۔ جو بچّے جسمانی اچھل کود زیادہ کرتے ہیں ، ان کی ذہنی اور دماغی نشوو نما دوسروں سے بہتر ہوتی ہے ۔ پھر یہ کہ تیز بھاگنا یا کوئی بھی ایسی جسمانی مشقت ، جس میں دھڑکن تیز ہو، یہ ڈپریشن کا بہترین علاج ہے ۔ اب یہ چھ بچوں کے علیحدہ علیحدہ مزاج اور رجحان ہیں ۔ اگر بندہ ڈنڈا پکڑ کے سب کو ڈاکٹر یا انجینئر بننے کا حکم سنادے تو ساری زندگی اپنے مزاج سے لڑتے رہنا کس قدر مشکل کام ہے اور کس لیے ؟ ایک بچّے میں فٹ بالر بننے کا رجحان ہے ۔ آپ اسے زبردستی فوج میں دھکا دے رہے ہیں ۔ اس کا مزاج سوچنے اور غور کرنے کا ہے ، اسلحہ چلانے کا نہیں ۔ 
ایک خاتون کی ای میل یاد آئی۔ کہتی ہیں : میں نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنے بیٹے کو میں ٹیپو سلطان بنائوں گی ۔اس کی تربیت ایسی کروں گی کہ وہ ٹیپو سلطان بن جائے۔ محترمہ ، پہلی بات تو یہ ہے کہ ٹیپو سلطان یا کسی بھی شعبے میں جو لوگ غیر معمولی ثابت ہوتے ہیں ، خدا کی طرف سے ان میں پیدائشی طور پر دوسروں سے زیادہ صلاحیت (Talent)ہوتی ہے ۔ ہو سکتاہے کہ آپ کا بیٹا زراعت کے شعبے میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہو۔زبردستی ٹیپو سلطان بناتے بناتے کہیں وہ بیچارہ ڈپریشن کا مریض نہ بن جائے۔پہلے اس سے پوچھ نہ لیں کہ وہ کیا کرنا چاہتا ہے ؟

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں